اسلام اور اسلام آباد کے محصور و مجبور شہری


آئے روز اسلام آباد پر دھاوا بولا جاتا ہے ریڈ زون سے لے کر اسلام آباد اور راولپنڈی کے داخلی اور خارجی راستوں پر کنٹینر لگا کر اسےسیل کر دیا جاتا ہے اور اسلام آباد، راولپنڈی کے لوگ اپنے ہی شہر میں یرغمال بن کر رہ جاتے ہیں۔ اسکول کالج کے بچے بچیاں اپنے گھر واپس جانے کے لیے پریشان نظر آتے ہیں کہ وہ کس طرح واپس اپنے گھر جائیں گے۔ اگر کوئی راستہ کھلا مل بھی جائے تو اس پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آ تی ہیں۔ گاڑی کے اندر پھنسے لوگوں کے لیے 10 منٹ کا فاصلہ گھنٹوں کا بن جاتا ہے۔ چھوٹے بچے، بچیاں بے حال ہو کر گاڑیوں میں چیخ و پکار شروع کر دیتے ہیں۔ جلد بازی اور گھر جانے کی جلدی میں سینکڑوں گاڑیاں ٹکرا جاتی ہیں۔ اور لوگ پریشان ہو کر بات بات پر لڑتے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔

کوئی جلاؤ گھیراؤ کی باتیں کر رہا ہے تو کوئی پارلیمینٹ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کر رہا ہے کہ لوگوں کا طوفان آئے گا جو پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے گناہ گاروں کو اُڑا کر لے جائے گا۔ سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ میڈیا بھی شہر کے راستے بند ہونے کی خبر نہیں چلا رہا ہے۔ بےبس لوگ اپنی قسمت اور ان کے ڈر سے خاموش ہو کر تکلیف سہہ رہے ہیں۔ ہر کسی کی زبان پر بس یہی سوال ہیں کہ کون سا راستہ کھلا ہے؟ ریلی کہاں تک پہنچی ہے؟ یہ لوگ کب تک جائیں گے، راستے کب تک کھلیں گے؟

بیچارے لوگ تو پہلے ہی مہنگائی اور اس مشین نما زندگی سے کیا کم تنگ تھے کہ راستے بند ہونے کے وجہ سے ایک اور نیا عذاب نازل ہو گیا۔ ابھی تو لوگ طاہرالقادری صاحب کی سیاست نہیں ریاست بچانے والے پیغام اور عمران خان صاحب کی کرپشن اور دھاندلی کو ختم کرنے والے دھرنوں کو نہیں بھولے کہ مذہب کے نام پر نیا انقلاب لانے والے اسلام آباد اور راولپنڈی پہنچ گئے ہیں۔

دیکھا جائے تو ہمارا مذہب اسلام امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے جس میں کوئی جبر نہیں۔ انسان اور انسانیت سب سے افضل اور اعلیٰ ہیں۔ کسی بھی انسان کو تکلیف پہنچانا گناہ کے زمرے میں آتا ہے مگر ہم اس کے برعکس کام کر رہے ہیں۔ ہم لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کر رہے ہیں۔ ہمیں نہ تو اسکول کے معصوم بچوں کا خیال ہے نہ ہی ان بیمار لوگوں کا جو راستے بند ہونے کی وجہ سے اپنی منزل مقصود تک پہنچ نہیں پا رہے ہوتے۔

ہمیں کیوں خیال نہیں آتا اس دہاڑی والے مزدور کا جس کا راستے بند ہونے کی وجہ سے روزگار بند ہو جاتا ہے جس کی روزانہ کی اُجرت پر اس کے گھر والوں کا گزر بسر ہوتا ہے۔ اس کے گھر کا چولہا بند ہونے کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کے بچے کس جرم کی سزا میں فاقہ کشی پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان تمام متاثرہ لوگوں کے دلوں سے بدعائیں نہ نکلتی ہوں گی کہ انہیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ مذہب کے نام پر سیاست چمکانے والے ان مذہبی ٹھیکیداروں سے کوئی یہ پوچھے کہ کیا اسلام لوگوں سے اس طرح کے رویوں کی اجازت دیتا ہے کہ اپنے مقاصد کے لیے ان کے جذبات سے کھیلا جائے۔ اسلام جو امن کا داعی ہے اس طرح کی بے امنی پھیلا کر عام انسان کو تکلیف پہنچا کر ہم کس اسلام کا پرچم سر بلند کر رہے ہیں۔ میں کس کو پکاروں کسے الزام دوں کہ میرے شہر کے راستے بند ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).