اتحادیوں کے بغیر عمران خان کا وزیر اعظم بننے کا خواب ادھورا رہے گا


آج کل وفاق اور پنجاب میں حکومت کرنے والی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ستارے گردش میں نظر آ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف احتساب عدالت میں پیش ہو کر ملک میں نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں۔ مگر وہ اس احتساب کے عمل سے مایوس اور نا خوش نظر آ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ نا انصافی کی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو مسلم لیگ (ن) کو ہر بحران سے نکال لیتے تھے آج کل وہ خود بحران کا شکار ہیں اور صرف بیماری کی بستر والی تصویر میں ہی نمودار ہو رہے ہیں۔ حدیبیہ پیپر مل کے ریفرنس کے حوالے سے افواہیں چل رہی ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی رگڑے میں آنے والے ہیں اور اس کے بعد شریف خاندان کا ملک میں سیاست کرنا مشکل بلکہ نا ممکن ہو جائے گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور دیگر اپوزیشن کی پارٹیاں اس وقت میاں نواز شریف کو سہارا دینا، ملک سے دشمنی سمجھ رہے ہیں۔ جہاں تک مسلم لیگ (ن) کی اتحادی پارٹیاں، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، فنگشنل لیگ، قومی وطن پارٹی، جمعیت علماٴاسلام (ف)کا تعلق ہے جب تک (ن) لیگ کے پاس حکومت ہے یہ ان کے ساتھ ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کی جعمیت علماٴاسلام (ف) نے تو اپنا ٹکٹ متحدہ مجلس عمل میں کٹوانے کا اعلان کر دیا ہے کہ آنے والے انتخابات میں تمام مذہبی جماعتیں ایک چھتری کے نیچے، ایک ہو کہ انتخابات میں حصہ لیں گی۔

دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی بھی اس امید میں ہے کہ آنے والے انتخابات میں درویش کی دعا سے سندھ کی روایتی سیٹوں کے ساتھ حیدر آباد، کراچی، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں کہیں کہیں پر سیٹیں لینے میں کامیاب ہو گی۔ پاکستاں مسلم لیگ (ن) بھی اتنی آسانی سے میدان چھوڑنے والی نہیں ہے کہ اتنی آسانی کے ساتھ اس کی پنجاب میں گہری جڑیں نکالی جا سکیں۔ کچھ بھی ہو جائے مسلم لیگ (ن) آنے والے انتخابات میں اپنا حصہ ضرور لے گی۔ دوسری طرف جنرل (ر) پرویز مشرف نے کچھ سیاسی، غیر سیاسی، ملی اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد کا اعلان بھی کر دیا ہے باقی رہی ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی تو ان کا الحاق تو فی الحال ناکام ہو گیا ہے۔

اب آتے ہیں عمراں خان صاحب کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی طرف، صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کے بہت سارے اچھے اقدامات بشمول درخت لگانا، پٹواری نظام کی بہتری کے لیے اقدمات سے لے کر تعلیم اور صحت میں کے شعبہ جات میں عملی اقدمات کے باوجود بھی حکومتی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کو خیبرپختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماٴاسلام (ف) جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے مقابلہ کرنا ہے۔ دیکھا جائے تو صوبہ خیبر پختونخواہ کے ووٹرز کی یہ پرانی روایت ہے کہ وہ ہر نئے انتخابات میں پارٹی تبدیل کرتے رہتے ہیں اور اس کے ساتھ عمران خان صاحب نے یہ بات خود تسلیم کی ہے کہ ان کی پارٹی کی نا تجربہ کاری کی وجہ سے ان کی حکومت کو بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

دھرنوں کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومتی کارکردگی متاثر ہوئی۔ جس تبدیلی اور انقلاب کے دعوے اور نعرے خان صاحب نے لگائے تھے ان کو شرمندہ تعبیرکرنے میں وہ کافی حد تک ناکام نظر آئے۔ اس لیے یہ تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی صوبائی اور قومی اسیمبلی کی سیٹوں میں کمی ہوسکتی ہے۔ پنجاب کے شہری حلقوں میں تحریک انصاف کی مقبولیت تو موجود ہے مگر ووٹ کی سیاست، ذات برادری کا رواج بھی ابھی تک قائم و دائم ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی اور مذہبی پارٹیوں کے ساتھ تحریک انصاف نے مقابلہ کرنا ہے۔ سوائے چند نشستیں حاصل کرنے کے علاوہ کبھی بھی تحریک انصاف پنجاب میں بھاری اکثریت سے کامیاب نہیں ہو سکتی۔

سندھ اور بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف کو ابھی بہت کام کرنا ہے۔ بلوچستان کے سردار یار محمد رند اور دادو کے لیاقت جتوئی، لاڑکانہ کے انڑ سردار، ممتاز بھٹو، پتافی سردار، شاہ محمود قریشی کے مرید اور تبدیلی کے متلاشی ابھی بھی لاکھوں لوگوں کو اکٹھا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ عمران خان صاحب میاں نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری، اسفندیار ولی، مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی پر مختلف الزامات لگاتے ہوئے ان کے لیے نا زیبا الفاظ استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس لیے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جمعیت علماٴاسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کا چلنا یا الحاق کرنا نا ممکن ہے۔

صرف اور صرف پاکستان تحریک انصاف کا الحاق، جنرل (ر) مشرف کی اتحاد اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ جو ملک کی کبھی بھی بڑی پارٹیاں نہی رہی ہیں نہ ہی کبھی زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ر ہی ہیں کےہ ان کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی جا سکے۔ فرض کریں اگر تحریک انصاف کے ساتھ قومی وطن پارٹی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق)، آزاد اور فاٹا اراکین کو کبھی ملا بھی لیا جائے تب بھی یہ سارے مل کر 172 نشستوں کی سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی دو تہائی اکثریت کو ختم بھی کیا جائے اور پیپلز پارٹی کے مینڈیٹ کو بھی چوری کر لیا جائے تب بھی حکومت یہ دونوں جماعتیں ہی بنائیں گی چاہے وہ مخلوط یا جدا گانہ۔ اس لیے عمران خان صاحب ان آنے والے انتخابات میں کبھی بھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے ماسوائے اپوزیشن لیڈر کے بشرطیکہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی میں سے کوئی اپوزیشن میں نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).