مولانا ابوالکلام آزاد کی چشم پوشیاں


خوش قسمتی کہیے یا المیہ، کچھ شخصیات کے ساتھ ہوتا یہ ہے، کہ ان کی حیات کا مکمل تنقیدی جائزہ نہیں لیا جاتا۔ وجہیں ہزار ہوتی ہیں، جیسے ایک وجہ یہ کہ ان سے منسوب بعض خوبیاں ان کی شخصیت پر ہونے والے مباحث پر اتنی زیادہ غالب آ جاتی ہیں، کہ نقد کا اسکوپ ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ اس سلسلے میں میرا مسلک یہ ہے، کہ خاکی نہ تو مکمل خیر کا مجموعہ ہوتے ہیں اور نہ سراپا شر۔

آج مولانا سید ابوالکلام غلام محی الدین احمد آزاد کا یوم پیدائش ہے۔ وہ 11 نومبر 1888ء کو مکہ میں پیدا ہوئے۔ انھیں زیادہ تر مولانا آزاد اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ وہ ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کے ایک نمایاں و قدآور رہنما تھے۔

آزاد کی قائدانہ صلاحیتوں پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے اور لکھا بھی گیا ہے، لیکن دو امور میں ان کا رویہ غور طلب ضرور ہے۔ پہلا مرحلہ تقسیم ہند کے بعد کا ہے، جب ہند نہ چھوڑنے والے مسلمان ایک عجب سراسیمگی کے عالم میں تھے؛ اس وقت مولانا نے مسلم جماعتوں کو بلا کر مشورہ دیا کہ وہ کسی سیاسی عمل میں شریک نہ ہوں اور خود کو تبلیغ و دعوت تک محدود رکھیں۔ مولانا کے ان ارشادات میں درپردہ کانگریس کا وہ خوف ظاہر ہوتا ہے، جو انھوں نے مسلم لیگ کو ملی حمایت کے سبب محسوس کیا۔

کانگریس مستقبل میں کسی با اثر سیاسی حریف کو میدان میں دیکھنا نہیں چاہتی تھی اور جانے ان جانے مولانا کا مشورہ اسی ڈر کا اظہار تھا۔ مولانا نے یہ مشورہ جمعیت علمائے ہند کے اجلاس میں بھی دُہرایا۔

اس میں کوئی شک نہیں، کہ تقسیم ہند کے موقع پر، انھوں نے مسلمانوں سے ہندوستان ہی میں رہنے، اور اپنا ثقافتی ورثہ چھوڑ کر پاکستان ہجرت نہ کرنے کی اپیل کی تھی؛ اس کا فائدہ بھی ہوا۔ آزادی کے بعد انھوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی حفاظت اور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے نمایاں اور قابل تعریف کردار ادا کیا، تاہم ان سے کئی غلطیاں بھی ہوئیں۔

مولانا آزاد نے اس کے کچھ عرصہ بعد مسلمانوں کو مشورہ دیا، کہ وہ کوئی سیاسی جماعت نہ بنائیں اور کانگریس ان کی سرپرستی کا فریضہ انجام دینے کو موجود ہے۔ خود مولانا تقسیم کے بعد ایک موقع پر اپنی بصیرت اور دوراندیشی کی تعریف، اشارتہً ان الفاظ میں کرچکے تھے، کہ میں بہت پہلے سے ان حالات کو پیدا ہونے کی آہٹ پا چکا تھا۔ آزادی کے فورابعد جلد بازی اور ناسمجھی کے تحت مسلمانوں کی تمام سیاسی پارٹیوں کو بیک جنبش قلم ختم کرنے کی کوشش کی گئی، کہ اس فریب سے مسلمانوں کے عظیم قائد اور رہنما بھی نہیں بچ سکے۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے جامع مسجد دہلی میں 23 اکتوبر1947ء کو تاریخی خطاب کیا اور مسلمانوں کی ڈھارس بندھانے میں نمایاں کرداراداکیا۔ اس میں بھی انھوں نے کانگریس کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا:

”ہندوستان کے مسلمانوں پر جو بلا آیا ہے، وہ یقینا مسلم لیگ کی غلط قیادت کی فاش غلطیوں ہی کا نتیجہ ہے۔ لیکن میرے لیے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ میں پچھلے دنوں ہی سے ان نتائج پرنظر رکھتا تھا۔ اب ہندوستان کی سیاست کا رخ بدل چکا ہے۔ مسلم لیگ کے لیے، اب یہاں کوئی جگہ نہیں۔ اب یہ ہمارے دماغوں پر منحصر ہے کہ ہم کسی اچھے انداز فکر میں بھی سوچ سکتے ہیں یا نہیں۔ اسی لیے میں نے نومبر کے دوسرے ہفتے میں ہندوستان کے مسلم رہنماوں کو دہلی بلانے کاقصد کیا ہے۔“

