نواز شریف کو مائنس کرنے سے کیا حاصل ہو گا؟


سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد سے روز ایک نئی کہانی منظر عام پر آتی ہے۔ افواہوں کا بازار گرم ہے۔ کون سا دن ہے جس دن پارٹی ٹوٹنے یا شریف خاندان کے ٹوٹنے کی بات نہیں سنی جاتی۔ مائنس نواز فارمولہ تو ہر روز ٹاک شوز میں موضوع گفتگو ہوتا ہے۔ کیا واقعی نواز کو مائنس کرکے یہ پارٹی رہ سکتی ہے؟ کیا نواز کو مائنس کر کے ووٹ بنک کو برقرار رکھا جا سکتا ہے؟ کیا شہباز شریف نوازشریف کی مدد کے بغیر اتنے ووٹ لے سکتے ہیں کہ 2018 میں وفاق میں حکومت بنا لیں؟ نواز شریف کو مائنس کر کے اس پارٹی کا وجود برقرار رکھنا بہت مشکل ہے۔ اگر مائنس نواز اتنا ہی آسان ہوتا اور لوگوں کے دلوں سے نوازشر یف کی محبت نکالنا اتنا ہی سہل ہوتا تو یہ پانامہ، اقامہ کا ڈرامہ نہ کرنا پڑتا، آرام سکون سے انتخابات کی طرف جانے دیا ہوتا۔ کارکردگی نہ ہوتی تو پیپلز پارٹی کی طرح یہ بھی حکومت سے باہر ہو جاتے۔ لیکن نواز کی سیاست میں عوام کے لئے کچھ تو ایسی کشش ہے کہ ہر دفعہ سازش کرکے نکلوانا پڑتا ہے۔

نوازشریف نے اپنی سیاست کا آغاز جنرل ضیاءالحق کی زیر سایہ کیا۔ پاکستان میں ہر لیڈر کو آغاز آمریت کے سایہ میں ہی کرنا پڑتا ہے اس کی مثال ذوالفقار علی بھٹو بھی ہیں جنہوں نے ایوب خان کے زیر سایہ اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا۔ لیکن جب بھی کسی لیڈر کو احساس ہوتا ہے کہ یہ عوام کا حق ہیں کہ وہ اپنے حکمران کو چنیں تو وہ آمریت کو خیر باد کہہ کر عوامی سیاست کی طرف آجاتے ہیں۔ بھٹو بھی سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوامی میدان میں لایا۔ نوازشریف نے بھی آج سیاسی طور پر عوام کو جتنا شعور دیا ہے، اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ آج عوام کے دل میں اپنے ووٹ کی اہمیت کو منوانے کی طلب جتنی بڑھ رہی ہے، وہ شدت آج سے پہلے نظر نہیں آتی تھی۔ آج لوگوں کے دلوں میں یہ احساس پختہ ہوتا جارہا ہے میرا ووٹ میرا حق ہے۔ میرا حق مجھ سے کوئی نہ چھینے۔ مجھے ہی یہ حق ہے کہ میں اپنا لیڈر منتخب کرو ں یا مسترد کروں۔ مجھے یہ حق ہے کہ میں اپنے لئے جیسا چاہوں، نظام منتخب کروں۔ ہمیں ہر دس سال کے بعد آ کر یہ نہ بتایا جائے کہ ہمیں اب جمہوریت چاہیے یا اب آمریت ہونی چاہیے۔ پارلیمانی نظام ہمارے لئے بہتر ہے یا صدراتی نظام۔ یہ حق صرف اور صرف عوام کا ہے۔ یہ شعور اور آگاہی آج سے پہلے عوام کو اتنی زیادہ نہیں تھی۔ عوام نے ہر دور میں جمہوریت کے لئے جدوجہد تو کی ہے لیکن یہ جدوجہد کبھی بھی مسلم لیگ کا خاصہ نہیں رہی تھی۔ لیکن آج جو جنون اور جوش مسلم لیگ کے ورکرز میں نظر آتا ہے وہ مسلم لیگ کی پوری سیاسی تاریخ میں کبھی نظر نہیں آیا۔

مائنس نواز اگر اتنا ہی آسان ہوتا تو یہ مشرف دور میں ہی ہوگیا ہوتا۔ جب مسلم لیگ کو توڑ کر اس کے اندر سے قاف لیگ بنائی گئی۔ چند وفادار ساتھیوں کے علاوہ باقی سب بڑے بڑے سیاست دان قاف لیگ میں شامل ہوگئے اور پانچ سال مشرف کے زیر سایہ اس ملک پر حکومت کرتے رہے۔ نوازشریف کو جلا وطن کردیا گیا۔ جب جنرل مشرف اپنے مخصوص رعونت سے بھر پور لہجے میں کہتے تھے نوازشریف کی سیاست اب ختم ہو گئی ہیں وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گئے۔ لیکن نواز شریف واپس آیا اسی ملک میں سیاست کی اور اسی عوام نے تیسری دفعہ اس کو بھاری اکثریت سے اس ملک کا وزیراعظم بنایا۔

اگر مائنس نواز اتنا آسان ہوتا تو پانامہ کے پروپگینڈے اور اقامے سے نااہلی کے بعد نوازشریف کو جی ٹی روڈ سے جانے نہ روکا جا رہا ہوتا۔ لیکن نااہلی کے بعد جب نوازشریف براستہ جی ٹی روڈ لاہور کے لئے نکلے تو پانچ دن اس ملک کی سکرینوں پر اس کے علاوہ کوئی خبر نہ تھی۔ جہاں جہاں رک کر نواز شریف خطاب کرتے تھے عوام کا ایک جم غفیر امڈ آتا تھا۔ مائنس نواز کا پتا تو این اے 120 کے نتائج سے بھی چل گیا ہو گا کہ تمام تر حربوں کے باوجود مریم نواز نے تن تنہا اپنی والدہ کی تحریک چلا کر ان کو وہاں سے جتوایا۔ نواز لیگ نواز شریف کے بغیر ادھوری ہے۔

آج کل یہ افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ پارٹی کے چند ارکان چاہتے ہیں کہ شہباز شریف کو صدر بنا کر نوازشریف گوشہ نشینی اختیار کرلیں ورنہ بہت سے ارکان پارٹی چھوڑ دیں گئے۔ لیکن حالیہ دنوں میں لندن میں ہونے والی میٹنگ اور نوازشریف کے وطن واپسی نے اس افواہ کا دم توڑ دیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کتنے ارکان پارٹی چھوڑ کرجاتے ہیں۔ ویسے بھی انتخابات کے قریب بہت سے فصلی بیٹر ے اقتدار کے لالچ میں اڑ ہی جاتے ہیں۔ لیکن کچھ دانشمندوں کو پتا ہے ووٹ تو صرف نوازشریف کے نام سے ملنا ہے اس لئے وہ لوٹا بننے سے گریزاں ہیں۔ پاکستان کی سیاست نوازشریف کے بغیر ادھوری ہے۔ مسلم لیگ کا ووٹ بنک نواز شریف کے دم سے ہے۔ مسلم لیگ کو ووٹ نوازشریف کی وجہ سے پڑتے ہیں۔ جو سیاست دان بھی نواز لیگ کو چھوڑ کر گیا اس کی اپنی سیاست ختم ہوئی لیکن وہ نوازشریف کی سیاست کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ حامد ناصر چھٹہ، میاں اظہر، خورشید قصوری، چوہدری شجاعت، پرویزالہی، فخر امام، عابدہ حسین، گوہر ایوب، ذوالفقار کھوسہ آج یہ سب نام کہاں ہیں۔ ان بڑے بڑے ناموں کے ہوتے ہوئے کوئی تو وجہ تھی کہ مسلم لیگ، نواز لیگ بنی اور کوئی بھی بڑا نام اس کی پارٹی پر قبضہ نہ کر سکا۔ تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود نوازشریف کو عوام نے تین بار وزیراعظم بنایا۔ آج بھی پاکستان کی سیاست میں صبح شام صرف ایک بندہ کی گونج ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر رات سات سے لے کر بارہ بجے تک صرف نوازشریف کا تذکرہ ہی ہوتا ہے۔ اگر مائنس نواز اتنا آسان ہے تو کیوں عمران خان اور زرداری کی تقریر اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ کیوں ہر کرنٹ افیئرز کے شوز میں اس کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اگر مائنس نواز کرنا ہے تو اس سسٹم کو چلنے دو اگر نوازشریف کی کاررکردگی نہیں ہوگی تو لوگ خود ہی حکومت سے نکال دے گئے لیکن اگر سازشوں کے ذریعے مائنس نواز کی کوشش کی گئی تو نواز شریف لوگوں کی ضد بن جائے گا۔ جس طرح بھٹو آج تک پاکستان کی سیاست سے مائنس نہیں ہوسکا اسی طرح نواز بھی پاکستانی سیاست میں امر ہوجائے گا۔

مائنس نواز اب اس ملک کے عوام کے لئے طعنہ بن گیا ہے۔ جو یہ نعرہ لگاتے ہیں وہ عوام کے دشمن کہلاتے ہیں۔ جمہوریت کے قاتل کہلاتے ہیں۔ نفرت کے علم بردار کہلاتے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ جب تک نواز شریف عوام کے دلوں میں رہتا ہے اس نام کو کوئی نہیں نکال سکتا۔ اور اگر کسی نے یہ کوشش زبردستی کی تو تاریخ اس کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس ملک کے عوام کبھی معاف نہیں کریں گے۔ زبردستی کے فیصلوں سے لیڈر دلوں سے نہیں نکلتے۔ لیڈر صدیوں تک دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).