پیر کا مرشد، ماموں بھانجا اور چوہدری برادران


“پیر ”کو ہم پیر اس لیے کہتے تھے کہ وہ سب کو اپنے پشاوری لہجے میں ”اؤ پیرا! ”کہہ کر بلاتے، سب نے مل کر ان کا نام پیر رکھ دیا۔ گروپ میں دو بندوں کے نام ہم نے ماموں بھانجا رکھ دیے تھے۔ ان دونوں کا تعلق شانگلہ سوات سے تھا اور دونوں رشتے میں سگے ماموں بھانجا لگتے تھے اس لیے ان کے نام یہی نام پڑگئے۔ جبکہ ہم دو بھائی چوہدری برادران کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وجہ شاید یہ تھی کہ بڑے بھائی کا بیٹھنے کا انداز پنجاب کے پنڈ کے چوہدریوں والا تھا۔ سب نے ان کانام چوہدری رکھ دیا تھا۔ میری گروپ سے شناسائی بڑھی تو ہمیں چھوٹا چوہدری کہاجانے لگا۔ گروپ میں ایک شیخ بھی تھے شاید شیخ اس لیے قرار پائے تھے کہ ان کا چہرہ سرخ اور سر اور داڑھی کے بال بھورے رنگ کے تھے، دوستوں نے غالباً اسی لیے “خضاب زدہ شیخ” کہنا شروع کردیا تھا۔

ہم چھ کی ٹولی بہت لحاظ سے متفرق عادتوں کی تھی۔ پیر مزاج کا مست ملنگ تھا۔ ابتداء میں عشق، شاعری، جنوں اور آوارگی کا مرقع تھے بعد میں ایک قریبی دوست کے اچانک قدرتی موت نے زندگی ایسی بدلی کہ خانقاہی ہوگئے۔ شاعری کے از حد دلدادہ تھے۔ جنون اور وارفتگی کی شاعری سن کر دل سے آہ اور واہ کرتے، درویش شاعر ساغر صدیقی کی غزلیں بہت درد سے پڑھتے۔ ان کی مشہور غزل ” وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو ” دل سے پڑھتے۔ قہقہہ ایسا لگاتے کہ جیسے ہفت افلاک کو چھیرنا چاہ رہے ہوں۔ جمعرات کی شام اگلے دن جمعہ کی چھٹی ہوتی، پڑھائی کی چھٹی میں فراغت خوب میسر آتی تھی، اس لیے کبھی کبھی ہم محفل مشاعرہ سجا لیتے۔ خود شاعر نہیں تھے اس لیے دوسرے شاعروں کے پسندیدہ کلام کا جو انتخاب ہم نے اپنی ڈائریوں میں محفوظ کیا ہوتا وہ ایک دوسرے کو سناتے۔ تڑپتے پھڑکتے اشعار پر داد بھی تو ایسی ہی وارفتگی سے دینی پڑتی تھی اس لیے ایسی بے خودی کی کیفیت میں سب سے بڑھ کر ہم ہی ان کا ساتھ دیتے۔ اپنی ڈائریوں کا تبادلہ اور اشعار کی منتقلی کا سلسلہ وقفے وقفے سے ہوتا رہتا۔

گروپ میں بھانجا کتابوں کے اعتبار سے ہم میں متمول تھا۔ اس لیے کہ اس کا گھر کراچی میں تھا۔ وہ گھر آتا جاتا تھا۔ گھر میں والد کی کتابوں کی اچھی خاصی لائبریری تھی۔ اس کے علاوہ ان دنوں وہ اردو ادب میں ایم اے کررہے تھے اس لیے بھی ادبی کتابیں افسانے، شاعری، ناول اور مضامین اور کالموں کے مجموعے کافی تعداد میں ان کے پاس جمع ہوگئے تھے۔ قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، سعادت حسن منٹو، خدیجہ مستور، شفیق الرحمن، کرنل محمد خان، پطرس بخاری، نسیم حجازی، غالب، اقبال، میر تقی میر، ناصر کاظمی، ساحر لدھیانوی، ساغر صدیقی، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض وغیرہ سبھی ان دنوں پڑھنے کو میسر آئے۔ کہتے ہیں کتاب کسی کو پڑھنے کے لیے دینے والا بے وقوف ہوتا ہے اور پڑھ کر واپس کرنے والا مہا بے وقوف ہوتا ہے۔ بھانجے نے مگر اپنی کتابیں دوستوں سے واپس لینے کے لیے طریقہ یہ ڈھونڈ رکھا تھا کہ اگلی کتاب پڑھنے کے لیے اس شرط پر ملتی کہ ہم پہلی کتاب واپس کردیں۔ اس لیے اگر کبھی واپسی کے متعلق ارادہ بدل رہا ہوتا تب بھی اگلی کی لالچ باز رکھتی۔ یوں بھانجا ہمیں کتابیں دیتے بھی رہا اور شرافت سے واپس لیتا بھی رہا۔ اور اس قول مشہور کے مطابق وہ بھی بے وقوف بنتے رہے اور ہمیں بھی مہا بے وقوف بناتے رہے۔

گروپ کے ماموں کو البتہ ان چیزوں سے خاص لگاؤ نہیں تھا۔ شعر سمجھتے بھی تھے اور داد بھی دیتے تھے مگر زیادہ پاگل پنا وہ پسند نہیں کرتے تھے۔ شرارتوں سے البتہ سب کو ہنستے ہنساتے رہتے۔ ہائی وے پر مزار وں کے پاس مجاوروں اور پیروں کے پاس بیٹھ کر ان کی خوب تعریف کرتے۔ ان کے کرامات کی خوب تعریفیں کرتے اور چائے پی کر مٹھائی کا ڈبہ اور حلوے کے پیکٹ لے کر ہمارے پاس آجاتے۔ گلشن اقبال میں ایک مشہور مہتمم صاحب کے پاس جاکر ان کے قدموں میں بیٹھ کر ان کی خوب تعریفیں کیں، خود کو بہت دور سے آیا ہوا مہمان ظاہر کیا۔ مہتمم صاحب نے خوب خدمت کی، مٹھائی اور دیگر تحائف کے علاوہ کتابوں کا ایک بڑا سیٹ دے کر رخصت کیا۔ کتابوں کا سیٹ وصول کرتے ہوئے ایسی انکساری چہرے اور وجود پر طاری کردی کہ لگتا تھا حضرت نے توجہ زیادہ کردی تو تاب نہ لاکر مرجائیں گے۔ تعجب اس بات پر تھا کہ ایسے موقع پر مجال ہے جو ان کو ہنسی آئے۔ اداکاری ایسے کرتے کہ کردار میں پوری طرح ڈھل جاتے۔ پھر پوری سنجیدگی سے آخر تک کردار نبھاتے۔ باہر نکل کر پھر پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنستے۔ یہ ان کے شب وروز کے قصے تھے۔

بڑے چوہدری البتہ مزاج کے بھی چوہدری تھے۔ زیادہ ہنسنے ہنسانے سے گریز تھا۔ اشعار سنتے اور پسند بھی کرتے مگر وارفتگی طاری نہیں ہوتی تھی۔ افسانے، ناول، شاعری کچھ نہیں چھوڑا مگر سب کو پڑھ کر پی جاتے۔ ایسے پی جاتے کہ ان کے مزاج پر شاعری یا ناولوں کا کوئی تاثر نہیں جھلکتا تھا۔ ممتازمفتی یا منٹو پر بات کرتے تب پتہ چلتا تھا کتنا پڑھے ہوئے ہیں۔ سیاست پر گہری نظر تھی۔ اخبار پڑھتے نہیں دھیمک کی طرح چاٹ جاتے۔ الیکشن سے قبل اوربعد قومی وصوبائی کے تقریبا ہر ہر حلقے پر تبصرہ کرتے۔ ہر تنظیم کی الگ الگ پوزیشن پیمانہ کرتے۔ مستقبل کے حوالے سے زائچے بناتے اور پیشن گوئیاں فرماتے۔

ہم چھوٹے چوہدری کو لوگ چیف ایڈیٹر بھی کہتے۔ وجہ یہ تھی کہ ہم مدرسہ کی وال میگزین کے ایڈیٹر تھے۔ اب ایڈیٹر کو چیف ایڈیٹر وہ کیوں کہتے تھے یہ تو کوئی جاکر ان سے پوچھے۔ بقول فرنودعالم“ گھسیٹا کاریاں“ اپنا مشغلہ تھا۔ مختلف کالم نگاروں پر تبصرے اورتذکرہ محفل کا حصہ رہتا۔ شام کی چائے پینے سب نکل کر آگے پیچھے ہوتے ہوٹل پر پہنچتے۔ بارشوں کے موسم میں پیر اپنے خاص ترنگ میں ہوتے۔ بارشوں کی شاعری سننا اور پڑھنا خاص ذوق ہوتا۔ چپس اور بوتل لے کر کسی پارک کے بینچ پر بیٹھے باتیں کرنا اوراداس شاعری سننا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔

پیر کا مزاج ملنگی تھا، کبھی کبھی بڑی سے بڑی بات بھی محسوس نہ کرتے اور کبھی معمولی سی بات انہیں پریشان کردیتی۔ ایک دن شام کو نکلتے وقت دوستوں سے کہا ”پیرانو! نن راسرہ جیب کی پیسے نشتہ ” پیرو! آج جیب میں پیسے نہیں ہیں بل جس نے بھرنا ہے بھردے۔ اس دن بریانی کھانے گئے تھے۔ بریانی کھاتے ہوئے بھانجے نے سب کو اشارہ کیاپھر بڑی سادگی اور عاجزی چہرے پر سجاکر سب سے کہا یار میں تو اپنا بٹوہ کمرے میں بھول آیا ہوں بل جس نے دینا ہے دیدے۔ بڑے چوہدری نے کہا میرے پاس تو صرف سو روپے ہیں کام بنتا ہے تو لے لو اور میرے پاس نہیں ہیں۔

ماموں خاموش رہا اور کچھ کہے بغیر ہی تاثر دیا کہ اللہ اللہ خیر صلاہے یہاں بھی۔ پیر کے ماتھے کی لکیریں گہری ہوگئیں، چٹاخ کے ساتھ ماتھا پیٹا۔ چمچ پر گرفت ڈھیلی پڑگئی۔ پریشانی میں سب کو دیکھا۔ چیخ کر کہا اوئے تمھیں آتے ہوئے بتادیا تھا۔ پیسے نہیں تھے تو آئے کیوں؟ بھانجے نے کہا خیر ہے تم سب چلے جاؤ میں دکان والوں سے کہہ دوں گا کہ پیسے نہیں ہیں میں برتن مانجھوں گا۔ سادہ دل پیر سمجھا واقعی ایسا ہی ہے، کہا خدا کے لیے ایسا مت کرو تم سفید پوش مولوی ہو، یہ لوگ کیا کہیں گے۔ ماموں نے کہا نہیں برتن کی صفائی سے زیادہ فرش کی دھلائی آسان ہے میں کرسکتا ہوں تم سب جاؤ میں دکان کو پونچا جھاڑو لگا کر آجاوں گا۔ پیر نے کہا ہاں ہاں فقیرو! آج تم اپنی عزت خاک میں ملا کر ہی رکھو گے، کسی دوست کو فون کرکے پیسے منگوالو۔

غرض اس دن ماموں، بھانجا نے مل کر پیر کو خوب ستایا۔ ایک دن بریانی کا مصالحہ بہت تیز تھا۔ سب نے مصالحہ کم کرنے کا آرڈر دیا پیر نے اندازہ لگائے بغیر کہہ دیا مصالحہ تیز۔ اس دن جو بریانی کی پلیٹ خالی کرتے پیر کے پسینے چھوٹے وہ دیکھنے لائق تھے۔ مگر وہ اپنی بات کے بھرے میں آئے تھے کیسے پیچھے ہٹتے۔ ادھر ہم سب کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے اور ہنستے جاتے تھے۔ تصوف کی طرف جانے کے بعد وہ خانقاہی ہوگئے تھے۔ ایک دن پشاور سے ان کے مرشد صاحب آئے تھے۔ مدرسہ میں انہوں نے سب دوستوں کو اپنے مرشد سے ملوایا۔ سب سراپا ادب بیٹھے رہے۔ مرشد نے اصلاحی بیان کیا۔ مرشد کی بزرگی، کرامت اور تقوی کے جو قصے انہوں نے سنائے تھے مرشد کو دیکھنے کے بعد اللہ معاف فرمائے ہمیں تو ان کی چال ڈھال اور نشست وبرخاست سے وہ کوئی چلبلے سے نوجوان لگے۔ مرشد کے جانے کے بعد اس دن پیر کی جو ہنسی سب نے اڑائی وہ الفاظ آج بھی دوست دہراتے ہیں۔ پیر کے والد پشاور میں بڑے سیاسی رہنما ہیں مگر خود انہیں سیاست سے نفرت کی حد تک عدم دلچسپی تھی۔

بات لمبی ہوتی جارہی ہے۔ ہم ناسٹلجیا کے مارے لوگوں کو یہ سب کچھ یاد اب کی بار بہت یاد آتا رہا۔ کراچی کے حالیہ سفر میں انہیں راستوں اور گلیوں پر چلتے میں نے اپنے دوستوں کے قہقہے بارہا سنے۔ بارہا منہ موڑ کر پیچھے دیکھا کہ ہم شاید آگے نکل گئے ہیں اور چوہدری اور ماموں پیچھے کسی ہوٹل پر ہمارا انتظار کررہے ہیں۔ بارہا وہ شعر زبان پر آئے جو ہم نے راہ چلتے پڑھے تھے : وقت کی چند ساعتیں ساغر، لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).