چناں چہ دوہفتے بعد منعقد ہونے والے جلسے میں، مولانا نے اپنے خطاب کے دوران مسلم تنظیموں کو زور دے کر محض مسلمانوں کی دینی وسماجی رہنمائی تک محدود رہنے کی بات کرتے ہوئے، انھیں سیاست سے دور رہنے کی بات کہی۔ علاوہ ازیں بعد کے دنوں میں بھی مولانا نے 28 دسمبر 1947ء کو لکھنؤ میں منعقد ہونے والے انڈین یونین مسلم کانفرنس اور 20 مارچ 1948ء کو جمعیت علماء ہند کے ایک جلسے میں یہی بات دُہرائی۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کا اپنا سیاسی تشخص ختم ہوگیا۔ مسلم لیگ نے مارچ 1948ء میں مدارس میں منعقد ہونے والے اجلاس میں واضح الفاظ میں اپنا موقف ظاہر کرتے ہوئے، پاکستانی مسلم لیگ سے خود کو الگ قرار دیا تھا اور اپنا نام بدل کر’’انڈین یونین مسلم لیگ‘‘ کردیا تھا۔ اس کے باوجود اس کے وجود کو کچلنے کی کوشش کی جاتی رہی۔

یوں اگرچہ شمالی ہندوستان میں مسلم لیگ کا صفایا ہوگیا، لیکن وہ کیرالہ اور تمل ناڈو میں باقی رہی، لیکن اس اعلان کے بعد مسلمان مستقل قومی دھارے سے کٹتے چلے گئے اور ان کا سیاسی وجود آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں رہ گیا۔ آنے والے برسوں میں وہی کانگریس (جس نے خود کو مسلمانوں کی مسیحا ثابت کرنے کا دعوی کیا تھا) نے مسلمانوں کو محض ووٹ بینک بناکر رکھ دیا؛ جس کا خمیازہ ہندوستان کے مسلم شہری آج بھی جھیل رہے ہیں۔

ایسے دُوراندیش انسان کا، ملک کی دوسری اکثریت کو یہ مشورہ، کہ وہ کوئی سیاسی جماعت نہ بنائیں، دُوراندیشی پر مبنی نہیں معلوم ہوتا۔ مولانا کے ارشاد کا نتیجہ کیا نکلا، وہ آج ہم سب دیکھ سکتے ہیں۔ آزادی کے ستر برس بعد جب کہ دلت، یادو، برہمن، سکھ سب کی سیاسی جماعتیں ہیں، مسلمانوں کی اپنی کوئی نمایندہ جماعت نہیں ہے۔ مذکورہ بالا جماعتوں نے اپنی اپنی برادری اور قوم کو آگے بڑھانے میں خاصا اہم کردار ادا کیا۔ اس لیے عجب نہیں تھا اگر مسلمانوں کی کوئی سیاسی قیادت پنپ جاتی، تو ملت کو اس کا فائدہ حاصل ہوتا۔

جس کانگریس کی سرپرستی پر مسلمانوں کو تکیہ کرنے کا مشورہ مولانا نے دیا، اس کانگریس نے مسلمانوں کی پیٹھ میں پہلا چھرا 1950ء کے اس صدارتی حکم نامے کی شکل میں گھونپا، جس کے تحت مسلمانوں کو درج فہرست زمرے کے ریزرویشن سے باہر کر دیا گیا۔ اس واردات کے وقت مولانا اسی حکومت میں وزیر کے منصب پر جلوہ افروز تھے۔

مولانا نے اس کھلی زیادتی پر کوئی احتجاج کیا ہو، ایسا تاریخ میں کہیں درج نہیں ہے۔ مولانا اس کے بعد آٹھ برس تک حکومت میں رہے۔ 22 فروری 1958ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ لیکن آخر دم تک نہ تو انھوں نے فیصلے کی مخالفت کی نہ ہی حکومت کو اپنے موقف سے رجوع کرنے پر مجبور کیا اور نہ ہی احتجاج کے طور پر اپنا منصب چھوڑا۔

مولانا آزاد جیسے جلیل القدرعالم سے یہ توقع نہیں کی جاتی، وہ اس حقیقت سے بے خبر ہوں گے، کہ مسلمانوں میں بھی بھنگی اور چمار جیسی ذاتیں ہیں، جو صدیوں سے ذات پات پر مبنی تفریق سے بری طرح کچلی گئی ہیں۔ اگر آزاد بھارت میں ہر پس ماندہ ذات کو خصوصی رعائتیں مل رہی تھیں، تو مسلمان پس ماندہ طبقات کو اسے باہر رکھنے کا کیا جواز تھا؟ اس اقدام پر مولانا کی خاموشی مزید حیران کن ہے۔ یہ وہی کانگریس ہے، جسے مولانا مسلمانوں کا سرپرست بتا چکے ہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی جلالت قدر اور خدمات اپنی جگہ، لیکن ان معاملات میں تنقیدی جائزہ لیے جانے کی سخت ضرورت ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مولانا بھی انسان تھے اور لغزش و خطا کے امکان کو بھی خارج نہیں کیا جاسکتا، لیکن مولانا کو جس درجے کا قائد اور امام الہند تک قرار دیا جاتا ہے، ان تمام القاب و احترام کے سامنے مندرجہ بالا باتیں نہیں جچتیں۔

یہ فریضہ تاریخ دان کا ہے، کہ آزاد کی شخصیت، اور ان کے خیالات کے حوالوں پر پڑے پردوں کا اسرار وا کریں۔ اب جب کہ ہندوستان میں خصوصا مسلمانوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے، ضرورت اس امر کی ہے، کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق لے کرکے آگے بڑھیں۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah