نواز شریف اپنی مانیں یا ان کی


پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات جس تیزی کے ساتھ بند گلی کی طرف جاررہے ہیں، اس نے ملکی معاملات میں دل چسپی رکھنے والے لوگوں کو شدید مایوس کردیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان سیاسی طور پر ایک ایسی سمت کی طرف چل پڑا ہے، جہاں نقصان کے علاوہ کچھ نہیں۔ پاکستان کے سیاسی اور غیر سیاسی فریقین کو پیچھے پلٹنا پڑے گا، اگر ضد برقرار رہی تو سب کا نقصان ہوگا۔

لیکن حالات صاف بتاتے ہیں کہ کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں!

میاں نواز شریف سیاسی طور پر جس دلدل میں پھنس چکے ہے، وہی سیاسی نظام کو بچاسکتے ہیں۔ اگر ان کی حکومت نے ان مخدوش سیاسی حالات میں کنفیوژن سے چھٹکارا حاصل کرکے کوئی کردار ادا نہیں کیا، تو کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہلی کے خلاف داخل کی گئی نظرثانی درخواست پر جو تفصیلی فیصلہ آیا ہے، اس کے بعد واضح ہوچکا کہ پاکستان کی سیاست میں میاں نواز شریف کا قانونی کردار سکڑ کررہ گیا ہے، اور اس تفصیلی فیصلے پرمیاں نواز شریف کا ردعمل اس بات کا پتا دیتا ہے کہ میاں صاحب اپنے عزیزوں کی مفاہمت والی بات سننے کے لیے تیار نہیں اور ان کے سیاسی حریف اب میاں صاحب پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔

پاکستان کے سیاسی نظام کے جاری رہنے کے حوالے سے جو خدشات محسوس کیے جارہے تھے، وہ اب یقینی صورت احوال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ قومی حکومت اور ٹیکنوکریٹ حکومت، جن کا پاکستان کے آئین میں کہیں کوئی تصور نہیں، تو پھر اس کا ذکر کس کی خاطر اور کیوں کیا جارہا ہے؟

جن حکومتوں کا ذکر کیا جارہا ہے، وہ تبھی ممکن ہوسکتی ہیں، جب آپ آئین کو روند ڈالیں اور سیاسی اداروں پر قبضہ کرلیں، اور جب یہی کچھ ہونا ہے تو سمجھ لیا جائے کہ وہی پرانی روایت دُہرائی جائے گی۔

دس سال آپ، دس سال ہمارے!

اس بار جب سویلین کے دس سال پورے ہونے جارہے ہیں، تو ایک بار پھر انگڑائی لے کر اٹھ کھڑے ہونے کی خواہش پیدا ہوتی جارہی ہے۔

نواز شریف کے موقف کے خلاف تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے درمیان ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ ہے۔

جب کہ مسلم لیگ نون کے اندر بھی ہیجان کی سی کیفیت ہے، لیکن جو اندازے لگائے جارہے تھے، کہ پاناما فیصلے کے بعد مسلم لیگ نون تقسیم ہو جائے گی، وہ خواہش ابھی پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔ میاں نواز شریف ابھی ضد پر اڑے ہوئے ہیں، جب کہ ان کی فیملی کے علاوہ باقی ساری مسلم لیگ ان کے موقف سے اتفاق نہیں کرتی۔

سوال یہ بھی ہے کہ اگر میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مرکزی پنجاب کو میدان جنگ بناتے ہیں، تو کیا مرکزی پنجاب ان کے ساتھ کھڑا ہوگا یا ”خضر ساڈا بھائی اے“ کی طرح واپسی کا راستہ لے گا۔

”پاکستان کی سیاست میں یہ پہلا ٹیسٹ کیس ہوگا، اگر میاں صاحب اپنے موقف پر کھڑے ہوتے ہیں“۔ کسی نے کہا کہ ”پنجاب کے عوام کی حمایت تو بعد کی بات ہے، پہلے اس بات پر بھی سوچیں کہ جو عوامی نمایندے اس وقت بڑے میاں صاحب کے ساتھ ہیں، وہ بھی ان کے ساتھ ہوں گے یا وہ بھی بیماری کے بہانے بستر پر لیٹ جائیں گے“۔

میاں نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کے سخت ترین دور کا سامنا کررہے ہیں؛ نناوے میں جب وزیراعظم ہاوس کی دیواریں پھلانگ کر انھیں گرفتار کیا گیا، اس وقت بھی وہ اتنی مشکل میں نہیں تھے، جتنا آج ہیں۔ سپریم کورٹ نے نہ صرف ان کے سیاسی مستقبل پر مہر لگادی ہے، بلکہ نااہلی کیس پر نظرثانی درخواست کے تفصیلی فیصلے نے ان کے سیاسی زندگی کو طعنے سے دوچار کردیا ہے۔ پہلے گاڈ فادر اور سسیلین مافیا اور اب ان کی رہبری پر بھی سوال اٹھادیا گیا ہے، قافلہ لٹنا تو دور کی بات ہے!

