قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کیوں؟


کیا موجودہ سیاسی حالات میں قبل از وقت انتخابات انتہائی ناگزیر ہو گئے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو آج کل ہر کسی کی زبان پر ہے۔پاکستان کی پارلیمنٹ میں تیسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف جو کہ پاکستان کی حقیقی اپوزیشن جماعت کے طور پر خود کو پیش کرتی ہے پچھلے چند دنوں سے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے مختلف رہنمائوں کے بیانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پارٹی میں اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ چونکہ حکومتی جماعت اس وقت نہایت مشکل حالات سے گزر رہی ہے، اسلئے موجودہ حالات میں انتخابات سے پی ٹی آئی وہ فائدہ حاصل کر سکتی ہے جو وہ دو ہزار تیرہ میں حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی۔

پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد نہ صرف حکمران جماعت کے سربراہ نواز شریف کسی قسم کے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے نا اہل قرار دے دیئے گئے ہیں بلکہ احتساب عدالتوں میں اپنے خلاف دائر ریفرنسز میں بھی بری طرح پھنس چکے ہیں۔اسلئے پی ٹی آئی کے نزدیک موجودہ غیر یقینی کی صورتحال الیکشن جیتنے کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے۔دوسری طرف مسلم لیگ ن کے اندر ہونے والی دھڑے بندیوں کے چرچے بھی پی ٹی آئی کی اس سوچ کو تقویت دیتے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات ان کے لئے سودمند ثابت ہوں گے۔ویسے بھی سیاست نام ہی اپنے حریف کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے اور صحیح وقت پر صحیح چال چلنے کا نام ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نئے انتخابات کے مطالبے کے بارے میں کس قدر سنجیدہ ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت کو بھی بخوشی ختم کرنے کو تیار ہے اور اس ضمن میںجماعت کے ترجمان یہ پیشکش بھی کر چکے ہیں کہ اگر باقی ملک میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا معاہدہ ہو جاتا ہے، تو پی ٹی آئی اس سلسلے میں پہل کرنے کو تیار ہے۔

یاد رہے کہ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے حوالے سے دو ہزار چودہ میں جب پی ٹی آئی ممبران نے دھرنے کے دنوں میں قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا تھا، تب بھی خیبر پختونخواکی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کے آپشن پر غور کیا گیا تھا لیکن آخر میں جہاندیدہ سیاستدان پرویز خٹک نے اس آپشن کو رد کر دیاتھا۔ اب اگروہ خیبر پختونخوااسمبلی تحلیل کرنے کو رضامند ہیں، تو اس کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ قبل از وقت انتخابات کے لئے ضروری ہے کہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اگرچہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے لیکن سیاسی منظر نامے میںپی ٹی آئی سے پیچھے نظر آتی ہے۔ پی پی پی اگرچہ قبل ازوقت انتخابات کی مخالفت نہیں کر رہی لیکن اس کا کچھ خاص مطالبہ کرتی بھی دکھائی نہیں دے رہی، اس کی وجہ غالباََ یہ ہے کہ وہ سندھ کی حکومت سے اتنی جلدی فارغ نہیں ہونا چاہتی اور انہیں تحریک انصاف کے برعکس جلد انتخابات کے انعقاد سے نتائج میں کسی خاص فائدے کی امید بھی نہیں۔ بلوچستان اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے لئے کسی جلدی میں نہیں دکھائی دیتے۔ پنجاب میں تو ویسے بھی اتنے میگا پروجیکٹس پر کام کیا جا رہا ہے کہ شہباز شریف کسی بھی صورت آئندہ سال جون سے پہلے انتخابات کرانے پر رضامند نہیں ہوں گے۔ ایسا ہی کچھ حال بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا بھی ہے، نواب ثناء اللہ زہری کو تو ویسے بھی وزیر اعلیٰ کی کرسی پوری مدت کی بجائے کچھ عرصہ ہی کے لئے ملی ہے۔ وہ کسی طور بھی جلدی انتخابات کے حق میں نہیں ہوں گے۔ جبکہ موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی بھی یہی کوشش ہو گی کہ قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے تک حکومت کی جائے۔

اب سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کس طرح اپنے قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کو منواسکتی ہے جب کہ موجودہ حالات میں قومی اسمبلی اور تمام صوبائی اسمبلیاں تحلیل کئے بغیر نئے انتخابات نہیں ہو سکتے۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ پی پی پی بھی سندھ اسمبلی کو تحلیل کرنے پر رضامندی کا اظہار کردیتی ہے تب بھی صرف ان دو صوبوں میں ہی صوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخابات منعقد کروائے جاسکیں گے ، جس سے پی ٹی آئی کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اس کا اصل نشانہ پنجاب ہے جہاں سے انہیں امید ہے کہ موجودہ حالات میں انہیں بھاری اکثریت مل سکتی ہے۔ ویسے بھی اس وقت ملک میں کوئی ایسا آئینی بحران موجود نہیں کہ قبل از وقت انتخابات کرانا نا گزیر ہو۔ ایسی ضرورت اس وقت محسوس ہوتی ہے جب وزیر اعظم اکثریت کھو چکے ہوں اور کوئی بھی جماعت اسمبلی میں اکثریت ظاہر کرنے میں ناکام ہو۔

ایسی صورتحال موجود نہیں ہے سڑکوں پر کوئی ایسے مظاہرے بھی نہیں ہو رہے ہیں اورنہ ہی عوام کی طرف سے اس حوالے سے کوئی پریشر موجود ہے۔ ان حالات میں وقت سے پہلے انتخابات کے مطالبے کی وجہ سینیٹ کے آنے والے انتخابات ہو سکتے ہیں ۔ اپوزیشن جماعتوں کو غالباََ یہ ڈر ہے کہ اگر موجودہ اسمبلیوں کے ہوتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات منعقد ہو جاتے ہیں تو مسلم لیگ ن کی سینیٹ میں پوزیشن مستحکم ہو جائے گی۔ اس طرح اگر آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں بھی ہوتی تو وہ قانون سازی کے معاملات میں اپنی سینیٹ کی بالادستی کو استعمال کرتے ہوئے دیگر جماعتوں کیلئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔

اس وقت زیادہ اہم مسئلہ جو آئینی اور قانونی پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے وہ مردم شماری کے نتیجے میں نئی حلقہ بندیوں کا ہے۔ جب تک آئین میں ترمیم کر کے نشستیں بڑھانے کی منظوری نہیں دی جاتی، نئی حلقہ بندیاں موجودہ تعداد کے اندر ہی کرنا ہو ں گی۔ جب تک نئی مردم شماری کی معلومات با قاعدہ طور پر شائع نہیں کی جاتیں حلقہ بندیوں کیلئے پرانی مردم شماری ہی قانونی تصور ہو گی۔ مگر اگر اگلے انتخابات کے اعلان سے قبل یہ اعداد و شمار جاری کر دیئے جاتے ہیں تو نئی معلومات کے مطابق انتخابات کروانا بھی آئینی ضرورت ہو گی ،جس کیلئے الیکشن کمیشن کو وقت درکار ہو گا۔ ان حالات میں اگرسیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہیں ہوتا تو مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اگر نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت ہوئی تو کیا انتخابات کی تاریخ آگے کی جائے گی یا پھر صدر مملکت اور الیکشن کمیشن اس پر وضاحت کیلئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے؟ یہ بہرحال بروقت انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سب سے اہم معاملہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

افتخار احمد

بشکریہ روز نامہ جنگ

iftikhar-ahmad has 17 posts and counting.See all posts by iftikhar-ahmad