کاش پنجابیوں کے پاس وقت ہوتا


پنجاب کی خدمات اور پنجابیوں کے جذبات کا ملکی ترقی میں جو کردار ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پاکستان کی ترقی میں پنجاب کے نامور شعراء، فنکار، کھلاڑی، سیاستدان اور مصنفین کا کردار بہت اہم ہے۔ غرض ہر شعبہ میں پنجابیوں نے نمایاں مقام بنایا۔ جب بات ہو صحافت کی تو ایک سے بڑھ کر ایک نام ہے جنہوں نے صحافت کے میدان میں نئے اسلوب اور جدید طرزِ بیان کو فروغ دیا۔ صحافت کے ان نمایاں ناموں نے ذمہ دارانہ صحافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملکی مسائل کا دانشمندانہ جائزہ لیا اور ان مسائل کو عوام الناس اور حکمرانوں کے سامنے پیش کیا۔

ذرا ٹھہریئے! یہاں تک ہی میں آپ کے ساتھ چل سکتی تھی۔ اب تک کے جملوں سے آپ کو لگا ہوگا کہ شاید کسی سرکاری تاریخ دان کی تحریر پڑھنا ہوگی۔ مگرایسا نہیں۔ اب آپ چلئے میرے ساتھ۔ کاش ان دانش مندوں میں کوئی صاحبِ دل بھی ہوتا جو کسی اپنے کو اس ایک اپنے کی نظر سے بھی دیکھتا۔ مسائل پر بات کرنا کوئی بری بات نہیں۔ مگر صاحب ان کا کوئی حل بھی تو لائیں۔ اپنوں کی برائیاں دکھانا کوئی موذی مرض نہیں مگر براہِ کرم ان کی اچھائیاں بھی تو دکھائیں۔ اپنوں کے عیب ہم اس لئے بھی نظر انداز کردیتے ہیں کہ ہم انہیں پیار کرتے ہیں اور اس لئے بھی کہ ہمارے اپنے کی صورت دوسروں کے سامنے بہت اچھی نظر آئے۔

ہاں جی ہم کہاں تھے، ہم یہاں تھے کہ اب میں آپ کو اپنے ساتھ لے کر چلوں گی۔ ساتھ لے کر چلنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی سفر پر جائیں گے۔ بلکہ میں آپ کو اپنے سفر کی آپ بیتی سناؤں گی جو آج سے چار ماہ پہلے شروع ہوا۔ یہ سفر میں نے انہیں راستوں اور پگڈنڈیوں سے کیا جہاں سے ہمارے ملک کے مایہ ناز لکھاری کرتے ہیں۔ معذرت اگر تحریر میں اظہار کے ساتھ تنقید بھی نظر آئے تو صرف یہ سوچ کر نظر انداز کیجئے گا کہ صاحبِ دل نے سفر کے دوران دماغ کو پوری طرح سُلایا نہیں۔

یہ سفر شروع ہوا جب میرے ادارے نے مجھے بتایا کہ کل سے مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ جانا ہے۔ میں بہت ڈری ہوئی تھی ایک نیا شہر، نیا علاقہ، نئے لوگ اور نیا ماحول۔ خیر یہ کوئی قابلِ ذکر بات نہیں، قابلِ ذکر بات تو یہ ہے کہ ان چار ماہ کے دوران میں نے پنجاب کا وہ چہرہ دیکھا جو کبھی ہندوستان کی پنجابی فلموں میں نظر آتا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں وہ شہر میرے لئے نیا نہ رہا، علاقہ انجانا نہ رہا، لوگ بیگانے نہ رہے اور ماحول غیر مانوس نہ رہا۔ یہ سب کچھ میرا اپنا ہوگیا اور اتنا اپنا کہ آج یہ تحریر پُرنم آنکھوں سے لکھی جارہی ہے۔

میں نے دیکھا کہ پنجاب کے حکومتی منصوبوں کی ناکامی کا رونا رونے والوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہاں کے کسانوں کی منصوبہ بندی کی خوبصورتی کو بیان کریں۔ سردی ہو یا گرمی ان کا دن فجر سے شروع ہوتا ہے اور مغرب پر ختم۔ سوائے چند نوجوانوں کے سب فجر کے وقت بیدا ر ہوجاتے ہیں اور عشاء تک ہی جاگتے، کچھ تو مغرب کے وقت ہی شب بخیر کہہ دیتے۔ رات عشاء کے بعد اعلان ہوتا کہ کل صبح کھیتوں کو پانی پہنچانے والے بڑے کھالے (چھوٹی نہر) کی بھل صفائی کے لئے تمام مرد حضرات بیلچے لے کر آ جائیں۔ اور تمام مردوں میں سے ہرگھر کے صرف وہی ایک دو مرد ہی جاتے جن بیچاروں کے ذمہ کھیتوں اور ڈیروں کا کام ہوتا۔ وہی رات دو بجے فصلوں کو پانی لگانے کے لیے جاتے۔ سب کچھ اتنا منظم ہوتا کہ کسی قسم کی بے ضابطگی کا احساس تک نہیں ہوتا۔