اس صورت سے نکلنے کے لیے فی الحال ان کے پاس ایک ہی راستہ ہے، کہ وہ بھی کھل کر میدان میں اتریں۔ اپنے آس پاس اور اس پنجاب کو بھی آزمائیں جسے جگانے کے لیے انھوں نے نوے کی دھائی میں آواز دی تھی۔ وہ پنجاب، جو ”بیلّٹ“ تک ان کے ساتھ رہا اب ”بلّٹ“ کے معاملے تک ساتھ ہے یا نہیں!

میاں نواز شریف کی شاہد خاقان کی سربراہی والی حکومت اس وقت کم زور ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، اور اس نے خود کو کم زور کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ آنے والے عام انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں، اس پر بھی اب سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ یہ موقع بھی حکومت نے خود فراہم کیا ہے۔ اب صورت احوال یہ ہے کہ آنے والے چند دنوں میں اگر حکومت نے نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے قومی اسمبلی کی نشستوں میں ردو بدل کے حوالے سے آئین میں ترمیم نہیں کی، تو الیکشن کمیشن کے پاس ایک ہی راستہ ہوگا کہ وہ سپریم کورٹ جائے اور اس سے رہنمائی حاصل کرے، کہ آنے والے عام انتخابات پرانی حلقہ بندیوں کے تحت کرائے جائیں یا نئی حلقہ بندیاں بغیر آئینی ترمیم کے کی جائیں۔

پاکستان کی پارلیمنٹ اور اس کی سیاسی قیادتوں نے اپنے ناجائز سیاسی مفادات کے لیے بلدیاتی انتخابات اور مردم شماری کرانے سے گریز کیا۔ نتیجے میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد ملک میں بلدیاتی انتخابات اور مردم شماری ہوسکی، لیکن بلدیاتی نمایندوں کو اختیارات دینا آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ مردم شماری ہوئی تو اس پر بھی سوالات کھڑے ہوگئے۔ اس بار بھی اگر سپریم کورٹ نے فیصلہ کرنا ہے تو پھر کس کو منہ دکھائیں گے؟

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہتے ہیں، کہ حکومت نے ہمارے ساتھ ٹھگی کی؛ ہم نے پارلیمانی رہنماوں کے اجلاس میں سوال اٹھایا تھا، کہ قانونی طور پر حلقہ بندیوں کے بارے میں مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری لی ہے یا نہیں؟ ان کے مطابق ہمیں کہا گیا کہ آئی پی سی سی میں معاملہ بھیج دیا ہے۔ قائد حزب اختلاف کے مطابق جب ہم نے وزیراعلیٰ سندھ سے معلومات لیں، تو انھوں نے بتایا کہ اس بارے میں انہیں کوئی علم نہیں۔ خورشید شاہ یہ بھی کہتے ہیں، کہ انھیں انیس سو اٹھانوے کی حلقہ بندیوں کے تحت نئے انتخابات کرانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی اس بات سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، کہ پرانی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات نہیں ہوسکتے۔ تحریک انصاف نئی حلقہ بندیوں کی آئینی ترمیم پر حکومت کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہے، لیکن اس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کے مطالبات پر غورکیا جائے۔ نئی آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو دوسو اٹھائیس ارکان کی حمایت درکار ہے۔ اگر تحریک انصاف اس ترمیم کی حمایت کرے اور حکومتی اتحادی اپنے تمام ارکان کی ایوان میں حاضری یقینی بنائیں تو یہ ترمیم پاس ہوسکتی ہے، لیکن بات گھوم پھر کر وہیں آتی ہے کہ حکومت کے اپنے ارکان پورے نہیں ہورہے، کیوں کہ پنجاب سے بظاہر ابھی تک یہ آواز نہیں آئی کہ ان کی نشستیں کیوں کم کی جارہی ہیں، لیکن پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ نون کے ارکان اس ترمیم پر ووٹ دینے کے لیے بھی رضامند نہیں ہیں۔

اس ساری صورت احوال کے تناظر میں، بات سپریم کورٹ جاتی دکھائی دے رہی ہے اور وہی خدشے بیان کیے جارہے ہیں کہ کیا نظریہ ضرورت کی اس بار بھی ضرورت پڑے گی؟ کیوں کہ اس بار سب کا ہدف سپریم کورٹ ہے۔

ابھی وقت ہے، اگر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی فوری طور پر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کریں اور قانون کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے معاملے کا، اس فورم پر تصفیہ کریں تو عین ممکن ہے کہ جو خدشے بیان کیے جارہے ہیں، وہ دم توڑ جائیں اور اس گھٹن زدہ سیاسی ماحول میں معمولی سے جھونکے کا احساس پیدا ہو۔ یوں وقت پر عام انتخابات نہ ہونے کے حوالے سے جو ابہام پیدا ہوا ہے، وہ ختم ہوجائے۔ دوسری جمہوری حکومت، نئی منتخب تیسری جمہوی حکومت کو اقتدار منتقل کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).