ماسکو میں ”یوم اقبال“ کی تقریب


نو نومبر کی سہ پہر مجھے کشمیر سنگھ کا فون آیا کہ انسٹی ٹیوٹ برائے ایشیا اور افریقہ میں، یوم اقبال منایا جارہا ہے۔ اس کا مہتمم کون ہے؟ مجھے معلوم نہیں تھا مگر میں نے کہا کہ میں معلوم کرکے بتاتا ہوں۔ تاہم اندازے سے بتا دیا کہ کون ہو سکتا ہے۔ پاکستانی برادری کو دو حصوں میں بانٹ دینے والے اپنے ایک دوست کو فون کیا جس نے حسبِ عادت ”یار میں بھول گیا تھا بتانا“ کہا۔ خیر! کوئی ایسی بات نہیں، اس کے اور میرے لیے ایسا کہنا معمول کی بات ہے، مگر علمی ادبی اکٹھ میں تو بنا بلائے بھی جانا معیوب نہیں، چناں چہ میں جا پہنچا۔

انسٹی ٹیوٹ کے جس کلاس روم میں یہ تقریب ہونا تھی، اس میں داخل ہوتے ہی کشمیر سنگھ نے عادت کے مطابق، مجھے کچھ سنا کے پذیرائی کی جو میرے ایک اور دوست ظہیراللہ خان کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔
”ایک تو بلاتے ہو، اوپر سے سناتے ہو، واپس چلا جاوں؟“

وہ مسکرادیا۔ مجھے دیکھ کر ”پاکستانسکی زملیاچیستوا“ کے نام سے رجسٹرڈ تنظیم کا کوآرڈینیٹر اعجاز احمد ہنستا ہوا آگے بڑھا، ”ڈاکٹر صاحب! آئیے آئیے، واپس کیوں جائیں گے“۔
میں نے سچ اگل کے بھڑاس نکالی، کہ ”مجھے کسی پاکستانی نے اس تقریب میں مدعو نہیں کیا، بلکہ میرے دوست اور ساٹھ سالہ تنظیم ‘ہندوستانی سماج’ کے صدر ڈاکٹر کشمیر سنگھ نے مدعو کیا ہے“۔ یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا۔

روایت کے مطابق پہلی قطار کو ”سرکار عالیہ“ کے اہل کاروں کے لیے چھوڑ کر، دوسری قطار میں بیٹھ گئے۔ میری ایک جانب کشمیر سنگھ اور دوسری جانب نور حبیب تھا۔ اعجاز نے مجھے تقریر کرنے کو کہا۔ سوچا میں اقبال پر کیا بولوں گا، بہرحال ہامی بھرلی۔ کلاس روم کو طلبا نے بھر دیا تھا۔ ماسکو میں مقیم پاکستانی زیادہ نہیں تھے، مگر تھے ضرور۔

پہلے انسٹی ٹیوٹ میں ہندی کی پروفیسر لدمیلا وکتروونا خخلووا پہنچیں، تو ان سے دعا سلام ہوئی۔ پھر میری عزیز ہستی ایرینا میکسی مینکا بھی پہنچ گئیں۔ تقریب شروع کیے جانے کا وقت ساڑھے چھہ بجے طے تھا، مگر جیسے عرب امارات میں جب تک شیخ نہ پہنچ جائے، جمعے کا خطبہ نہیں دیا جا سکتا، یہاں بھی معاملہ کچھ ایسے ہی تھا۔ تاہم روس میں پاکستانی سفارت خانے کے قونصلر بلال وحید اور عسکری اتاشی بریگیڈیر عفان کے پہنچنے کے بعد تقریب کا آغاز حسب معمول تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ شاہد محمود نے لحن داؤدی میں سورت الفیل پڑھی۔ ہم نے جزاک اللہ کہا۔ تنظیم مذکور کے صدر خلیل الرحمان نے تقریب میں شرکت کرنے والوں کا شکریہ روسی زبان میں ادا کیا۔ پھر انسٹیٹیوٹ کے مہتمم پروفیسر میخائیل صاحب نے اعتراف کرتے ہوئے، کہ انھیں اقبال سے متعلق زیادہ معلوم نہیں ہے مگر وہ ان کی تصویر سے زمانہ طالب علمی ہی سے شناسا ہیں۔ اقبال کی تعریف میں کلمات ادا کیے۔

اس کے بعد اردو پڑھنے والے سال سوم کے طلبا و طالبات نے اپنے مخصوص لہجے میں اقبال کی ایک نظم سنائی۔ ڈاکٹر لدمیلا خخلووا کو اسٹیج پر بلایا گیا۔ انھوں نے بھی مختصر خطاب کیا۔ پھر ڈاکٹر ابرار آئے، جو پیشے سے سرجن ہیں اور اس تنظیم میں مدارالمہام بھی۔ انھوں نے اپنی مسجع روسی میں اقبال کے بارے میں اچھی باتیں کیں اور اچھے اشعار پڑھے۔ روس میں افغان برادری کے صدر فاروق فردا نے فارسی اور پشتو میں علامہ اقبال سے متعلق بہت اچھے الفاظ ادا کیے۔ ڈاکٹر زاہد علی خان نے اقبال کی زندگی سے متعلق اور ان کے فلسفہ محبت سے متعلق اپنی تقریر پڑھ کر سنائی۔ اعجاز احمد نے اقبال کی کوئی غزل جس کے آخر میں ”اے ساقی اے ساقی“ آتا تھا، گاکر سنائی مگر مجھے یہ غزل اقبال سے زیادہ عبدالحمید عدم کی لگی۔ کیا کیا جائے، جو طغرے دیوار پر لگے ہوئے تھے، ان میں اقبال کی ایک بڑی تصویر کے نیچے ایک شعر لکھا تھا، جو کسی بھی طرح اقبال کا نہیں ہو سکتا، کیوں کہ اس میں نہ وزن تھا اور نہ فکر۔ دوسرا مصرع تھا ”ہر میکدے میں شرابی اور ہر مسجد میں نمازی نہیں ہوتا“۔

اقبال کو لوگوں نے اپنا شاعر مان کر ان کے نام سے منسوب اپنے ایسے اشعار بھی ان کے کھاتے میں ڈال دیے ہیں، جو ٹرکوں کے پیچھے لکھے ہوتے ہیں۔

اب میری باری تھی۔ میں نے بتایا اگر ہمیں اسکول میں علامہ صاحب کی دعا ”لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا“ ترنم کے ساتھ پڑھنا ہوتی تھی، تو ہندوستان میں اقبال کی نظم ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“ ٹیگور کی نظم ”وندے ماترم“ کے بعد گائی جانے والی دوسری بڑی نظم ہے۔ میں نے کہا کہ اقبال پر نطشے کا فلسفہ چرانے کا الزام ہے، کیوں کہ انھوں نے نطشے کے ”سپرمین“ کو ”مرد مومن“ بنا کر پیش کر دیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ ان کی شاعری میں تضمین یا ترجمہ بھی ہے جیسے کہ:

میں جو سربسجدہ کبھی ہوا تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
غالباً حافظ شیرازی کے شعر:
زا زمیں چوں سجدہ کردم، بہ زمیں ندا برآمد
چہ مرا خراب کردہ، ترا سجدہ ریائی
کی اردو شکل ہے۔ مگر ایک ہی طرح کی سوچ بھی تو ہوسکتی ہے۔ توارد بھی ہو سکتا ہے۔

میں نے کہا کہ مجھے کبھی گمان ہوتا ہے کہ جوہری توانائی سے متعلق آئن اسٹائن کے معروف فارمولے کا خواب بھی، شاید علامہ اقبال ہی نے دیکھا تھا۔ کیوں کہ ان کا ایک مصرع یوں ہے:
لہو خورشید کا نکلے اگر ذرے کا دل چیریں

ایٹم بم کہیں 1944ء میں تیار ہوا تھا، جب کہ علامہ اقبال کی رحلت 1938ء میں ہو چکی تھی۔ ممکن ہے انھوں نے جوہری فارمولے کو منظوم انداز میں پیش کیا ہو، جو آئن اسٹائن پہلے پیش کر چکے تھے۔ جیسے آئن اسٹائن نے جوہری فارمولا، جوہری بم کی بجائے جوہری توانائی کے لیے وضع کیا تھا، مگر اس کی بنیاد پر ایٹم بم پہلے بنا لیا گیا اور ہزاروں لوگوں کو مارنے کی خاطر استعمال بھی کر لیا گیا۔ اسی طرح علامہ اقبال کی شاعری کو بھی طرح طرح کے لوگ اپنے اپنے مقصد کے لیے لے اڑے ہیں، اگرچہ وہ محبت ہی کی بات کرتے رہے۔

میرے بعد ایک بار پھر طلبا و طالبات نے علامہ کے اشعار پڑھے۔ پھر کشمیر سنگھ کو بات کرنے کے لیے بلایا گیا، انھوں نے کہا کہ اقبال برصغیر کے شاعر تھے، اس لیے آیندہ برس یہ تقریب ماسکو میں مقیم ہندوستان اور پاکستان کے لوگ مل کر سجائیں گے۔

سٹیج سیکرٹری عبدالخالق نے، نظامت تو اچھی طرح سے کی، مگر نمعلوم آخر میں کوئی مزاحیہ نظم گا کر کیوں سنائی جس کا ”یوم اقبال“ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جس تنظیم نے اس تقریب کا اہتمام کیا اس کے رہنما نورحبیب شاہ نے اس ‘حرکت’ پر کہا، ”یہ کوئی عید کی خوشی منانے کی تقریب تو نہیں ہے“۔

تاہم تقریب اچھی رہی۔ ہال بھرا ہوا تھا اگرچہ طلبا زیادہ تھے، جس سے علامہ اقبال میں ان کی دل چسپی کا اظہار ہوتا تھا۔ آخر میں اکل و شرب کے بعد میں اور ایرینا صاحبہ ماسکو کی کھلی فضا میں نکل گئے، تاکہ اپنے اپنے گھونسلوں میں لوٹا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).