چولی کے پیچھے اصل میں ہے کیا؟


کس کے باندھے بال، سر پر اونچا سا جوڑا، کُھلے گلے کی چست نیلی قمیص اور ٹخنوں سے اونچا پتلی موری کا دھاری دار پاجامہ، دوپٹے کے نام پر گلے میں جھولتی پتلی سی پٹی، گلابی غازے سے دہکتے رخسار، ہونٹوں پر چنگھاڑتی سرخی، کندھوں کو اچکاتی تو کبھی کلائیوں کو گھما کر اعضاء کی شاعری پیش کر رہی ہے ۔ جسے دیکھنے کے لیے پنڈال ہر عمر کے مردوں سے اٹا پڑا ہے۔ واہیات جملے کسے جا رہے ہیں، اس کی ہر ادا پر داد و تحسین کے ڈونگرے برس رہے ہیں۔ مقبول بھارتی فلمی گانے”چولی کے پیچھے کیا ہے” کے شور پر تالیاں پیٹی جا رہی ہیں۔

گانے کے ایک ایک بول پر لہرانے والی کہیں سے بھی بالی عمریا کی نہیں لگ رہی! چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے عاری ہے، مسکراہٹ پھیکی اور بے جان ہے۔ آنکھوں میں مہیب سناٹے کا ڈیرہ ہے، سامنے بیٹھے قصائیوں کے لیے وہ چلتی پھرتی گوشت کی دکان ہے۔ ہر مردانہ آنکھ اس کے لباس کے اندر کہیں رینگ رہی ہے۔ ہر مردانہ موبائل اس کے بے باک رقص کا ایک ایک انداز فلم بند کرنے میں مگن ہے۔ جیبیں خالی ہونے کو بے قرار ہیں، نوٹوں کی بارش نے اس کو اندر سے سرشار کر دیا ہے، اب تھرکتے قدموں میں مزید اعتماد در آیا ہے، وہ پہلے سے زیادہ اٹھلانے اور ادائیں دکھلانے کو بے تاب ہے۔

 دس سے بارہ منٹ کی اس ویڈیو کو ایک سوشل میڈیا سائٹ پر دیکھنے کا کل ہی اتفاق ہوا۔ تبصرے میں اس عورت کے لیے تذلیل آمیز جملے پڑھ کر طبیعت اور مکدر ہوگئی۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ کوئی چیز دیکھنے یا پڑھنے سے پیدا ہونے والی انجانی سی بے چینی پر آپ خود کو کوستے رہ جاتے ہیں کہ کاش یہ دیکھے اور پڑھے بغیر ہی گزر گئے ہوتے۔ نوٹوں کے حصول کے لیے ٹھمکتی عورت کو گالیاں دینا تو سب سے آسان ہے، لیکن اگر اس کے رقص پر نوٹوں کی گڈیاں لٹانے والوں سے میں یہ کہوں کہ اس عورت کو یہی رقم عزت سے چار دیواری میں بٹھا کر دے دو، تو مجھے یقین ہے پنڈال پلک جھپکتے میں خالی ہوجائے گا۔ اور وہ بے چاری الگ کھڑی ملامت بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی ہو گی کہ عورت ہو کر عورت سے ہی دشمنی کر بیٹھی، معاشرے کو سدھارنے کے چکر میں اس کی آمدنی ہی بند کروا دی۔

معاشرے کے دیگر لوگوں کے برعکس مجھے، جسم فروش عورتوں، طوائفوں اور رقاصاﺅں سے ایک خاص ہم دردی ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ بھلا کیوں ان پر ٹوٹ کر رحم اور ترس نہ آئے؟ ان سے زیادہ سخت محنت کر کے روٹی بھلا کون کماتا ہو گا؟ مردوں کے بازار میں روز خود کو بیچ کر بچوں کا پیٹ کون بھرتا ہوگا؟، کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے یا مفت کی روٹیاں توڑنے کے بجائے اپنے دام لگوانے کو ترجیح دینا تو ان کی انا اور خودداری کا بین ثبوت ہے۔

یہ اپنے پیشے سے بہت مخلص ہیں، کمانے کی دُھن میں کارکردگی گھٹنے نہیں دیتیں، جوش ماند نہیں پڑتا، ناچ ناچ کر پیروں پر آنے والا ورم اور دکھن ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا، گاہکوں کو کبھی ناراض نہیں کرتیں، اپنے کام میں ڈنڈی نہیں مارتیں، جذبات نیلام کرکے بچوں کی ضرورتیں خریدتی ہیں، مگر! تف کہ اتنی سخت مزدوری کے بعد بھی ان کے لیے دلوں میں ہم دردی ندارد! ان پر اٹھنے والی آنکھ حقارت کی آنکھ، ان کے لیے کھلنے والی زبان گالیوں کی زبان ہوتی ہے۔ انہیں نیچ اور گھٹیا کہنے والے ان کا آرٹسٹک معیار اس وقت بھی نہیں دیکھ پاتے، جب یہ ان نوٹوں کو پیروں کے نیچے رول رہی ہوتی ہیں، جنہیں مرد سینے سے لگا کر رکھتے ہیں، جن کے حصول کے لیے ہر گھر میں جھگڑے اور روز کی سر پھٹول ہوتی ہیں۔

چولی کے اندر جھانکنے اور جھانکنے کی خواہش رکھنے والوں کو یہ سفاک حقیقت کیوں نہیں پتا کہ اس چولی کے پیچھے اصل میں تو وہ دل ہے، جس کی ڈور سے ان بے چاریوں کے بھی کچھ رشتے بندھے ہوتے ہیں۔ کچھ ضرورتیں ہیں ان کے ساتھ بھی چولی دامن کی طرح جڑی ہیں۔ ان کی چولی جس دن سلامت رہ جاتی ہے بس اسی دن ان کے گھر کا چولہا نہیں جلتا، اس چولی کے اندر تھرکتے جسم میں مردوں کی شہوت کا سامان نہیں بلکہ زندگی کی ضرورتیں اچھلتی ہیں۔

سینے میں تو ان کے بھی وہی دل ہے جو معزز معاشرے کی عام عورتوں کے سینے میں دھڑکتا ہے، خواہشیں ان کے اندر بھی پاﺅں پسارے پڑی ہیں کہ کوئی آکر ان کی ذمہ داری اٹھا لے۔ یہ تو روز بک کر بھی انمول ہیں۔ خود جل کر اپنے آنگن میں روشنی کرتی ہیں۔ چہرے پر وقت کے گہرے سائے ہوں یا ذہن میں بچوں کے آنے والے کل کی فکریں، پھر بھی ہونٹوں سے مسکراہٹ رخصت نہیں ہونے دیتیں۔ ایک محنت کش کی طرح ہی کڑھتی ہیں، گالیاں سنتی ہیں، حتی کہ کام کے دوران تھک کر اپنی مرضی سے سستانے کا رسک بھی نہیں لیتیں۔ ان کو ذہنی اور جنسی بیمار کہنے والے نہیں جانتے کہ یہ بیمار نہیں بلکہ بیمار معاشرے کی نباض ہیں۔

اب معاشرے کی ان نباض اور انتہائی پیشہ وارانہ اصولوں کی علم بردار عورتوں کو، آپ غلام عباس کے آنندی کے بازارحُسن کی طرح شہر سے بارہ کوس دور دھکیل دیں یا منٹو کی طوائف قرار دے کر مقدموں میں پھانس دیں، کیا اس طرح، آپ خود کو پارسا ثابت کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں! معاشرے کا بنیادی مسئلہ وہ اخلاقی گراوٹ نہیں جس کا ذمہ دار ان عورتوں کو قرار دیا جاتا ہے بلکہ وہ دوہرا معیار ہے جس کی وجہ سے ان عورتوں کو جنم دینے والی مٹی مزید زرخیز ہورہی ہے۔

اگر آپ میری بات سے اختلاف کرتے ہوئے انہیں اب بھی انسانیت، شرافت اور تہذیب کے دامن کا بد نما داغ قرار دینے پر ہی مصر ہیں تو آئیے مل کر اس داغ کو دھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی ایک راستہ اختیار کرتے ہیں، یا تو معاشرے کے محنت کش اور معزز مرد نکاح کر کے ان کے کفیل بن جائیں ورنہ گالیاں دینے کے بجائے ان کی محنت کی عظمت کے قائل ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).