وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں


یہ نہایت خوشی کی بات ہے کہ اعلی عدلیہ اب فیصلوں میں اردو شاعری کرنے لگی ہے۔ جس زمانے میں ہم ذہنی غلام ہوا کرتے تھے تو یہ بات نہایت قابل فخر سمجھی جاتی تھی کہ عدالتی فیصلے اعلی ترین درجے کی انگریزی میں لکھے جائیں۔ وکلا فیصلے کے علاوہ انگریزی کی تعریف بھی کیا کرتے تھے کہ فلاں جج صاحب کا فیصلہ تو قانون کے علاوہ زبان و بیان کا بھی شاہکار ہے۔

انگریز کے دورِ غلامی سے متاثرہ زمانے میں ہمیں فیصلوں میں کبھی کبھار شاعری بھی مل جاتی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری زبان کے فخر میر و غالب کی بجائے کیٹس اور شاید ورڈز ورتھ وغیرہ جیسے انگریزوں کی نظمیں لکھ دی جاتی تھیں۔

شکر ہے کہ اب عدلیہ میں اردو کی اہمیت دکھائی دے رہی ہے۔ پہلے 2015 میں چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ صاحب نے ایک تہلکہ خیز فیصلہ کیا کہ سرکاری امور فوراً اردو میں سرانجام دینے شروع کیے جائیں لیکن حکومتی نااہلی کی وجہ سے اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ لیکن اب اس بہترین فیصلے کے اثرات کے تحت اردو شاعری بھی فیصلوں میں در آئی ہے۔ بدقسمتی سے جب کوئی نیا کام شروع کیا جائے تو پہلے پہل اس میں کچھ خامیاں نظر آتی ہیں۔ انگریزی شاعری کے حامی اسی وجہ سے اعتراض کر رہے ہیں کہ پاناما ریویو پیٹیشن کے فیصلے میں یہ شعر غلط کیوں لکھا گیا ہے

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے

غالباً وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب شعر غلط ہے تو فیصلہ کیسے درست ہو سکتا ہے؟ ایسے اعتراض پر صرف ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ پانچ معزز جج صاحبان کا لکھا ہوا فیصلہ بھلا کیسے غلط ہو سکتا ہے؟ دو جاہل انسانوں کی گواہی پر پھانسی کی سزا ہو جاتی ہے تو پانچ اعلی ترین قانون دانوں کے فیصلے میں غلطی کیسے ہو گی؟

بہرحال جب عدالتی فیصلوں میں ناولوں کے اقتباسات آنے لگے تھے تو ہم نے اپنا فرض جان کر فیصلوں میں استعمال کے لئے ایک بہترین ناول پیش کیا تھا۔ اب فیصلوں میں شاعری ہونے لگی ہے تو مناسب ہے کہ ہم فیصلوں میں استعمال کے لئے ایک بہترین غزل پیش کر دیں جو سلیم کوثر صاحب نے کہی ہے۔ غزل کے تیوروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ سلیم صاحب خود بھی جج، وکیل یا کم از کم قانون گو ضرور ہوں گے۔

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے

میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے

عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے

تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے

وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے


اسی بارے میں

ڈاکٹر جیکائل اور مسٹر ہائیڈ کا عجیب و غریب کیس

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar