مولانا خادم حسین رضوی اور میرے والد کی طیعت


زندگی کے دوسرے عشرے میں جب موسیقی سے بہت لگاؤ تھا، تو والدہ نے ہمیشہ اس بات کی تلقین کی ہے، گانا مت سنا کریں، گناہ کبیرہ ہے۔ اور میں ہمیشہ کی طرح واعظ کی نصیحت کو نظر انداز کرتا رہا۔ ایک دن امی تنگ ہوکر مجھ سے کہا، کہ زیادہ شوق ہے، تو الیاس قادری کی نعتیں سنا کریں، آواز بھی دلکش ہے، اور دف بھی ساتھ میں ہے۔ مطلب ”آم کا آم اور گھٹلیوں کے دام“۔ کچھ عرصے کے لئے الیاس قادری کی نعتیں سن کر عشق رسول کی پیاس بجھاتا رہا۔

پچھلے ہفتے والد اور والدہ گاؤں سے ملنے آیے۔ اسلام آباد کی سیر کرایی۔ دو دن پہلے ابو کی طبیعت بہت خراب ہو گئی۔ گاڑی پکڑ لی اور والدہ کے ساتھ قریبی ”ہولی“ ہسپتال جو آئی ٹین کے نسبتاً قریب پڑتا ہے، لے جانے لگا۔ جیسے ہی گاڑی نکالنے لگا تو پڑوس والے نے کہا، روڈ بلاک ہے، لیکن میں نے کان نہیں دھرا اور نکلا، اس لئے کہ ابو کی طیعت بہت ناساز تھی۔ تھوڑا آگے گیا تو ایک ٹیکسی والے سے پوچھا، یہ سڑک کیوں سنسان پڑی ہے۔ ٹیکسی والے کا پہلا جواب سننے لایق تھا، بھائی گھر میں ایک عدد ٹی وی کا بھی اہتمام کرلیں۔ میں چونکہ ذہنی تناؤ میں تھا، تو موصوف کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ پھر ڈراییور نے کہا کہ بھایی مولانا خادم حسین رضوی کا احتجاجی دھرنا ہے۔ یاد رہے کہ میرے والد صاحب کینسر کا مریض ہے، اور ان کی چیخیں ابھی تک کان میں گونجتی ہیں۔ گاڑی واپس لی اور آیی ٹین فور گیا، جہاں ”ہولی فیملی“ ہسپتال ہے، وہاں پہنچا تو او پی ڈی پہ ایک سانولی لڑکی نے کہا، کہ ایمرجنسی کا ڈاکٹر ابھی نہیں آیا۔ وجہ پوچھی تو بولی دھرنا ہے بھائی۔ میں اور آمی ایک آہ بھر کر ہسپتال سے باھر سڑک کنارے بیٹھ گیے۔

امی قریب ہوکر بولی، یہ الیاس قادری اور خادم حسین رضوی آپس میں رشتہ دار تو نہیں ہے۔ میں حواس باختہ ہوکر جواب دیا، شاید ہوں گے۔ تب تک والد صاحب کی فریاد نے تمام قادریوں، رضویوں سے کہی دور بغاوت کی دنیا میں لے گیا تھا۔ سوچ رہا تھا، کہ کہی والد صاحب کو خدانخواستہ کچھ ہوگیا تو جینے کا حق بھی چھین جائے گا۔ اس سوچ میں غرق تھا کہ ابو کی طبیعت بس ایک دفعہ ٹھیک ہو جایے، ہر پاسے اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ آمی پاس بیٹھ کر آہستہ آہستہ بولتی رہی کہ اگر یہ الیاس قادری نعت خواں والوں کا دھرنا ہے، تو تجھے اس کی نعتیں سننے کی نصیحت ایک وعظ غلط تھا۔ دس منٹ بعد گاڑی میں گیا تو ابو سو گیے تھے، جلدی نبض پہ ہاتھ رکھا، تو سانسیں چل رہی تھی۔ اسمان کی طرف دیکھ کر بولا، کہ رحمن الرحیم کچھ وسیلہ شفا دیں۔ کچھ لحظے بعد ڈاکٹر آیا، چیک اپ کرایا، اور گھر چل دیے۔

اب مولانا خادم حسین رضوی کو اس سے کیا غرض تھی کہ ایک کینسر کی مریض دھرنے کی وجہ سے دنیا سے رحلت کرسکتا ہے۔ آسمان گر نہیں رہا تھا، زمین پھٹ نہیں رہی تھی، اور ستارے ٹوٹ نہیں رہے تھے، لیکن کل کا دن کسی قیامت کبری سے کم نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).