کیا آپ میری طرف بڑھتے دستِ قضا کو روک سکتے ہیں؟


ایک زوردار ضرب نے میرے پورے وجود کو ہلا ڈالا۔

ضرب کی شدت اتنی تھی کہ مجھے اپنا پورا وجود شل ہوتا محسوس ہوا۔ تکلیف کے ساتھ ساتھ مجھےحیرت بھی محسوس ہو رہی تھی اور اپنے وجود کے اندر گرتے آنسوووں کا نمکین ذائقہ بھی میرے اندر گھلتا جا رہا تھا۔ مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا، میں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا کہ مجھ پر اچانک ایسا جان لیوا حملہ کر دیا گیا۔ ہر چند کہ ابھی میں اپنے قدموں پر کھڑا ہوا تھا مگر مجھے اس بات کا ادراک ہو چکا تھا کہ مجھ پر حملہ کرنے والے آج مجھے ختم کرنے کا آہنی عزم لے کر آئے ہیں اور جلد یا بدیر میرا وجود صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ یہ سوچتے ہوئے میرے اندر کپکپی دوڑ گئی اور میرا جی چاہا کہ میں زور زور سے چلاووں۔ خود پر حملہ آور ہونے والے لوگوں کا مقابلہ کروں اور انہیں مار بھگاوں۔ مگر میری آواز میرے اندر ہی کہیں گھٹ کر رہ گئی تھی۔ میں لاکھ چاہنے کے باوجود اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر پا رہا تھا۔ کاش میں بھاگ پاتا تو اپنے قاتلوں کی پہنچ سے کہیں دور بھاگ جاتا۔

خوش گمانی مہلک ہوتی ہے؛ اس کا اندازہ مجھے آج ہو رہا تھا۔ آج، ابھی اور اسی وقت؛ جب قضا اپنے پر پھیلائے میرے ارد گرد منڈلا رہی تھی۔ میں خود کو ایک بہت مفید وجود سمجھتا رہا ہوں۔ اور یہ صرف میرا ہی نہیں میرے ارد گرد بسنے والے لوگوں کا بھی کہنا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ میں نے کبھی خود کو درپیش خطرات کا ادراک ہی نہیں کیا۔ ہمیشہ یہی سمجھتا رہا کہ جب میں کسی کا برا نہیں چاہتا تو کوئی میرا برا کیوں چاہے گا۔ ہو سکتا ہے آپ اس کو محض لفاظی سمجھیں اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اپنے انجام سے قبل اپنے حالاتِ زندگی مختصراً بیان کر دوں، تاکہ آپ بھی میرے اس دعوے کے قائل ہو جائیں کہ میں واقعی ایک مفید وجود ہوں۔ اور تب شاید آپ میری مدد کر سکیں۔ اور اگر مدد نہ بھی کر سکیں تو کم از کم میرا درد اپنے دل میں محسوس کر سکیں۔ اور اگر آپ کو میرے قتل کی خبر ملے تو شاید آپ اس کی مذمت کر دیں۔ ہوسکتا ہے آپ کے کسی رد عمل کے نتیجے میں میرا یا میرے جیسے اور بہت سوں کا بھلا ہو جائے۔

میں نے اسلام آباد کے اس سیکٹر میں آنکھ کھولی جو اس شہر اقتدار کے مقتدر ایوانوں کے عین بالمقابل واقع ہے۔ بدقسمتی سے میں اپنے ماں باپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، اور نا ہی مجھے ان کے بارے میں کبھی کچھ بتایا گیا۔ میرا بچپن سڑک کے کنارے جھومتے، لہکتے اور مہکتے ہوئے گزرا۔ آپ حیران ہو گئے ہوں گے کہ ایسا بچہ جس کے ماں باپ نہ ہوں اس کا بچپن ایسے بےفکری سے کیسے گزر سکتا ہے۔ آپ درست سوچ رہے ہیں لیکن میرے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ میں جب خود کو بھی نہیں جانتا تھا اس وقت وہاں کے رہنے والے مہربان لوگوں نے میرا خیال رکھنا شروع کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بڑی بڑی کوٹھیوں اور گاڑیوں والے لوگوں کے دل تنگ نہیں ہوئے تھے بلکہ اپنی کوٹھیوں اور گاڑیوں کی طرح نہایت کشادہ تھے۔

وہ مہربان لوگ میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ آتے جاتے میرا حال احوال ملاحظہ کرتے۔ میری نشوونما اور صحت کا بھی دھیان رکھتے۔ ان کے بچے میرے پاس آتے۔ مجھے محبت سے چھوتے اور میرے نرم وجود کو اپنے پیارے پیارے ہاتھوں سے سہلاتے تھے۔ حالاں کہ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا مگر ان بچوں کی محبت میرے اندر سرشاری کی لہر دوڑا دیتی تھی۔ ابھی اسلام آباد کے لوگوں کے رویوں میں سرد مہری بلکہ سرد مہری کے بجائے سفاکی کہنا مناسب ہو گا، سرایت نہیں کی تھی۔

وقت گزرتا گیا اور میں پھلتا پھولتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ لڑکپن کی سرحدوں سے نکل کر نوجوانی اور پھر جوانی میں داخل ہوا۔ میرے قویٰ مضبوط اور قد لمبا ہوتا چلا گیا۔ اس وقت تک میں یہ دیکھ چکا تھا کہ وہاں پرکچھ اوروجود بھی تھے جو مجھ جیسے ہی تھے۔ وہ بھی وہیں ڈیرا ڈالے ہوئے تھے۔ لیکن مجھے کبھی ان سے خوف محسوس نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی شکایت ہوئی۔ وہ نہایت امن پسند اور صلح جو مکین تھے جو مل بانٹ کر کھانے کو پسند کرتے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ خوراک کے نام پر ہمیں جو کچھ میسر آتا وہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ مل جاتا، مگر کسی کو بھی کبھی بھی اس بات کی شکایت کرتے نہیں دیکھا گیا کہ ان کو کم کھانے کو ملا اور کسی دوسرے کو زیادہ حصہ دے دیا گیا۔ ہم سیاست دانوں کے قریب ضرور رہتے تھے، مگرہم سیاست دان ہرگز نہیں تھے۔

جوانی میں ہر موسم کا اپنا لطف ہوتا ہے۔ مجھے بھی آپ کی طرح بہار کا موسم پسند ہے۔ بارش میرا عشق ہے۔ پہلے اسلام آباد میں بہت بارش ہوتی تھی اور میں بارش میں دیر تک بھیگتا رہتا تھا۔ مجھے اپنے وجود میں سے خوش بو آیا کرتی تھی۔ بارش جب برستی ہے تو گرد دھو ڈالتی ہے۔ ہر چیز نکھر کر پہلے سے زیادہ خوب صورت لگنے لگتی ہے۔ میرا وجود بھی بارش کا پیاسا رہتا تھا اور بارش کے غسل کے بعد خوب صورتی اور تازگی مجھ پر ٹوٹ کر برستی تھی۔ اب کچھ عرصے سے بارشیں کم ہوتی ہیں مگر جب بھی ہوتی ہیں جسم و جاں میں سرشاری بھر جاتی ہے۔ جوانی میں ہر رنگ اچھا لگتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر سبز رنگ بے حد پسند ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میرے آس پاس سبزہ ہو، ہریالی ہو۔ سبز رنگ میرے لیے تازگی بخش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بھی سبز رنگ پسند کرتے ہیں۔ سبز رنگ کے علاوہ مجھے جامنی اور گلابی رنگ اچھے لگتے ہیں۔ آپ ہنس پڑے ہیں نا؟

گلابی رنگ تو لڑکیوں کو پسند ہوتے ہیں۔ مگر جیسا میں نے کہا کہ جوانی میں ہر رنگ اچھا لگتا ہے تو مجھے گلابی رنگ بھی بہت پسند ہے۔ وہاں ایک لڑکی رہتی تھی۔ عالیہ نام تھا اس کا۔ جب وہ گلابی رنگ کے کپڑے پہن کر نکلتی تھی تو میرا جی چاہتا تھا کہ بے خود ہو کر جھومتا رہوں۔ کبھی کبھی وہ میری طرف مسکرا کر دیکھ بھی لیتی تھی۔ کاش وقت میری مٹھی میں ہوتا تو میں وقت کو وہیں منجمد کر دیتا۔ مگر ظاہر ہے یہ میرے اختیار میں نہیں تھا۔ بہرحال عالیہ کی شادی ہو گئی تھی اور اب اس کے تین بچے ہیں۔

بات کسی اور طرف نکل گئی۔ میں اب قوی ہیکل جوان تھا۔ مجھ پر اپنے پالنے والوں کا قرض بھی تھا، چناں چہ میں نے ازخود اپنے اوپر وہاں کے ماحول کو صاف ستھرا اور تروتازہ رکھنے کی ذمہ داری ڈال لی تھی۔ اپنے بے پناہ ڈیل ڈول کی بنیاد پر مجھ جیسے وہاں کے مکینوں نے خاموش معاہدے کے تحت مجھے اپنا سربراہ مان لیا تھا اور اب وہ میری اتباع کرتے تھے۔ جیسا میں کہتا وہ ویسا کرتے۔ ہم ماحول دوست تھے چناں چہ ماحول گندا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ہماری فطرت میں انسان دوستی تھی۔ وہاں کے لوگ مجھے پسندیدگی کی نظروں سے دیکھا کرتے تھے۔ اکثر لڑکے اپنے دل کی باتیں مجھے بتایا کرتے تھے۔ اپنی اپنی محبت کا تذکرہ کرکے مجھ سے مشورے مانگا کرتے تھے۔ میں ہنس دیا کرتا تھا لیکن کہتا کچھ نہیں تھا۔ کیا کہتا۔ وہاں سبھی اپنے تھے۔ کسی سے میرا کوئی عناد تھوڑی تھا۔

کبھی کبھار وہاں کے نوجوان جوڑے بھی میرے قریب آ کر بیٹھ جاتے تھے۔ ان کی دبی دبی سرگوشیاں جب میرے کانوں سے ٹکراتیں تو مجھے بہت مزہ آتا تھا۔ میں اندر ہی اندر ہنستا رہتا، لیکن بظاہر بے تاثر وہاں کھڑا رہتا تھا مبادا وہ بے چارے شرمندہ ہو جائیں۔ اسی طرح دن گزرتے گئے۔ اسلام آباد کی آبادی بھی ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ بڑھتی آبادی کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ وہ سیکٹرجو کچھ برس قبل تک نہایت کشادہ تھا، اب وہاں جگہ تنگ پڑ گئی تھی۔ زرا سا ہٹ کر وہاں نئی نئی تعمیرات بھی ہو چکی تھیں۔ قومی اسمبلی کی ممبران کے لیے ایک پرشکوہ ہاسٹل بھی بن چکا تھا۔ اور اب ارباب اختیار وہاں کی سڑکوں کو توسیع دینے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ میں اور مجھ جیسے وہاں کے رہنے والےخوش تھے کہ آبادی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملنے جلنے کا موقع ملتا رہتا تھا اور ہمارے علم میں اضافہ ہوتا رہتا تھا۔

میں آپ کو مزید اپنے بارے میں بتانا چاہ رہا ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ مجھ پر حملہ آور لوگ مجھے مزید وقت نہیں دینا چاہتے۔ وہ مل کر میرے ارد گرد گھیرا ڈال رہے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ان سے درخواست کروں کہ بجائے مجھے قتل کرنے کے، یہاں سے کہیں اور منتقل کر دیں تاکہ میں زندہ رہ سکوں۔ جان کسے پیاری نہیں ہوتی۔ میں بھی اپنی جان بچانا چاہتا ہوں۔ پیدا ہونے سے لے کر آج تک جس جگہ وقت گزارا اس جگہ سے ہجرت بھی کرلینے پر تیار ہوں مگر میری سنی نہیں جا رہی۔

اس وقت میری نظر اپنے سے کچھ دور کھڑے ایک ساتھی پر پڑیں۔ وہ بھی شدید گھبراہٹ کے عالم میں میری طرف دیکھ رہا تھا۔ شاید وہ کہنا چاہتا تھا کہ تم تو ہم سب سے مضبوط ہو، ہم نے تمھیں اپنا سربراہ مانا ہوا ہے، تم ہماری جان بچالو۔ میں اس سے کیا کہتا۔ میں تو خود بقا کے نہایت خطرے سے دوچار تھا۔ میں نے زخمی نگاہوں سے دیکھا۔ میرے ساتھی دور دور تک ایمبیسی روڈ کے کنارے بکھرے ہوئے تھے۔ وہ کٹ چکے تھے۔ مر چکے تھے۔ صرف میں اور میرا ایک اور ساتھی درخت باقی تھے اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی کٹ گرا۔ میرا وجود کرچی کرچی ہو گیا۔ اپنے ساتھیوں کو اپنے سامنے کٹ گرتے دیکھنا نہایت اذیت ناک تھا۔ اور اب دستِ قضا میرے وجود کی طرف بڑھ رہا ہے۔ میں اس کو کسی بھی طرح نہیں روک سکتا۔
کیا آپ روک سکتے ہیں؟
Nov 14, 2017 

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad