نرسنگ پھوار کے اشنان گھاٹ (سفر وادی سون کے )


پوٹھو ہار کے جنوبی سرے پر واقع گمنام وادی سون کے تہہ در تہ پرت کھولتے جائیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ گمنام وادی ایک ایسی تاریخ کی مالک ہے جوابھی تک تحقیق کی منتظر ہے۔ یہاں عظیم قلعوں کے کھنڈرات ہیں جن کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں یہ کس نے بنائے اور کیسے تباہ ہوئے۔ ہر پہاڑ کی چوٹی پر قبریں ہیں جو نامعلوم کن کی ہیں۔ عظیم الشان ٹیمپل ہیں جن کے معماروں کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ اسی وادی میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جہاں صدیوں پہلے کسی قوم نے قدرتی چشموں کے پانیوں پر اشنان گھاٹ بنائے۔ جہاں عوام اپنے جسم اور روح کی میل اتارنے آتے۔

اور اس بار ہم جا رہے تھے ” نرسنگ پھوار“۔ جہاں کی شہرت یہی ہے کہ یہاں کسی قوم نے اشنان گھاٹ یا سوئمنگ پول بنائے تھے۔ جس کے کھنڈرات آج بھی محققین اور سیاحوں کی دلچسپی کا محور بنے ہوئے ہیں ایک بہت بلند پہاڑ کی ڈھلوان پر بنائے یہ اشنان گھاٹ آج بھی ایک دلکش منظر پیش کرتے ہیں۔ نومبر کا دلکش موسم، پنجاب سموگ کی لپیٹ میں اور وادی سون سے خبر مل رہی تھی کہ یہاں سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمکتا ہے۔ حسب سابق ہم ایک دھند بھری صبح کو اکٹھے ہوئے خوشاب میں، ارشد بھائی کی ڈرائیو میں ہم پہنچے بلال ہوٹل پیل، ڈٹ کے کیا ناشتہ وہاں سے اپنے سٹارٹنگ پوائنٹ پہنچے تو اسلام آباد والی ٹیم ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے، سیاحت کے کچھ دلدادگان لاہور سے آئے۔ اسلام آباد سے کمانڈر عدنان عالم ملک محمود کو ہمراہ لئے پہنچے، علی بھائی نبیل اور نیاز کو لے کر آئے۔ لاہور سے آئے عرفان مغل اور محمد ارتضیٰ ایک شب مہریہ ہوٹل نوشہرہ میں گذارنے کے بعد تروتازہ دکھائی دے رہے تھے ۔ اور اس بار ٹیم میں شامل تھے۔ عدنان عالم اعوان، ملک محمود، محمد ارشد اعوان، محمد دانش بٹ، احمد ملک، الطاف، عرفان مغل، محمد ارتضیٰ، سلمان مانی، نبیل اعوان، اور منکہ مسمی اعجاز اعوان، بہت عرصے بعد ہم سب ایک دوسرے سے ملے۔ نئے لوگوں کا تعارف ہوا۔

الطاف بھائی نور پور تھل میں ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کے پرنسپل ہیں اور پہلی بار ہمارے ساتھ شامل ہوئے ۔ وہ ایک عمدہ ٹریکر ثابت ہوئے اور ہر موقع پر ایک قدم آگے رہے ۔ عرفان مغل اور محمد ارتضیٰ لاہور میں فزیکل ٹرینر ہیں ۔ وہ خاص طور پر اس ٹریک میں شامل ہونے کے لئے لاہور سے وادی سون آئے اور انہوں نے ٹریک کو بہت انجوائے کیا ۔ ان سب دوستوں کا بہت شکریہ ۔ انشاء اللہ مل کر مزید ٹریک بھی کریں گے

عدنان بھائی نے بتایا کہ نرسنگ پھوار کا نام اس کے بنانے والے نرسنگ داس کی وجہ سے معروف ہوا چونکہ یہاں سے پانی ایک پھوار کی صورت میں نیچے کو گرتا ہے اس لئے اس جگہ کو نرسنگ پھوار کہتے ہیں۔ جس نے عورتوں اور مردوں کے لئے الگ الگ اشنان گھاٹ بنوائے تھے۔ اور اس سے کچھ نیچے پانی پر چلنے والی چکی بنوائی تھی جہاں سے لوگ آٹا پسوانے آتے تھے۔ یہاں قریبی قصبہ چانبل واقع ہے جہاں کے کچھ لوگ اس قدر شرارتی ہیں کہ سیاحت کے لئے آنے والے لوگوں کے موٹر سائیکل چوری کر لیتے ہیں اور گاڑیوں کے شیشے توڑ کر اندر سے قیمتی اشیاء بھی چرا لیتے ہیں۔

گاڑیاں چانبل کے قریب وائلڈ لائف کی چیک پوسٹ پر کھڑی کی گئیں۔ اگرچہ نرسنگ پھوار سڑک سے قریب ہے اور گھنٹے بھر کی ٹریکنگ کے بعد وہاں پہنچا جا سکتا ہے لیکن چونکہ ہمارے پاس پورا ایک دن تھا اس لئے طے پایا کہ ہم چشمہ سلطان مہدی کی طرف جائیں اور وہاں سے نیچے اترنے کے بعد چشمے کے پانیوں کے ساتھ ساتھ واپس آئیں۔ اور پھر نرسنگ پھوار پہنچیں۔ یہ ایک دلچسپ ٹریک ہو گا۔ عدنان بھائی نے وعدہ کیا۔

گروپ فوٹو بنانے کے بعد ہم سڑک سے جنوب کی جانب چلے۔ اور کچھ ہی دیر میں اپنے سٹارٹنگ پوائنٹ پر پہنچ گئے۔ جہاں ہم کھڑے تھے یہ پہاڑ کی چوٹی تھی اور نیچے بہت گہرائی میں جہاں دو پہاڑ آپس میں مل رہے تھے وہاں ایک دراڑ سی تھی۔ یہیں ہم نے ایک طویل اترائی کے بعد پہنچنا تھا اور اسی دراڑ میں سے سلطان مہدی کی خانقاہ سے پھوٹنے والے چشمے کا پانی گزرتا ہے اور کٹھہ اور نلی کو سیراب کرتا ہے۔ اس طرف گھنے جنگل تھے۔ اور انسانوں کا گزر کم ہی ہوتا ہے۔ البتہ آمدورفت کے لئے زمانہ قدیم سے بنائے گئے رستے ضرور موجود ہیں جو تھوڑی تلاش کے بعد مل جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک رستے پر چلتے ہوئے ہم پہاڑ سے نیچے اترنے لگے۔ زگ زیگ سٹائل کے اس رستے نے ہمارے سرد موسم میں بھی پسینے نکال دیے۔ ابھی ہم درمیان میں ہی تھے کہ چشمے کے شور نے ظاہر کیا کہ یہاں ایک زور دار چشمہ بہہ رہا ہے۔

وادی سون سے کم و بیش چالیس چشمے نکلتے ہیں جو ایک طرف خوشاب کے دیہات کو سیراب کرتے ہیں تو دوسری میانوالی، لاوہ اور نمل اور تیسری جانب تلہ گنگ کے دیہات کو قدرتی پانی سے فیض یاب کرتے ہیں

جب ہم نیچے چشمے کے قریب پہنچے تو ایک دلکش نظارا ہمارا منتظر تھا۔ جس طرف سے پانی آ رہا تھا اس طرف گھنا جنگل اور دونوں جانب ایک دم سے اوپر کو اٹھتے پہاڑ تھے۔ درمیان میں پتھروں اور گھنی سرسبز جھاڑیوں کے بیچ میں سے سرسبز پانی اچھلتا ہوا شور مچاتا ہوا ہماری جانب آ رہا تھا۔ ٹیم نے یہ نظارہ دیکھا تو دنگ رہ گئے۔ پہلے تو کافی دیر یہ نظار ہ دیکھاکیے اور پھر کیمرے نکال کر ٹکا ٹک یہ نظارہ محفوظ کرنے لگے۔ دوسری جانب دیکھا تو اس طرف بھی یہی منظر تھا۔ صرف آواز تھی تو چشمے کے پانیوں کی آواز تھی جو دل کو خوب بھاتی تھی۔ یہاں ارشد بھائی نے تِل کی پِنیاں سب میں تقسیم کیں۔ انتہائی لذیذ پِنیاں بہت پسند کی گئیں۔ عدنان بھائی نے بتایا کہ ہم پہلے دوسری طرف والے پہاڑ پر چڑھیں گے اور پھر گھوم کر نرسنگ پھوار کی سمت جائیں گے۔ اور دوسری جانب بلند پہاڑ تھا۔ جس پر چڑھنا نہایت کارِ دارد لگ رہا تھا۔

لیکن چونکہ ہم ٹھہرے ہمیشہ سے امیر کی اطاعت کرنے والے۔ تو ان کے پیچھے پہاڑ پر چڑھائی شروع کی۔ ہم میں سے نوجوان ٹریکر اپنی جوانی کے جوش میں تیزی سے آگے بڑھے اور نظروں سے اوجھل ہوتے گئے۔ ہم چار پانچ ٹریکر وقت پاس کرنے کو گپ شپ لگاتے آہستہ آہستہ نصف چڑھائی کو پہنچے تو اوپر سے بلند آوازیں آ رہی تھیں۔ ادھر راستہ نہیں ہے، دوسری طرف سے آئیں، ارے بھائی راستہ تو اس طرف بھی نہیں ہے، او کے اوکے وہیں رک جائیں، یہ بلندی پر گئے ٹیم ممبرز کی ایک دوسرے کو ہدایات تھیں۔ ہم نے انہیں ایک نعمت سمجھتے ہوئے اپنے اپنے بیگ اتارتے ہوئے آرام کرنے کی ٹھان لی۔ احمد بہترین قسم کے گولڈن سیب لایا تھا۔ ہم نے اس کا وزن کم کرنے کی خاطر سیب کھانے کا فیصلہ کیا۔ اوپر سے آوازیں کچھ زیادہ ہی اچھی لگ رہی تھیں۔ ٹیم ممبرز کو اوپر جانے کا رستہ نہیں مل رہا تھا۔ کبھی کوئی لینڈ سلائڈ ہوئی تھی جس نے اصل رستے کا سراغ مٹا دیا تھا۔ کچھ ممبر ہمیں بھی مشورے دے رہے تھے کہ وہیں رک جائیں وہیں رک جائیں۔ ہمیں اور کیا چاہیے تھا۔ جب ہم اچھی طرح آرام کر چکے تو اوپر گئی ٹیم نے واپس آنے کا اعلان کر دیا۔ ان کی واپسی کا سفر بہت مشکل تھا۔ جب وہ واپس آئے تو ان کے سانس پھولے ہوئے تھے۔

طے ہوا کہ پھر نیچے چشمے پر چلتے ہیں اور پانی کے ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں گوکہ یہ رستہ بھی کافی مشکل لگ رہا تھا۔ یہ ایک نہایت تنگ درہ تھا جس کے دونوں طرف اونچے پہاڑ تھے۔ لیکن جو لوگ اس طرح کی جگہ پر جاتے ہیں وہ اپنے رستے خود بنا لیتے ہیں۔ ہم نے پانی کے دونوں طرف بغور جائزہ لیتے ہوئے ایک پگڈنڈنی ڈھونڈ نکالی۔ اونچی جھاڑیوں سے گزرتی یہ پگڈنڈی کبھی گم ہو جاتی کبھی نظر آنے لگتی۔ کبھی ہم پانی کے دائیں طرف چلتے تو کبھی اسے عبور کر کے بائیں طرف آ جاتے۔ ہر طرف بڑے بڑے پتھر بکھرے ہوئے تھے جو پانی کے تیز بہاؤ کی بدولت پہاڑسے الگ ہو گئے تھے۔ لیکن یہ سب نظارے اتنے خوب صورت تھے کہ دو تین گھنٹے چلنے کے باوجود بھی نہ تو تھکن محسوس ہوئی نہ ہی کہیں رکنے کو جی چاہا۔

ارشد بھائی، عدنان بھائی، علی بھائی، نبیل، نیاز، دانش بٹ، عرفان، ارتضیٰ، الطاف بھائی، سلمان، احمد، محمود سبھی خوش گپیاں لگاتے ایک دوسرے کو چھیڑتے چھاڑتے چلتے گئے۔ فوٹو بھی خوب بنائے گئے۔ ریفریشمنٹ کے طور پر ابلے ہوئے انڈے بھی کھائے گئے۔ طے ہوا کہ لنچ نرسنگ پھوار پر جا کر کریں گے۔

پھر ارشد بھائی کی آواز پر ہم نے وہ نظارہ دیکھا جس کی امید لئے ہم یہاں تک آئے تھے۔ ہمارے بائیں طرف ایک سیدھی اونچی دیوار تھی جس کے بالکل اوپر بوڑھ اور دیگر درخت نیچے کو جھکے ہوئے تھے اور ایک جگہ سے پانی بالکل پھوار کی مانند نیچے کو گر رہا تھا۔ اس پھوار کی وجہ سے ہی اس جگہ کو نرسنگ پھوار کہتے ہیں۔

یہ ایک بہت دلکش منظر تھا جس کی تصاویر اس مضمون کے ساتھ لگائی گئی ہیں۔ ارشد بھائی نے بتایا کہ ابھی مزید کچھ دیر چلنا ہو گا اس کے بعد ہی ایک رستہ اوپر کو اٹھے گا جو نرسنگ پھوار تک لے جائے گا۔ ارشد بھائی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ رستہ بہت ہی سیدھی کمر توڑ چڑھائی ہے جس سچ مچ کمر ہی توڑ کے رکھ دے گی۔ آگے چلے تو ایک وسیع میدان سامنے تھا جہاں ہر طرف درخت اور جھاڑیاں پھیلی ہوئی تھیں۔

مزید آگے چلے تو کچھ کھنڈرات دکھائی دیے۔ جب سمجھ آیا کہ یہاں کیا تھا تو اس کمیونٹی کو بے ساختہ داد دینے کو جی چاہا۔ جی ہاں۔ چونکہ یہاں پانی کی روانی کافی تیز تھی تو انہوں نے یہاں پن چکی لگا رکھی تھی۔ صدیوں پہلے کا انسان بہتے پانی کی قوت کو استعمال کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا سیکھ گیا تھا۔ اوپر سے تیزی سے آتے پانی کے سامنے لکڑی کے پھالے لگا دیے تھے جو پانی کے سامنے گھومتے اور بڑے بڑے پتھر جو ایک دوسرے کے اوپر رکھے گئے تھے انہیں گھماتے۔ اوپر والے پتھر کے اوپر بنے سوراخ میں گندم ڈالی جاتی جو پتھروں کے کناروں سے آٹا بن کر باہر آتی رہتی۔ اسے مقامی زبان میں جندر کہا جاتا ہے۔ آج کے جدید دور میں رہنے والے ہم لوگ ان کٹھنائیوں کو کبھی نہیں سمجھ پائیں گے جن سے صدیوں پہلے کے انسان کو گزرنا پڑا۔

اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے، چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری وادی سون میں ہرطرف ایک عجیب و غریب داستان بکھری ہوئی ہے۔ جن کے کردار یوں گم ہوئے کہ آج کوئی جانتا تک نہیں کہ یہ لوگ کون تھے ان کا مذہب کیا تھا۔ وہ کہاں غائب ہو گئے۔ اور اس طرح غائب ہوئے کہ آج کی دنیا میں ان کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔

یہاں پر پانی دونوں طرف اونچی چٹانوں کے بیچ میں چلتا تھا اور ایک انتہائی دلکش منظر بناتا تھا۔ دانش بٹ اور لاہور سے آئے ہوئے ارتضی اور عرفان یہ منظر دیکھ کر بہت خوش تھے۔ پھر یہاں سے اوپر نرسنگ پھوار کی طرف چلنا شروع ہوئے اور پھر کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا۔ ابھی کچھ لوگ بہت نیچے تھے تھے کہ نیاز اور سلمان اوپر پہنچ بھی گئے اور اسی پر خطر اور تنگ رستے سے گزر کر لوگ یہاں گندم پسوانے آیا کرتے تھے۔ ہم بھی اوپر پہنچے تو ایک جگہ پر اوپر سے پرنالے کی صورت میں پانی آ رہا تھا۔ فی الفور جوگر اور جوتے اتارتے ہوئے ہم نے سر اس پانی کے نیچے کر دیا۔ احمد تو باقاعدہ طور پر کچھا پہن کر نہانے لگا۔ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔ کچھ آگے چلے تو ایک گلی کی مانند رستہ ہمیں نرسنگ پھوار کے بڑے آہنی گیٹ تک لے گیا۔

کسی قسمت آزما، نے یہ جگہ حکومت سے لیز کے یہاں چڑیا گھر بنانے کا سوچا ہو گا۔ تنگ گیٹ سے گزرے تو سامنے ہر طرف ٹوٹے پھوٹے چھوٹے بڑے آہنی پنجرے بکھرے ہوئے تھے۔ موصوف جلد ہی بیزار ہو کر یہاں سے رخصت ہو گئے مگر اپنی یادگاریں چھوڑ گئے تھے۔ اشنان گھاٹ کے تالاب پر پہنچے تو عدنان بھائی تالاب کے درمیان کھڑے ہو کر باقاعدہ طور پر اشنان کر رہے تھے۔ خوب صورت درخت، برآمدوں کی دیواریں، ایک طرف بنا ہوا قدیم مندر، راہداریاں، گھاس سے بھرے ہموار قطعے، ایک بہت ہی خوب صورت اور ماڈرن تصویر پیش کر رہے تھے۔ زمانہ قدیم کے لوگ بہترین حسن کے مالک تھے جنہوں نے یہاں پر یہ سب کچھ بنایا۔ ایک تالاب میں پانی تھا مگر دوسرا بالکل خشک تھا۔ ہمارے ذہنوں میں یہاں نہاتے ہوئے مرد و خواتین کی مسرت بھری چیخوں، قلقاریوں کی آوازیں گونجنے لگیں جو کبھی یہاں اشنان کیا کرتے تھے۔ ایک آہنی چارپائی بھی وہاں پڑی تھی۔ ٹیم ادھر ادھر دیکھنے میں مگن ہو گئی۔ جس چیز نے نرسنگ پھوار کے حسن کو بے مزہ کر رکھا تھا وہ ٹوٹے پھوٹے پنجرے، ایک پرانا پیٹر انجن، اور اسی طرح کے چند آلات تھے۔ ہر طرف سبز قطعات تھے۔ جن کو اگر کوئی ماہر فن ترتیب دے تو ایک شاندار باغ کی شکل بن جائے۔

ہم یہی سوچتے رہے کہ قدرتی پانی کی گزرگاہ پر واقع اس سرسبز و شاداب قطعے کو پھر سے آباد کیا جائے تو لاکھوں لوگ اس کو دیکھنے لئے امڈ پڑیں۔ دل میں یہی حسرت لئے ہم وہاں سے روانہ ہوئے۔ اب یہاں سے کچھ ہی دیر میں ہم نے اوپر سطح زمین تک پہنچ جانا تھا جہاں ہمارا لنچ ہمارا منتظر تھا۔ سورج غروب ہونے کے قریب تھا جب ہم نے لنچ کیا اور پھر الوداعی ملاقاتیں۔ اگلے ٹریک میں شامل ہونے کا عزم لئے ٹریک ایک دوسرے سے الوداع ہوئے۔ یہ ایک شاندار دن تھا جو بہت عمدہ انداز میں اختتام پذیر ہوا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).