دنیا بھر کے لوگوں کی دربدری اور جارحانہ امریکی پالیسیاں


حالیہ دنوں میں ایک رپورٹ منظرعام پر آئی ہے جس کے مطابق پچھلے کچھ عرصہ میں دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنے ہی ملک کے اندر یا کسی دوسرے ملک میں اگرہجرت کرنا پڑی ہے تو اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں امریکہ کی توسیع پسندانہ خارجہ پالیسی کا ہاتھ ہے۔

دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ادارے اور انجمنیں خصوصا امریکہ میں موجود انسانی حقوق کی تنظیمیں تارکین وطن کو درپیش مسائل اور ان کے حقوق کی پامالی کے حوالے سے تو آواز اٹھا رہی ہیں لیکن جن وجوہات کی بنا پر یہ لوگ دربدر ہونے پر مجبور ہوئے یا ابھی بھی در بدر ہو رہے ہیں اس پر بات کرنے کو تیار نہیں۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ساڑھے چھ کروڑ سے زائد لوگ پناہ گزینوں کی حثیت سے مختلف ممالک میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اوسطا ہر ایک منٹ میں چوبیس لوگ اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں، اس وقت مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق یا تو شمالی افریقہ سے ہے یا پھر ملک شام سے۔

ایک اندازے کے مطابق شام میں خانہ جنگی کے بعد سے تقریبا 60 لاکھ لوگوں کو اندروں ملک اور اڑتالیس لاکھ لوگوں کو بیرون ملک ہجرت کرنا پڑی جو کہ خانہ جنگی سے پہلے شام کی ملکی آبادی کا تقریبا نصف ہے۔

عراق میں خانہ جنگی کے بعد تقریبا چوالیس لاکھ لوگوں کو اندرون ملک اور ڈھائی لاکھ سے زائد لوگوں کو بیرون ملک پناہ ڈھونڈنا پڑی ہے۔

یمن میں جنگ سے تقریبا پچیس لاکھ لوگ اور لیبیا کی خانہ جنگی تقریبا پانچ لاکھ لوگوں کی مہاجریت کا سبب بنی۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق اگست 2016 تک امریکہ عراق، افغانستان، پاکستان میں لڑی جانے والی ان جنگوں پر تقریبا ساڑھے تین کھرب ڈالرز پھونک چکا ہے۔ اگر اس میں 2017 کے متوقع اخراجات کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ اخراجات چار کھرب ڈالرز سے بھی زیادہ ہو جائیں گے۔

ایک مضحکہ خیز بات ان سب جنگوں کے حوالے سے تھی وہ یہ کہ ان سب جنگوں کو شروع کرنے سے پہلے امریکہ کا یہ دعوی تھا کہ وہ یہ جنگیں ’’انسانوں اور انسانیت ‘‘ کو بچانے کے نام پر شروع کرنے پر مجبور ہے۔

ذرا یاد کریں امریکہ کے صدر جارج بش کی وہ تقریر جو انہوں نے افغانستان میں جنگ چھیڑنے سے پہلے کی تھی۔ انہوں نے افغانی عوام کو یہ بتایا کہ امریکہ کی اس جنگ کا مقصد ان کو طالبان کے ظالمانہ تسلط سے نجات دلوانا ہے اور وہ یہ سب کچھ ان کی حفاظت کے لئے کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ طالبان کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنائیں گے اور افغانی عوام کو خوراک اور ادویات مہیا کریں گے تاکہ افغانی عوام خوراک کی کمیابی اور ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کا شکار نہ بنیں، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ افغانستان میں یہ جنگ آج بھی جاری ہے اور جن کے ساتھ روٹی اور دوائی کا وعدہ تھا وہ آج بھی اپنی زندگی بچانے کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ کی یہ جنگ ایک لاکھ سے زائد عام افغانیوں کی جان لے چکی ہے۔ چودہ لاکھ لوگوں کو اندرون ملک اور پچیس لاکھ لوگوں کو بیرون ملک پنا ہ ڈھونڈنا پڑی ہے۔

طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد بجائے اس کے کہ امریکہ افغانی عوام کی حفاظت کو یقینی بناتا اس نے عراق میں جنگ چھیڑ دی۔ نتیجتا نئی افغانی حکومت کمزور ہوئی اور حقانی نیٹ ورک اور داعش جیسےمختلف شدت پسندگروپ مضبوط ہوئے اور انہوں نے ملک کے بڑے حصے پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور افغانی عوام کو دوبارہ پناہ گزینوں بننا پڑا۔

2003 میں امریکہ نے ’’تباہی پھیلانے والے اسلحے‘‘ کی تلاش کے نام پر عراق پر حملہ کیا۔ نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں نکلا۔ بڑے پیمانے پر لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے۔ تقریبا دو لاکھ لوگ اس ’’امریکن ایڈوینچر‘‘ کا شکار بنے۔

لیبیا کے مسئلے کے بارے میں امریکی صدر اوبامہ نے لیبیائی عوام کو یہ یقین دلایا کہ امریکہ اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر ان کو صدر قزافی کے جبر سے نجات دلائے گا لیکن ہوا کیا؟ جیسے ہی قزافی حکومت کا خاتمہ ہو ا، ملک انتشار کا شکار ہوگیا اور مختلف تشدد پسند مسلح گروہ طاقت کے حصول کے لئے ایک دوسرے کے دست و گریبان ہوئے اور لوگوں کو اپنے ہی ملک میں دربدر ہونا پڑا۔

امریکہ کی ایک تنظیم’’کونسل آن فارن ریلیشنز‘‘ کے مطابق امریکہ نے افغانستان، عراق، یمن وغیرہ میں جاری ان جنگوں میں کم ازکم چھبیس ہزار بم گرائے، یعنی تقریبا بہتر (72)بم روزانہ۔ یہ تعداد ابھی کم ازکم ہے کیونکہ ابھی ان اعدادوشمار میں وہ معلومات شامل نہیں جس سے یہ پتا چل سکے کہ ان جنگوں میں امریکی حلیفوں نے کتنے بم استعمال کیے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران امریکی عوام کے ساتھ یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کی حفاظت پر زیادہ خرچ کریں گے اور تارکین وطن کی امریکہ آمد کو مشکل بنا دیں گے۔

اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے پناہ گزینوں کی امریکہ آمد کو مشکل بنادیا اور کئی ممالک کے لوگوں کے امریکہ کے سفر کو ناممکن بنا دیا۔ امریکی عوام کی حفاظت کے نام پر عسکری بجٹ میں تیس ارب ڈالرز کا اضافہ کر دیا۔

مشرق وسطی کے مسلئے کو لے کر بھی صدر ٹرمپ کا رویہ خاصا ’’جارحانہ اور آمرانہ‘‘ ہے۔ وہ اپنے قریبی حلقوں میں یہ کہتے بھی سنے گئے کہ امریکہ ’’عراق‘‘ اور ’’لیبیا‘‘ میں تیل پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی خاطر ’’کچھ‘‘ بھی قربان کرنے کو تیار ہے۔ امریکی عسکری بجٹ میں حالیہ اضافہ اور 2018 کے بجٹ میں متوقع اضافہ صدر ٹرمپ کی اس بات کی تائید کرتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مشرق وسطی میں لگی آگ دنیا کے کئی اور ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گی اور کئی نئےممالک کے عوام مہاجرین کی نئی فہرست کا حصہ بننے پر مجبور ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).