مجاہدِ ملت رجب طیب ایردوان اور نریندر مودی


آج صبح صبح ہی ایک ایسی تصویر نظر سے گزری جس سے آنکھیں روشن اور دل مطمئن ہو گیا۔ ہم نہایت ہی پریشان ہوتے تھے کہ امت پر ایسی ابتلا پڑی ہے اور دور دور تک روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ لیکن جب سے سیدی رجب طیب ایردوان نے زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی ہے تو بات ہی کچھ اور ہے۔

غزہ کے محاصرے کے خلاف ترک امدادی جہاز بھجوانا ہو، یا پھر ان جہازوں پر موجود امدادی کارکنوں کو اسرائیلی قید سے رہا کروانا اور کوئی لچک دکھائے بغیر اسرائیل سے ناک رگڑوا کر اس جہاز کے مقتول مسافرین کا خون بہا لینا، روہنگیا کے دس لاکھ محصور مسلمانوں کی امداد کے لئے ایک بحری جہاز بھیجنا، یا شام کے غاصب ڈکٹیٹر بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی سینہ ٹھونک کر مدد کرنا، ہر جگہ ہمیں سیدی رجب طیب ایردوان ہی کا نام دکھائی دیتا ہے۔

دنیا بھر میں درجنوں مسلم ممالک ہیں، ان کے درجنوں حکمران ہیں، مگر دنیا میں کہیں بھی امت پر وقتِ ابتلا پڑے تو بس ایک ہی نام ذہن میں آتا ہے۔ کیا آپ نے سنا ہے کہ اسرائیل کو آنکھیں دکھانے یا برما کو اس کی مذموم حرکتوں کے عواقب سے خبردار کرنے پاکستان، ایران، سعودی عرب، موریطانیہ، یوگنڈا، لیبیا، تنزانیہ، آذر بائیجان یا تاجکستان وغیرہ کے حکمران کا نام کبھی خبروں میں آیا ہو؟ بلکہ یہ تو ایسے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں کہ ہمیں ان ممالک کے حکمرانوں کے نام تک نہیں پتہ۔

لے دے کر بس سیدی رجب طیب ایردوان ہی ہیں جو امت مسلمہ کی راہنمائی کا فریضہ ادا کرنے کے اہل ہیں۔ پاکستان سے ترکی کی محبت کسی شک و شبے سے بالاتر ہے مگر ہمارے ازلی دشمن ہندوستان اور ترکی کے درمیان اتنا زیادہ فاصلہ ہے کہ کسی جنگ میں ہمیں ترکی سے فوجی مدد ملنے کی امید کبھی نہیں ہوئی۔

ایسے میں جب معتبر خبر رساں اداروں کی جاری کردہ ایک تصویر دکھائی دیتی ہے، کہ سیدی رجب طیب ایردوان اپنی میز پر بیٹھے نہایت انہماک سے کام میں مصروف ہیں، اور ہمارے ازلی دشمن بھارت کا پردھان منتری ان کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑا ان کے اشارہ ابرو کا منتظر ہے، تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اگر حکمران غیرت مند ہوں تو ان کی ایسے ہی عزت کی جاتی ہے۔ جبکہ ہمارا یہ حال ہے کہ امت مسلمہ کی واحد ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی ہمارے حکمرانوں کی بھارتی حکمران عزت نہیں کرتے۔

بھارتی پردھان منتری واجپائی لاہور آئیں تو گلے ملتے ہوئے ہمارے وزیراعظم نواز شریف کو سنا جاتے ہیں کہ آپ نے ہماری پشت میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ ہمارے چیف ایگزیکٹو آگرہ جائیں تو خود چل کر پردھان منتری واجپائی کی نشست تک جاتے ہیں اور خود ہاتھ آگے بڑھا کر سلام کرتے ہیں جس کا واجپائی بیٹھے بیٹھے ٹنڈا سا ہاتھ بڑھا کر جواب دیتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے ایٹمی حکمرانوں کا وہ رعب اور دبدبہ نہیں ہے جو ایٹمی طاقت نہ ہونے کے باوجود سیدی رجب طیب ایردوان کا ہے؟ امت کے دو ہی ایسے حکمران گزرے ہیں جنہوں نے بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے۔ ایک شہید جنرل ضیا الحق، اور دوسرے سیاست و سیادت میں بالکل ان کی مثل سیدی رجب طیب ایردوان۔

ان دونوں کے اس دبدبے کی وجہ ایک ہی ہے۔ وہ ہے امت کے درد سے دھڑکتا دل، بے مثال جرات اور اپنی حکومت کے لئے ڈٹ جانے کا جذبہ۔ مجاہدِ ملت سیدی رجب طیب ایردوان کی یہی بہادری تو تھی جس نے ان کے خلاف بغاوت کو ناکام بنا دیا اور ترک عوام ان ڈیڑھ ہزار باغی فوجیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے جنہوں نے مجاہدِ ملت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔ یہی بے مثال عوامی حمایت تو ہے جو مغرب کے بے پناہ دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے ایک لاکھ سے زیادہ شرپسند اساتذہ، ججوں اور فوجیوں کو ملازمت سے نکالنے اور سینکڑوں صحافیوں کو جیل میں بند کر دینے اور مخالف پریس بند کرنے کا دلیرانہ قدم بھی مجاہد ملت اٹھا چکے ہیں حالانکہ وہ اس وقت شام اور عراق میں اپنے ان احسان فراموش سابقہ اتحادیوں سے جنگ لڑ رہے ہیں جو کل تک ان سے امداد لے کر غاصب بشار الاسد کے خلاف لڑتے تھے۔

اگر ایران کے حکمران کچھ عقل سے کام لیں، اور سیدی رجب طیب ایردوان کی سیادت کو تسلیم کرتے ہوئے دوبارہ آر سی ڈی کو زندہ کر دیں، تو ترکی اور پاکستان دوبارہ زمینی راستے سے یک مٹھ ہو جائیں گے اور بھارت ہمارے خوف سے ایک مرتبہ پھر ویسے ہی لرزنے لگے گا جیسے 1965 میں لرز رہا تھا۔ حالانکہ اس وقت بھی ایران درمیان میں رکاوٹ بنا ہوا ہے مگر مجاہد ملت کا رعب ایسا ہے کہ ان کے خوف سے ترک اساتذہ پاکستان چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ امت مسلمہ کو سیدی رجب طیب ایردوان کی بابرکت ذات کی موجودگی کا فائدہ اٹھانا چاہیے اور چاہے وہ اپنی فطری عاجزی و انکساری کے سبب لاکھ انکار کریں، ان کو امت مسلمہ کا خلیفہ مقرر کر دینا چاہیے۔ (ختم شد)

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar