مدارس کا تعلیمی بحران اور ہندوستان کے مسلمان


 

میں قطعی اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کرسکتا کہ مدارس کی بنیاد گزاری فقط دینی تعلیم کے لئے کی گئی تھی۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ نعرہ کیوں دیا جاتاہے کہ کوئی بھی علم فقط دنیاوی نہیں ہوتا۔ ہر عالم یہ تسلیم کرتاہے کہ کوئی بھی علم فقط دین یا صرف دنیا کے لئے نہیں ہوتا۔ علم حاصل کرنے والے کا ہدف فقط دین یا فقط دنیا ہوسکتی ہے۔ علم دین بھی درحقیقت علم دنیا ہی ہے اور علم دنیا اپنی حقیقت میں علم دین ہی ہے۔ مگر یہ دعویٰ اس لئے ہوائی ثابت ہوتاہے کیونکہ آج تک مدارس میں اس دعویٰ کو عملی جامہ نہیں پنہایا گیا۔ آج بھی دین و دنیا کے علم کی تقسیم بندی جاری ہے اور جاری رہے گی کیونکہ ہم اپنے بنے ہوئے جال سے باہر نہیں نکلنا چاہتے ہیں۔ ذمہ داران مدارس صرف عوام ہی کو دھوکہ میں نہیں رکھے ہوئے ہیں بلکہ خود فریبی کا بھی شکار ہیں۔

مدارس کےاکثر طلباء کا کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طرف رخ کرنا اور مذہبی تعلیم سے عاری ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ موجودہ صورت حال کیاہے۔ مدارس میں تعلیم کا معیار روبہ زوال ہے۔ ذمہ داران مدارس کی عدم توجہی اور مدرسوں پر موروثی نظام کے مسلط عذاب نے معیار کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قوم کو تقویٰ، اخلاص اور اخلاق کی تعلیم دینے والے حضرات ہی مدرسوں پر سانپ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھے ہیں اور قومی وراثت کو اپنے آباء و اجداد کی جاگیر سمجھ لیا ہے۔ اگر مدارس کا پورا نظام اور ہر کام ملت کے تعاون سے جاری ہے تو پھر قومی میراث شخصی میراث کیسے ہو گئی؟ اگر نام نہاد وارثان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مدرسہ ان کی میراث ہے تو ان کے پاس اتنی دولت کہاں سے آتی ہے کہ وہ مدرسہ کے اخراجات کو پورا کرسکیں؟ ہر حال میں مدرسہ قومی میراث ہے اور کوئی بھی شخص مالکانہ تصرف کا حق نہیں رکھتا۔ اس لئے اگر ذمہ داران تقویٰ، اخلاص اور اخلاق کا درس قوم کو دیتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ پہلے اس فلسفہ کو خود اپنائیں تا کہ اثر پیدا ہو۔ اکثر حضرات عصری تقاضوں کو نہیں سمجھتے اور جو سمجھتے ہیں ان کے پاس یا تو وسائل نہیں ہیں یا پھر وہ بے حسی کا شکار ہوتے ہیں۔ مدارس پر مسلط موروثی نظام نے قوم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ آج اکثر مدارس میں وارثوں کا ایسا ٹولا پاؤں جمائے ہوئے ہے جن کی علمی صلاحیت ان کے طلباء کے بالمقابل صفر ہے۔ جنھیں خود اصلاح اور تربیت کی ضرورت ہے وہ طلبا کی تربیت کیسے کریں گے۔

مدارس کو جدید نظام تعلیم اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بے حد ضروری ہے۔ جدید نظام تعلیم سے مراد مدارس میں انگریزی اور ماڈرن ہسٹری کی تعلیم مراد نہیں ہے بلکہ وہ طریقۂ تدریس مراد ہے جو آج دنیا بھر میں رائج ہے۔ کیا ہمارے مدارس میں ٹرینڈ ٹیچرز ہوتے ہیں۔ ڈنڈے کا خوف دلا کر طلباء کو اپنی جہالت کا قائل کرنا الگ ہے مگر انہیں اپنے علم و تجربہ کی بنیاد پر مطمئن کرنا آسان نہیں ہے۔ اگر طلباء دوران تعلیم ہی احساس کمتری کا شکار ہوجائیں گے تو پھر قوم ان سے کیا توقعات وابستہ رکھے گی۔

کچھ دوراندیش ذمہ دار حضرات کاکہنا ہے کہ’’ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی کل پانچ فیصد آبادی مدارس کا رخ کرتی ہے اس لئے پانچ فیصد کی فکر کرنے کے بجائے 95 فیصد آبادی کی فکر کیجیے ‘‘انتہائی غیر ذمہ دارانہ اورناعاقبت اندیشی پر مبنی فرمان ہے۔ اگر اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانوں کی آبادی کا کل پانچ فیصد حصہ مدارس کا رخ کرتا ہے تب بھی ہم اس پانچ فیصد کو اس قدر غیر اہم اور ہلکا کیوں تصور کررہے ہیں۔ آج یہ پانچ فیصد 95 فیصد آبادی پر حاوی ہے اور عوام کے درمیان انہی 5 فیصد کو دیگر شعبہ جات کے تعلیم یافتہ حضرات پر فوقیت دی جاتی ہے۔ آج بھی ہماری قوم خواہ سنی ہو یا شیعہ یا کسی دوسرے مسلک کی پیروی کرنے والے افراد ہوں ‘ ڈاکٹر یا پروفیسر صاحب کی جوتیاں نہیں اٹھاتے، کسی انجینیر کے ہاتھ نہیں چومتے، صدقات، زکات اور خمس کی رقومات کسی یونیورسٹی یا کالج کو نہیں دی جاتی بلکہ ہم اپنے ہر قومی معاملہ میں اسی 5 فیصد کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یعنی یہ 5 فیصد ملت کے 95 فیصد پر حاوی ہے۔ اگر ہم اس 5 فیصد پر توجہ کریں اور اس کی صحیح تربیت کر لیں تو یقیناً ملت کے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہوجائیں گے۔

دوسرے یہ کہ مدارس کے نصاب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا مطالبہ اس لئے کیا جاتاہے کیونکہ قوم کی نگاہیں علماء کرام پر ٹکی ہوتی ہیں ناکہ کسی اسکول اور اسکول سے پڑھ کر نکلنے والی نسل پر۔ آج بھی قوم کے مستقبل کے اچھے اور برے سبھی فیصلے علماء کرام کرتے ہیں۔ اگر یہ علماء عصری تقاضوں کو نہیں سمجھیں گے اور عصری تعلیم اور اس کی ضروریات سے ناواقف ہوں گے تو بے بصیرتی اور ناعاقبت اندیشی کی بنیاد پر فیصلوں میں مستقبل شناسی نہیں ہوگی۔ اب تک یہی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ مدارس سے جو نسل پڑھ کر نکل رہی ہے اور قوم کے سروں پر مسلط ہے اس کی ناعاقبت اندیشی اور غیر سیاسی حرکتوں نے قوم کو فائدہ کے بجائے نقصان پہنچایا ہے۔ مگر نقصانات جھیلنے کے بعد بھی قوم کی نگاہیں علماء کرام پر مرکوز رہتی ہیں کیونکہ ہم نا تو پوری طرح سیکولر ہیں اور نہ لبرل۔ ہماری قوم آج بھی ہر نفع و نقصان کے احتساب سے پہلے مذہبی نقطۂ نگاہ سے واقفیت حاصل کرتی ہے تاکہ آخرت کے خسارہ سے محفوظ رہا جائے۔

تیسرے یہ کہ اگر مدارس سے پڑھ کر نکلنےوالی نسل مکمل تعلیم یافتہ ہوگی یعنی عصری تقاضوں سےہم آہنگ ذہن رکھتی ہوگی تو وہ مسلم آبادی کے باقی ماندہ 95 فیصد کے لئے بھی فکر مند ہوگی۔ اگر یہ نسل دردمند ہے اور مفاد پرستی سے عاری ہے تو 95 فیصد آبادی کے لئے مخلصانہ کام کرے گی۔ ساتھ ہی اپنے غیر عاقلانہ اور سیاست سے عاری افکار کی بنیاد پر نوے فیصد آبادی کو گمراہی سے بھی محفوظ رکھے گی۔ کیونکہ جس طرح نوے فیصد آبادی کو پانچ فیصد آبادی مسلکی اختلافات اور نظریاتی تنازعات کو بہانہ بنا کر مشتعل کرتی ہے اور کفر کے فتوی دیے جاتے ہیں یہ سلسلہ بند ہوگا اور ایک خوشگوار ماحول وجود میں آئے گا۔

چوتھا اور اہم فائدہ یہ ہے کہ اگر مدارس کا نصاب عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے تو مدارس میں تعلیم کا تناسب اسکولوں اور کالجوں کے بالمقابل زیادہ ہوگا۔ آج مسلمانوں کی بڑی آبادی اقتصادی مشکلات کی بنیاد پر تعلیم سے عاری رہ جاتی ہے مگر مدارس میں قوم کے تعاون سے ملنے والی فری آف کوسٹ تعلیم کم از کم انہیں جاہل رہنے نہیں دے گی۔ اس طرح سماجی شرمندگی اور غیر برابری کے احساس سے بھی نجات ملے گی۔ اس لئےضروری ہے کہ آبادی کا وہ حصہ جو اسکولوں اور کالجوں کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا مگر علم سے شغف رکھتاہے تعلیم حاصل کرسکے اور سماج کی بہتر تعمیر میں معاون ثابت ہو۔ ابتدا میں یہ ممکن نہیں ہوگاکہ قوم کی 95 فیصد آبادی کو مدارس میں تعلیم دی جائے مگر اس حقیقت کو بھی ماننا ہوگاکہ کبھی بھی قوم کی سو فیصد آبادی مدارس کا رخ نہیں کرے گی۔ اس لئے مدارس کی توجہ غرباء اور مساکین پر زیادہ ہوگی۔ قوم کا مخیر طبقہ جو ہمیشہ تعاون کرتا رہا ہے وہ اپنے مزید تعاون سے تعلیمی مسائل اور دیگر مشکلات کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ آج بھی قوم ہر ممکن تعاون کے لئے آمادہ ہے مگر اعتماد کی بحالی ضروری ہے۔

ایک اہم مسئلہ طلباء کی اردو تعلیم کا بھی ہے۔ مدرسوں میں اردو کی مستقل تعلیم دی جائے تاکہ وہ عربی اور فارسی زدہ زبان کا استعمال کم کریں۔ کیونکہ مدارس میں تعلیم کا میڈیم اردو زبان ہی ہوتی ہے خواہ نصاب کی کتابیں کسی بھی زبان میں ہوں اس لئے ان کی زبان پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج بھی ہمارے علماء اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے کہ انہیں اردو نہیں آتی بلکہ وہ اپنی زبان کو دوسروں کے لئے بھی حجت سمجھتے ہیں۔ اس احساس برتری کے عذاب سے چھٹکارہ پانا ہوگا تاکہ متوازن سماج کی تشکیل ہو۔

مدارس کی تنزلی اور تباہی کے پیچھے سرکار سے اشتراک بھی ہے۔ مدرسوں کےسرکاری مدرسین اور ذمہ داران مدرسہ میں صرف تنخواہ کے لئے کام کرتے ہیں۔ ان میں خلوص، محنت اور ایثار کا جذبہ معدوم ہو چکا ہے۔ نہ کسی کا خوف ہوتا ہے اور نہ طلباء کے مستقبل کی فکر ہوتی ہے۔ سرکار سے تو ہمیں یوں بھی امید نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ اگر سرکار ہماری تعلیمی و اقتصادی پسماندگی پر فکر مند ہوتی تو مدارس سے دور 95 فیصد آبادی کےحالات سچر کمیٹی کی رپورٹ میں حوصلہ افزا ہوتے اورآج ہم بھی دوسروں کے شانہ بہ شانہ ہوتے مگر ہر سرکار مسلمانوں کو مزید پسماندہ بنانے کے ایجنڈہ کے ساتھ اقتدار میں آتی ہے اس لئے اپنی تنزلی کے اسباب اور ترقی کے منصوبوں پر خود غورکرنا ہوگا۔ اگر ہمارے مدارس اسی طرح سرکاری تعاون پر تکیہ کیے رہے تو انہیں اسی طرح آمرانہ فرمان ملتے رہیں گے۔ کبھی سردار پٹیل کی جینتی منانے کا حکم آئے گا تو کبھی مدارس کی ویڈیوگرافی کے لئے کہا جائے گا۔ وہ دن دور نہیں جب مدارس میں قرآن اور تفسیر کے ساتھ اپنشدوں اور پرانوں کی تعلیم کا حکم بھی دے دیا جائے۔ اس لئے ذمہ داران مدارس کو بیدار ہونا ہوگا اور قومی مفاد میں کوششیں کرنا ہوں گی۔ فقط اپنے اہل و عیال کی اقتصادیات کو بہتر بنانے پر ہی سارا زور صرف نہ کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).