محمد شاہ رنگیلے سے ملکہ وکٹوریہ تک


کہنے کو تو شفیق الرحمان نے پیروڈی لکھی ہے مگر ”مزید حماقتیں“ کے مضمون ”تزک نادری“ کو ہم تاریخ کی بہت سی کتابوں سے زیادہ معتبر جانتے ہیں۔ نادر شاہ افشار کا لشکر دہلی کی طرف بڑھ رہا تھا اور تخت دہلی عیش و عشرت میں مصروف تھا۔ تزک نادری یہ معاملہ کچھ یوں بیان کرتی ہے۔

”محمد شاہ کو ہماری تشریف آوری کا علم ہو چکا تھا۔ ایک مرتبہ تو اس نے ایلچی کو خط اور لفافے سمیت شراب کے مٹکے میں دھکیل دیا اور بولا ’ایں ایلچی بے معنی غرق مے ناب اولٰی‘۔ کسی طبلچی نے حافظ کا یہ مصرعہ صحیح کرنا چاہا تو محمد شاہ نے اسے بھی مٹکے میں دھکیل دیا۔ آدمی با مذاق معلوم ہوتا ہے“۔

نادر شاہ کا دہلی میں ورود ہوا۔ اس نے قتل عام کیا۔ اور شفیق الرحمان نے اس کی زبانی دربار کا احوال بیان کیا۔
”عزیزی محمد شاہ بھی لال قلعے ہی میں وہیں کہیں رہتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ ہندوستان کا بادشاہ ہے لہذا اپنے تئیں شہنشاہ ہند کہلاتا ہے۔ رنگین خواب دیکھتا ہے، رنگین لباس پہنتا ہے، رجعت پسند ادب اور تنزل پسند شاعری کا گرویدہ ہے لیکن حرکتیں سب ترقی پسند کرتا ہے۔

کل وزیر جنگ نے بتایا کہ ملک کے کچھ اور حصوں نے خود مختاری کا اعلان کر دیا ہے۔ عزیزی محمد شاہ خوش ہو کر کہنے لگا ’اب ملک کا بیشتر حصہ خود مختار ہو چکا ہے۔ جتنے صوبے اور ریاستیں خود مختار ہوں گی، اتنا ہی ہمارا کام کم ہو جائے گا۔ ملک کے ریاستوں میں بٹتے ہی ان کی رہاست ہائے متحدہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں‘۔ “

صاحبو اورنگ زیب کے بعد مغل دربار کا یہی حال تھا۔ سلطنت لٹے یا مٹے، شہنشاہ کو اس کی فکر نہیں تھی۔ وہ اپنے حال میں مست تھا۔ ایسے میں کمپنی بہادر تو آتی ہی ہے۔ آ گئی۔ سراج الدولہ سے بنگال لیا، بہادر شاہ ظفر سے تخت لیا اور مغل شہزادوں سے سر۔

کمپنی بہادر آئی۔ کمپنی بہادر اور اس کے بعد تاج برطانیہ نے اپنے مقبوضہ ہندوستان کو ایک کمپنی کی مانند چلایا۔ ہندوستان ایک زرعی ملک تھا۔ ادھر نہریں بنائی گئیں تاکہ بنجر زمینیں پیداوار دیں۔ ریل کا نظام بنایا گیا تاکہ امن قائم کرنے کے لئے فوجی دستے تیزی سے حرکت کریں اور تجارت بھی ہو۔ تعلیمی ادارے بنائے تاکہ مقبوضہ کمپنی چلانے کے لئے مقامی اہلکار دستیاب ہوں۔ امن قائم کرنے پر توجہ دی کہ معاشی ترقی امن سے مشروط ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ٹھگی کا انسداد برطانوی ہند کی تاریخ کا ایک دلچسپ واقعہ ہے۔

انسانی تاریخ میں شاید ہندوستان کے ٹھگوں سے زیادہ منظم اور بڑا جرائم پیشہ گروہ کوئی نہیں گزرا ہے۔ اگر معزز جج صاحبان کی توجہ انگریزی پلپ فکشن کے علاوہ دیسی تاریخ پڑھنے پر بھی ہوتی تو وہ گاڈ فادر کی بجائے ٹھگ کی اصطلاح استعمال کرتے۔

ٹھگوں کا ذکر سب سے پہلے ضیا الدین برنی کی تقریباً سنہ 1356 میں لکھی ہوئی ”تاریخ فیروز شاہی“ میں ملتا ہے۔ ٹھگوں کی اپنی خفیہ زبان تھی جس سے وہ آپس میں گفتگو کر سکتے تھے۔ اشارے تھے جن کی بنیاد پر منصوبہ چلتا تھا۔ رسوم و رواج تھے۔ کالی دیوی کی پوجا کی جاتی تھی اور اس کے سامنے قربانی دی جاتی تھی۔ یہ پوجا کرنے والوں میں ہندو اور مسلمان دونوں مذاہب کے ٹھگ ہوتے تھے۔

ٹھگ کسی مالدار مسافر یا قافلے کو تاڑ کر اس کا اعتماد حاصل کرتے تھے اور شریک سفر ہو جاتے تھے۔ پھر کسی مناسب موقع پر ٹھگوں کی اس ٹولی کا سردار ”پان لاؤ“ کا حکم دیتا تھا اور پہلے سے تیار کھڑے ٹھگ شکار کی گردن میں رومال ڈال کر اس کا گلا گھونٹ دیتے تھے۔ ٹھگوں میں شکار گھیرنے، پلاننگ کرنے، گلا گھونٹنے، قبر کھودنے وغیرہ کے ماہرین موجود ہوتے تھے اور ایک بہترین مشین کی مانند چند منٹوں میں شکار کو مار کر دفن بھی کر دیا جاتا تھا۔

برطانوی مقبوضات کی سڑکیں تجارت کے لئے غیر محفوظ ہو گئیں۔ حالانکہ ٹھگ اس چیز کا خاص خیال رکھتے تھے کہ کسی گورے کو شکار نہ بنائیں مگر کمپنی بہادر کو ٹھگوں کی وجہ سے تجارت کے ضمن میں مالی نقصان ہو رہا تھا۔ ولیم ہنری سلیمین وہ پہلا افسر تھا جس نے ٹھگوں کے خلاف کام شروع کیا۔ ولیم سلیمین کو یقین تھا کہ اس کے علاقے میں ہر طرف امن امان ہے اور چھوٹی موٹی چوری کے علاوہ کوئی جرم نہیں ہوتا اور وہ اپنے علاقے کے جرائم پیشہ افراد کو انگلیوں پر گن سکتا ہے۔

سنہ 1830 میں فرنگیا نامی ایک ٹھگ پکڑا گیا اور سلطانی گواہ بن گیا۔ فرنگیا نے بتایا کہ وہ ٹھگوں کے ایک بڑے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے جو کچھ بتایا، وہ اتنا ہیبت ناک تھا کہ سلیمین اس پر یقین کرنے کو تیار نہ ہوا۔ سلیمین کسی دیسی کی ایسی بات پر یقین نہ کرتا تھا جس کا ثبوت موجود نہ ہو۔ فرنگیا اسے ایک ایسی قبر پر لے گیا جہاں سینکڑوں لاشیں دفن تھیں۔ اس نے قاتلوں کے نام بتائے اور قتل کی وارداتوں کے حالات بتائے۔ سلیمین کو یقین آ گیا۔

اس منظم تنظیم کی ہلاکت خیزی دیکھتے ہوئے گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹک نے ٹھگوں کے خلاف کارروائی کی۔ سنہ 1835 میں ٹھگی اور ڈکیتی ڈیپارٹمنٹ بنا کر ولیم ہنری سلیمین کو اس کا سپرنٹنڈنٹ بنایا گیا۔ ولیم سلیمین نے جاسوسوں کا جال بچھا دیا۔

سنہ 1831 سے لے کر 1837 تک 3288 ٹھگ پکڑے گئے، جن میں سے 412 کو پھانسی دے دی گئی، 483 سلطانی گواہ بن گئے اور بقیہ کو عمر قید یا جلاوطنی کی سزا دی گئی۔ صدیوں سے قتل و غارت کرنے والا ٹھگ قبیلہ محض چھے برس کی مدت میں نیست و نابود ہو گیا۔ ولیم ہنری سلیمین اور اس کے سترہ ماتحتوں نے ایک ناممکن کام کر دکھایا۔

ٹھگ جمعدار (سردار) بہرام کو دنیا کے سب سے بڑے سیریل کلرز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس نے کم و بیش 931 انسانوں کو رومال سے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا یا کروایا تھا۔ اسے 1840 میں پھانسی دے دی گئی۔

اس زمانے میں کپتان ویلینسی، مدراس جرنل میں لکھتا ہے ”وہ دن جب یہ ہر جگہ پھیلی ہوئی شیطانیت ہندوستان کی سرزمین سے ختم ہو کر صرف نام کی حد تک باقی رہ جائے گی، برطانوی راج کو مشرق میں حیات ابدی بخشنے کا باعث ہو گا“۔

سنہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان کا کنٹرول کمپنی بہادر سے لے لیا گیا اور یہ خطہ براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت ہو گیا۔ پھر جدیدیت کا سفر شروع ہوا جس کا نقطہ عروج ملکہ وکٹوریہ کا دور تھا۔

محمد شاہ رنگیلے اور برطانوی حکمرانوں میں یہی فرق ہے کہ رنگیلے حکمران ’ایں ایلچی بے معنی غرق مے ناب اولٰی‘ کہہ کر معاملے پر پانی ڈال دیتے ہیں اور برطانوی حکمران مسئلے کو حل کرنے کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ برطانیہ چلا گیا۔ ہمیں آزاد کر گیا۔ بدقسمتی سے ہم پر دوبارہ رنگیلے حکمران مسلط ہو گئے ہیں۔ اب ڈینگی حملہ کرے گا تو سردی میں خود ہی ختم ہو جائے گا۔ زہریلی سموگ آئے گی تو گرمی میں خود ہی چلی جائے گی۔ حکمرانوں کو طویل مدتی منصوبہ بنا کر یہ عذاب ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ خوش ہیں کہ ”جتنے عوام مریں گے، اتنا ہی ہمارا کام کم ہو جائے گا“۔
09/11/2017

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar