ربیع الاول کی آمد ہمیں کیا کرنا چاہیے؟


امت مسلمہ کا صفر کا مہینا اپنی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ یہ مہینا اولیاء اللہ کی اکثریت میں اتفاقاً وفات کا مہینا ہے۔ اس تناسب سے اولیا کے معتقدین، متوسلین اور مریدین بڑے تزک و احتشام کے عرس کا انعقاد کرتے ہیں۔ اس کے بعد ربیع الاول کا مہینا آنے والا ہے، یہ مہینا بڑی شان والا ہے، یہ مہینا انسانیت کے لیے حقیقت میں بہار ہے۔ حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی اس دنیا پر آمد انسانیت کے لیے زندگی کا پیغام لےکر آئی۔ عرب کے جاہل قبائل جو صدیوں تک آپس میں الجھے رہتے تھے، باہم شیر وشکر ہو گئے اور وہی عرب اسلام کا علم لے کر رہتی دنیا سے کفروشرک کے اندھیرے مٹانے کے لیے نکلے۔ اور بہت قلیل عرصے میں اسلام کا پیغام امن و آشتی شرق تا غرب پھیل گیا۔

صدیاں گزرنے کے بعد آہستہ آہستہ فکری تبدیلیاں واقع ہونے لگیں، اپنوں اور غیروں کی سازشوں کی وجہ سے دین اسلام میں کچھ چیزیں فکری لحاظ سے متنازع بنتی گئیں۔ اس وجہ سے افراد گروہ در گروہ تقسیم ہو گئے اور اپنے مکاتب فکر لے کر مختلف مسالک میں بٹ گئے۔ ہر فرقہ اپنے آپ عین اسلام کی فکر قرار دیتا ہے اور دیگر مسالک کو گم راہ گردانتا ہے اور بعض تو شدت کی حدود کو پار کرکے کفر و ارتداد کے فتاوے بھی دینے میں قطعی عار محسوس نہیں کرتے اور لاؤڈ اسپیکر پر مخالف مسلک کو کافر قرار دیتے ہیں۔

نزاعی موضوعات میں ایک موضوع ماہ ربیع الاول میں جشن عید میلادالنبی منانا ہے۔ سنی مسلک جس کو برصغیر میں بریلوی مسلک کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے، اس موقع پر خوب خوشیاں مناتا ہے، جلوس منعقد کیے جاتے ہیں محافل اور کانفرسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ اس موقع پر مسالک مخالف ان اقدامات کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر خوب بحث ہوتی ہے خوب گرمی سردی ہوتی ہے، اسپیکرز پر بھی مخالفین ایک دوسرے پر خوب تیر اندازی کرتے ہیں اور ربیع الاول کے خاتمے کے ساتھ لڑائی بھی ختم ہو جاتی ہے اور باقی سال کے مہینے پیار اور برداشت اور رواداری سے گزرتے ہیں۔

قارئین کرام، کیا ربیع الاول کی اتنی سی اہمیت رہ گئی ہے کہ ملت کے کچھ افراد کچھ دن جشن منا کر، کھا پی کر باقی سال آرام سے سو جائیں اور دیگر مسالک صرف اس کام کو بدعت گردان کر دفاعی پوزیشن میں یہ مہینا گزار کر اپنے آپ کو مجاہدین اسلام سمجھ کر سارا سال چپ رہیں؟

نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا امت مسلمہ نے اس نادر موقع سے بہت کچھ فیض لینا ہے، امت کے لیے یہ موقع اس بھلائے ہوئے سبق کی یاد دہانی ہے جس کو مسلمان بھلا کر آج دنیا میں ذلیل و خوار ہے۔ ربیع الاول کا مہینا پوری امت کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا مہینا ہے، حالاں کہ سارے مہینے ہمارے آقا علیہ السلام کے ہیں مگر یہ مہینا آپ علیہ السلام کی ولادت کے ساتھ مخصوص ہے اس لیے امت کو چاہیے وہ اس نادر موقع کو اپنے لڑائی جھگڑوں میں ضائع نہ کرے، بلکہ امن اور محبت کے ساتھ اس مہینے کو منائے۔

اس مہینے کی مناسبت سے تمام امت کو چاہیے کہ وہ اپنے آقا علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کرے، اس سلسلے میں مساجد، مدارس، سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں سیرت پاک کے لیے روزانہ کی بنیاد پر سلسلہ دروس منعقد کیے جائیں۔ آج امت کو ہٹلر، سٹالن، مارکس اور لینن کی بائیوگرافی تو حرف بہ حرف یاد ہے مگر اپنے محبوب آقا علیہ السلام کی زندگی کے متعلق کچھ علم نہیں۔ وہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم جن کی ذات پوری انسانیت کے لیے کامل نمونہ ہے آج امت نے ان کی زندگی کو بھلا دیا ہے اور اپنے مسائل کا حل ناقص العقل دانشوروں کے ہاتھوں تلاش کرتی ہے۔

ربیع الاول کے مہینے میں ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ سیرت رسول صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے حوالے سے کوئی کتاب لازمی ختم کرے چاہے، وہ مختصر ہو یا مفصل۔ آج انٹرنیٹ کے دور میں کتب تک رسائی انتہائی آسان ہو گئی ہے۔ اب سارا علم انگوٹھے کے نیچے آگیا ہے۔ ہر پڑھے لکھے شخص کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر فضول بحث میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کے بجائے سیرت رسول صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کا خود بھی مطالعہ کرے اور دیگر دوستوں کو بھی یہ پیغام پہنچائے۔ اللہ تعالی ہمیں سیرت رسول صلی اللہ علیہ السلام سلم کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).