سب سے بڑا اور گہرا گڑھا۔ ۔ ۔


کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے ساتھ ایک بڑے خالی پلاٹ پر چند مہینے پہلے ایک گڑھا کھدنا شروع ہوا۔ پھر کھدائی والی بڑی بڑی مشینیں اور بلڈوزر آگئے۔ اس وقت کراچی کا یہ غالباً سب سے بڑا اور گہرا گڑھا ہے۔ جو لوگ شاہ غازی کے دربار پر سلام کرنے آتے ہیں وہ رک کر اس عجوبے میں بھی جھانکتے ہیں۔
میں ایک دن جھانکنے کے لیے رکا پھر وہاں موجود بہت سے چوکیداروں میں سے ایک سے پوچھا کہ کیا بن رہا ہے۔ ساٹھ منزلہ شاپنگ پلازہ بن رہا ہے اس نے فخریہ انداز میں کہا جیسے بلڈنگ کا مالک وہ خود ہو۔

کس کی بلڈنگ ہے، میں نے کہا۔
زرداری صاحب کی اس نے جواب دیا۔ صدر زرداری صاحب کی۔

ویسے تو پورا ملک زرداری صاحب کا ہے۔ لوگ ان کے نام پر بہت کچھ کرتے رہتے ہیں۔ تمہیں کس نے بتایا کہ یہ بلڈنگ ان کی ہے۔
مجھے کون بتائے گا، چوکیدار نے کہا، میں خود ان کا ملازم ہوں۔

آصف زرداری نے صدر بننے سے پہلے ساڑھے آٹھ سال تک جیلوں اور کچہریوں میں گزارے۔ ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا لیکن پاکستان میں رائے عامہ کا ایک طبقہ ایسا ہے جس نے آصف زرداری کے پہلے گناہ، یعنی بے نظیر سے ان کی شادی کو کبھی معاف نہیں کیا اور نہ کرے گا۔ آج کل ٹی وی شوز پر، ٹیکسٹ میسجز پر اور فیس بُک گروپوں پر آصف زرداری کے خلاف جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان میں بے نظیر کے قتل سے لے کر خوبصورت یہودی دوشیزاؤں کے ساتھ تعلقات تک شامل ہیں۔ اگر آصف زرداری پر ان میں سے آدھے الزامات بھی کبھی ثابت ہوگئے تو وہ اپنے اگلے سات جنم بھی جیلوں میں گزاریں گے۔

لیکن ان پر یہ الزام لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے شریک چیئرمین ہیں، ووٹ لے کر آئے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں ہر خرابی ان کے کھاتے میں ڈال دی گئی ہے لیکن کسی ایک اچھائی کا کریڈٹ ان کے حصے میں نہیں آیا۔

گزشتہ سال جب پیپلز پارٹی نے الیکشن جیتا تو وزارتوں کے امیدواروں نے شہر میں جگہ جگہ بینر لگائے تھے جن پر درج تھا کہ آصف زرداری کی ذہانت کو سلام (ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ کوئی جیالا بھی آصف زرداری کی دیانت کو سلام کرنے پر تیار نہیں)۔

اس سے پہلے آصف زرداری کو جاننے والے یہ کہتے تھے کہ ان کا دل بڑا ہے لیکن دماغ چھوٹا۔ دوستوں کے احسان چکانے کے چکر میں اپنی (اور کبھی کبھار ملک کی بھی ) لٹیا ڈبونے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد قوم نے ان کی ذہانت کی چند جھلکیاں دیکھی ہیں۔

نو سالہ آمریت کے بعد ملک کو ایک جمہوری سانچے میں ڈھالنا کہیں بھی ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے لیکن آصف زرداری کو نواز شریف کی شکل میں ایک طاقتور سیاسی اپوزیشن کا سامنا تھا، امریکی جنرل اور بیوروکریٹ ہر روز ان کے پاس تفتیش کے لیے موجود ہوتے تھے، طالبان اور القاعدہ کی بھائی بندی پھیلتی پھیلتی دارالحکومت تک آپہنچی تھی۔

اس چومکھی لڑائی میں آصف زرداری کو کبھی پیچھے ہٹنا پڑا تو پیچھے ہٹے ہیں کبھی غچہ دے کر مخالفین کی صفوں میں گھسنا پڑا ہے تو وہ بھی کرڈالا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر روز ان کے خلاف عدالت لگتی ہے۔ یہ ملک تو شاید کسی کرائسس کے بغیر کچھ دن چل سکتا ہے لیکن ٹی وی چینلوں کو 24 گھنٹے اپنی دکان کھلی رکھنی ہوتی ہے اس لیے کبھی مائنس ون فارمولا آتا ہے تو کبھی بریگیڈیئر بلا کو بے لگام کر دیا جاتا ہے۔

سچ یہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال میں زیادہ تر سیاسی فیصلے سیاسی مباحثےسے، کبھی ہلکی سی دھینگا مشتی سے، کبھی زبانی دھمکیوں سے اور کبھی کبھار اپوزیشن اور حکومت کے باقاعدہ تعاون سے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اس طرح کا صلح جو سیاسی سال اس سے پہلے کب پاکستان میں دیکھا گیا تھا۔

لیکن آپ ٹی وی پر آنے والے سیاسی ستارہ شناسوں کی بات بغیر سنے بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگلا سال اور اس کے بعد آنے والے سال ایسے نہیں ہوں گے۔

کیونکہ آصف زرداری کچھ ایسے کاموں میں یقیناً ملوث ہیں جن کا حساب آنے والے وقت میں عدالتیں نہیں کریں گی بلکہ بہت جلد عوام سڑکوں پر کریں گے۔ ایک الزام جس سے آصف زرداری انکار نہیں کرسکتے وہ یہ ہے کہ وہ اس وقت ایک با اختیار صدر ہیں اور ان کے پاس جنرل مشرف والے انتظامی اختیارات ہیں اور ان کے پیچھے پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت۔ اگر ان کے پاس کچھ نہیں ہے تو وہ ایک فوجی وردی نہیں ہے لیکن یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا حل ان کی ذہانت بھی نہیں ڈھونڈ سکتی۔

پیپلز پارٹی نے ہمیشہ غریبوں کے نام پر اور غریبوں سے ہی ووٹ لیے ہیں لیکن پچھلے ایک سال میں غریبوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس میں پیپلز پارٹی برابر کی شریک ہے۔ سستے آٹے اور چینی کی قطاروں میں ڈنڈے کھاتے بچے اور بوڑھے اور دوسری طرف ملک کی حکومت اور ہائی کورٹ کو سینہ ٹھونک کر کہتے ہوئے شوگر ملوں کے مالکان کہ ہم یہ چیزیں سستی نہیں کریں گے۔ اس تقسیم میں حکومت واضح طور پر سرمایہ داروں کی پشت پر نظر آتی ہے۔ آصف زرداری نے اپنی حکومت چلانے کے لیے بھی کئی ایسے لوگ رکھ چھوڑے ہیں جو یا تو خود سرمایہ دار ہیں یا سالہا سال سے ان کی دلالی کرتے آئے ہیں۔

اگر کسی نے پیپلز پارٹی اور اس کے شریک چیئرمین کی کارکردگی جانچنی ہو تو حالیہ چینی بحران میں ان کے وزیر میاں منظور وٹو کی کارکردگی دیکھ لے، ان کے ہر روز بدلتے بیانات دیکھ لے(یاد دلاتا چلوں کہ وٹو صاحب وہ کاریگر ہیں جو 18 ممبران صوبائی اسمبلی کی حمایت سے پنجاب کے وزیراعلیٰ بن بیٹھے تھے) یا پھر آصف زرداری کے دوست وزیر کائرہ صاحب کی عوام کو یہ نصیحت پڑھ لیں کہ عوام کم چینی استعمال کریں۔

اگر آصف زرداری اپنی تمام تر ذہانت کے ساتھ اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ ان کی پارٹی اور حکومت کا مستقبل ان سیٹھوں کے ساتھ ہے جو ملک کے غریب ترین عوام سے مجرمانہ منافع کمانا چاہتے ہیں تو ان کی پارٹی اور ان کی حکومت اس گڑھے کی تہہ میں پائی جائے گی جو عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے ساتھ کھودا جارہا ہے۔
10 ستمبر 2009


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).