فصلوں کے کھیت اور پھلوں کے باغ بغیر کسی باڑ کے ہیں، کوئی پہرہ دار نہیں۔ مگر مجال ہے کہ چار ماہ کے عرصے میں کوئی بھی ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہو کہ ایک امرود، ایک کینو، ایک مکئی کا بھٹہ یا کپاس کی پھٹی حتیٰ کے گندم کا ایک خوشہ بھی کسی نے چُرایا ہو۔ ایسا نہیں کہ وہاں سب لوگ خوش حال ہیں۔ ان کھیتوں کے قریب ہی بھٹہ مزدور رہتے ہیں اور اجرت پر کپاس چننے والی عورتیں مگر حیرت کہ بات ہے کہ ان میں وہ حرص نہیں تھی جو ہمارے 100فی صد عوام میں لکھاریوں کو نظر آتی ہے یا پھر ہمارے لکھاری شاید ان کو اپنے ملک کے 100 فی صد باشندوں میں شمار ہی نہیں کرتے۔ غرضیکہ پاکستان کی اس بدعنوان قوم نے بد عنوانی کا ایک بھی واقعہ پیش نہ آیا۔ مگر افسوس کہ زنجیر کے ساتھ بندھے گلاس دیکھنے والوں کے پاس پاکستان کا یہ چہرہ دیکھنے اور دکھانے کا وقت نہیں۔

پنجاب کے اس سفر میں کچھ دیر کا پڑاؤ پاکپتن میں بھی تھا۔ ٹوبہ سے پاکپتن جائیں تو یہاں راستے میں ہڑپہ، واہ! ہڑپہ۔ جی ہاں بالکل ہڑپہ جیسا تاریخی شہر ہے۔ تاریخی اس لئے کہ پرانے وقتوں کا ہے ورنہ وہاں جاکر آپ کو پاکستان کی موجودہ آبادیاں تاریخی لگیں۔ خوبصورت گلیاں، بہترین نکاسیِ آب، برتن، کھیلوں کا سامان، زیورات کچھ بھی تاریخی نہ تھا، سب ایسا ہی جدید طرز لئے جو آج کے ترقی یافتہ دور میں ہے۔ مگر پنجاب کے عوام کے پاس اس شہر کو دیکھنے اور سراہنے کا وقت نہیں۔ میری رائے ہے کہ پنجاب اسمبلی کے ممبران اور مقامی حکومت کے نمائندے کچھ وقت نکال کر اس علاقے کا سیاحتی دورہ کریں تاکہ شہر کی منصوبہ بندی سیکھ سکیں۔ اگر آپ ماضی پرست ہیں تو وہاں جا کر ماضی کی رعنائیوں میں گھر جائیں گے اور حقیقت پسند ہیں تو اپنی کم علمی پر کف افسوس ملیں گے۔

پاکپتن جائیں اور بابا فرید سے نہ ملیں یہ بات سمجھ نہیں آتی۔ خیر ہم تو ملنے ہی ان سے گئے تھے۔ وہاں ہر رنگ، ہر فرقے حتٰی کی مختلف مذاہب کے لوگ باباجی کی شاعرانہ منزلت سے قدرے ناواقف ان کو اولیاء کی صف میں لاکھڑا کرنے کے لئے بضد تھے۔ سو ہم بھی وہیں موجود رہ کر چپ رہے کچھ نہ کہا! اس لئے کہ جس کو جہاں سے درد کا درماں ملتا ہے اسے وہیں پڑا رہنے دیں بجائے اس کے کہ ہم خود کو عالم اور عقل کل سمجھ کر ہر اس شخص کو جاہل کہیں جس کا نظریہ اور عقیدہ ہم سے مختلف ہے۔ ویسے سچ بتاؤں سکون تو تھا وہاں۔ وہاں کسی نے یہ نہ پوچھا کہ تمہارا فرقہ کون سا ہے؟ تم کس شہر سے آئی؟ اور یہ بھی نہیں کہ آپ کی ذات کیا ہے؟ باباجی نے سلام کا جواب تو نہیں دیا لیکن کوئی خفگی بھی ظاہر نہ کی۔ البتہ واپسی پر بہت سے لوگوں نے افسوس کیا کہ کاش محرم میں آتے اور بہشتی دروازے کے نیچے سے گزر کر جنت کا ٹکٹ بھی لے لیتے۔ لیکن ہمیں افسوس اس لئے نہ ہوا کہ ٹکٹ لے کر تو تماشائی جاتے ہیں۔ ہمیں تو مہمان بن کرجانا ہے، انتظامیہ سے دوستی کرکے۔

جی جناب تو اسی پنجاب گردی میں ایک اور سفر درپیش تھا بھکر کا۔ اف! کیا راستہ ہے جھنگ سے بھکر کا۔ تھل دیکھا ہے کبھی، رنگ ایسا جیسے سونا ہو اور روپ ایسے جیسے نئی نویلی دلہن۔ اس راستے سے گزرتے ہوئے اس کے حسن کو نظر انداز کرنا، خدا کی نعمتوں کے کفران سے کم نہیں۔ خاص کر صحرا کی شام جو اس سے پہلے صرف سنی تھی۔ اب دیکھی اور ایسی دیکھی کہ روح میں گھل گئی۔

اسی علاقے کے رہنے والے کچھ ایسے مصروف ہیں کہ کیا لکھا جائے ان کے بارے میں؟ میرا ایک دوست جو ملائیشیا میں پی ایچ ڈی کے لئے مقیم ہے اس سے کہا کہ مجھے تھل کی بہت یاد آتی ہے تو اس نے پوچھا ”تھل میں ایسا کیا ہے؟ ایک غیر ترقی یافتہ بلکہ پسماندہ علاقہ ہے“۔ اس دوست کو اس کے علاقے کی خوبصورتی باور کروانے کے لئے صرف صحرا کی کچھ تصاویر بھیجیں جب صحرا میں سورج ڈوب رہا تھا تو کہنے لگا کہ ”ہم نے تو تھل کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا“۔ تب مجھے بھاکریوں کے پاس وقت کی کمی کا ایک دفعہ پھر شدت سے احساس ہوا کہ انہیں بھکر کی پسماندگی تو نظر آتی ہے جس میں ان کا کوئی قصور نہیں لیکن خوبصورتی نظر نہ آئی۔

پنجابیوں میں سادگی ایسی کہ گمان ہوتا کہ خدا نے جنت سے بغیر کسی دنیا داری کے ملاوٹ کے لوگوں کو زمین پر بھیج دیا۔ جنہیں بظاہرمہذب لوگ پینڈو کہتے ہیں ایسے بولڈ کہ بہت سے شخصی آزادی کے نعرے لگانے والوں کے پر جل جائیں۔ شخصی آزادی کوئی ان سے سیکھے۔ سب کے سامنے بیٹھ کر اپنی مرضی کی کوئی بھی حرکت کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ انہیں اپنی شخصی آزادی عزیز ہے کوئی انہیں مہذب کہے یا پینڈو۔ لوگ اتنے نایاب کہ میلوں دور سے گئی ہوئی خاتون سے جان نہ پہچان لیکن سگی بیٹی جیسا پیار اور عزت دیتے۔ مرد ایسے کہ جب بہن کہہ دیتے تو پھر یاد کروانے کی ضرورت نہ رہتی کہ تم نے مجھے بہن کہا تھا اور میرا فلاں حق رہ گیا۔ بہن کا ہر حق ادا کرتے ہوئے بھائی کا ہر فرض نبھاتے۔ خواتین اتنی سادہ ہیں کہ اب بھی دوپہر کو تازہ کھانا صرف اس لئے نہیں بناتیں کہ جب گھر کا کمانے والا آئے گا تو ہی تازہ کھانا بننا چاہیے۔ لڑکیاں آپ سے پہلی ملاقات میں ہی آپ کو آپی یا باجی بنا کر گھر کی اور دل کی سب باتیں بتا دیتیں اور آپ سے مفید مشوروں کی توقع رکھتیں اور اگر آپ خود کو غیر جانبدار اور آزاد خیال ثابت کرنے کے لئے انسان کی انفرادی حیثیت پر زور دیتے یا تکلف برتتے تو باقاعدہ ناراضگی کا اظہار کرتیں کہ ”بہن کہا ہے تو بہن سمجھتے بھی ہیں“۔

باورچی خانہ دیکھئے کھانے کے چند برتن، طعام میں تکلف کم اور مروت زیادہ ہوتی۔ خالص خوراک کھانے کا فائدہ یہ ہوا کہ لوگ ابھی تک مخلص ہیں۔ غسل خانے میں ایک صابن سر سے پاؤں تک استعمال ہوتا ہے مگر من ایسے اجلے کہ صابن نہ بھی ہوتا تو شاید ان لوگوں کے ساتھ صدیاں بتائی جاسکتی ہیں۔ سر تا پاؤں ہر حصے کے لئے الگ شیمپو، صابن، فیس واش، ہینڈ واش اور ماؤتھ واش استعمال کرنے والوں جیسا تعفن وہاں بالکل نہ ملتا۔

راستے میں سفر کرتے ہوئے ہمارے خواتین کے حقوق کے علمبردار طبقے کی رائے کے برعکس آپ کو ہوس کے مارے لوگ کم ملتے۔ دوران سفر کسی مسافر سے کوئی چیز لے کر نہ کھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی خاندان سفر کررہا ہو تو پھر پریشانی ختم، چھ سات گھنٹے کے سفر میں آپ کو اس فیملی کا ایڈہاک ممبر بنا دیا جاتا۔ اب ہمارے بہت سے تخلیقی ذہنوں میں یہ جملہ ہوگا کہ یہ آفر صرف خواتین کے لئے ہیں۔ ہاں جی! اگر ہے بھی تو کیا حرج۔ ہم نے کبھی اس پر غور نہیں کیا۔ ہم تو ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ عورت کے لئے معاشرہ غیر محفوظ ہے۔ مگر میرے خیال میں تو ہم اپنا وقت اور توانائیاں اس قسم خدمات کو مثبت سوچ کے ڈھانچے میں ڈھالنے میں صرف کریں تب ہی مثبت نتائج نکلیں گے کیونکہ اگر اہمیں اپنے سوا سب چور اور بدکردار نظر آئیں گے تو کل ہم ہی اس معاشرے میں ابنارمل رہ جائیں گے۔

یہاں انسانی حقوق کی ادنیٰ کارکن ہونے کی حیثیت سے میں یہ تسلیم کرتی ہوں کہ گھر والا ماحول تو نہیں ملتا مگر ایسی ہولناک صورت حال بھی نہیں کہ ہم اپنی خواتین کو اکیلے میں سفر کرنے کی اجازت ہی نہ دیں۔ فیصلہ ہمارا ہے کہ ہم ہوس پرست اقلیت کے ہاتھوں معاشرے کی اکثریت کو کس حد تک محبوس کرنے کے لئے تیار ہیں۔

سیاست کی بات کی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ عوامی نمائندے ووٹ کے بعد ملتے نہیں ہیں۔ مگر میں نے عجیب چیز دیکھی۔ ممبر قومی اسمبلی اپنے سیاسی کارکنان کے خاندان میں اموات پر جاتے ہیں اور ان کے قل میں شریک ہوتے ہیں۔ ان کی شادی بیاہ کی خوشیوں کا حصہ بنتے ہیں۔ عوام کو قانونی پیچیدگیاں (سچی والی) سمجھاتے ہیں۔ ایسے ممبر صوبائی اسمبلی صاحب بھی دیکھے جن کے پاس کلٹس گاڑی ہے اور پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے لاہور کے سفر کو عام مسافروں کے ساتھ بس کا انتخاب کرتے ہیں۔ رشوت اور سفارش کو برا سمجھتے۔ اپنی ہی پارٹی کی بندے کی ضلعی چیئرمین کی سیٹ کی حمایت کے لئے درخواست پر کہتے ہیں کہ خود بات کرلیں میری تو کوئی نہیں سنتا۔ اس میں صداقت بھی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی کرسی کے لئے نہ بے جا مدد لی اور نہ کسی کی کرسی بچانے کے لئے بے جا حمایت کی۔

آخر میں یہ بھی مانتی ہوں کہ بہت سی انسانی کوتاہیاں بھی ہیں جس نے پنجاب کی خوبصورتی کو گرہن لگا رکھا ہے لیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ اس گرہن لگے سورج کی خوبصورتی اور خدمات کو عوام کے سامنے لائیں۔ اس سورج کی روشنی، تازگی دیکھنے کے لئے بھی وقت نکالیں تاکہ کل کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے ”آرائیوں کے پاس جنگ کرنے کا وقت نہ تھا“ اور ”پنجابیوں کے پاس خوبصورتی دیکھنے کا“۔

پنجاب کے سفر میں کلر کہار کے سرسبز پہاڑوں سے لے کر میانوالی کے خشک پہاڑ ہیں تو تھل جیسا صحرا بھی۔ لاہور جیسا میڑوپولیٹن شہر بھی اور مظفر گڑھ جیسا چودھویں صدی کا علاقہ بھی، کپاس کے کھیتوں سے لے کر دنیا کے اعلیٰ ترین کاٹن اور کھدر بنانے والے کارخانے بھی۔ بھینسوں کے باڑے بھی اور بین الاقوامی معیار کی مصنوعات بنانے والی فیکٹریاں بھی۔ باصفا اولیاء کے مزاربھی اور ہیر رانجھا، سوہنی مہیوال، سسی پنوں کی عشق میں ڈوبی داستانیں بھی۔ ابھی تو ہم نے پنجاب کا تھوڑا ساحصہ دیکھا ہے۔ مگر مَیں پنجابیوں کے قیمتی وقت میں سے زیادہ وقت نہیں لینا چاہوں گی۔
امید ہے سفر اچھا گزرا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).