منٹو، منگو اور اقبال


لوگوں کی اکثریت فقط محکمہ شماریات کے اعدادو شمار میں ہی اہمیت رکھتی ہے۔ عام آدمی کبھی قال غور تھا ہی نہیں، خاص طور پہ صاحب اقتدار کے نظر میں تو سماتا ہی نہیں ہے، اس کا کرب اور ملال اتنی اہمیت ہی نہیں رکھتا کہ اس پہ نگاہ کرم ہو۔ بھلا ہو مولوی صاحب کا کہ جن کے پاس بشارتیں ہیں، وہ اکثر دل جوئی کرتے رہتے ہیں کہ جو دنیا میں تکلیف سہتا ہے اسے آخرت میں نجات ملتی ہے۔ پھر بھی آدمی مکمل شانت نہیں ہوتا، جلتا، کڑھتا رہتا ہے۔ نجانے کیوں اس کے دل میں یہ وہم سا رہتا ہے کہ اس کے حصے میں آئی خوشی قدرت کی طرف سے ہے اور یہ بے وجہ سا غم کسی ہمنشیں کی مہربانی ہے۔ اس سب کے باوجود اس کی گویائی سلب رہتی ہے مجال ہے کہ کبھی اس شک کو زباں تک لے آئے۔

اگر کسی کو راز دار مانے بھی تو سرگوشیوں میں بات کرتا ہے اور ہر آہٹ پہ چونک جاتا ہے کہ کہیں کوئی سن نہ لے۔ یا پھر خود سے باتیں کرتا رہتا ہے، اندر ہی اندر کھس پھس، کھس پھس۔ اس کا محرم بھی اپنا آپ ہے۔ جو کبھی ابن آدم تھا آج کوچوان ہے، سارا دن گدھوں، خچروں اور گھوڑوں کی سنگت میں رہتا ہے۔ اس کے دن اگر پھرے ہیں تو بس اتنے سے کہ اب چینی صنعت کاروں نے موٹر سائیکلوں کے رکشے بنا دیے۔ اس کیفکر جو کبھی آس پاس کی خبر گیری پہ چوکس ہو جاتی تھی، اب خوابیدہ ہے، مقفل دروں میں صرف گاڑیوں کا شور ہے جس کی گونج سے نسیں تنی ہوئی ہیں۔

منٹو نے جس منگو کو ”نئے آئین میں“ میں اتارا تھا، وہ منگو اب بھی شاید موجود ہے، بس اتنی سی تبدیلی آئی ہے کہ جب وہ ٹانگے سے اترا اور خاک کے سپرد ہوا تو اس کے بعد اسی کی مٹی سے ہر دور میں ایک نہ ایک منگو سر اٹھاتا ہے۔ آج وہ کسی رکشے پہ بیٹھا ہے، تانگے کے لکڑی کسی چولہے یا بھٹی میں جل بھجی۔ یہ اسی قبیلے کا ہے، مگر نئے آئین اور قانون کی امید نہیں رکھتا۔ یہ روز کے عذابوں سے رہائی کے حربے ڈھونڈتا ہے۔ یہ کل صبح یا پھر کسی ”یکم اپریل“ کے لئے احمق بننے کو تیار نہیں۔ وہ شام کے بھوجن اور بچوں کے پیٹ درد کی دوا کے لئے پیسوں کا انتظام کرنے کے تگ و دو میں جتا ہے۔

معلوم نہیں وہ شام تک رزق کی صورت میں کچھ پائے گا یا پھر قرض کی شکل میں کچھ حاصل کرے گا۔ مگر اس کے پاس چارا نہیں ہے، جیسے ہر روز منٹو کا منگو گھوڑے کو چارا کھلا کے، تھپکی دے کے اس کے غم سے آزاد ہو جاتا تھا۔ مگر اس رکشے والے منگو کی سواری صنعتی دور میں منافع کے اصول پہ تیار کی گئی ہے، کم لاگت اور غیر معیاری پرزوں سے بنی اس گاڑی کا مالک روز ورک شاپس کے چکر لگاتا ہے۔ وہ اپنے لئے کچھ کما سکے یا نہیں مگر اس کے پرزوں کی قیمت اسے بہرحال ادا کرنی ہے، اس کے لئے ایندھن کا بندوبست ہر صورت میں کرنا ہے۔ وہ سفید رنگت والا فرنگی جو ہر چوک میں منگو کو نظر آتا تھا اور منگو تلملا اٹھتا تھا، وہ تو گزر گیا ہے مگر اس کی جگہ خالی نہیں ہے اور نہ ہی لہجہ کسی طرح نرم ہے۔

اس رکشہ والے منگو کو اگر منٹو کے منگو سے ملایا جائے، کوئی غائبانہ سا تعارف کرایا جائے، تو کیا پتہ اس کے ساتھ اس کیکوئی جان پہچان نکل آئے۔ کیونکہ جس خواب کے حصار میں وہ کوچوان تھا، آج کا آدمی اس خواب سے بھی محروم ہے۔ انسان کے لئے ایک دن کی زندگی جینا کتنا کٹھن ہے چاہے اس کے مقدر میں اک عمر لکھی ہو۔ جب اس کے پاس خواب کی گنجائیش بھی نہ رہے اور جینا بھی لازم ٹھہرے۔ یعنی آج کے عہد کا منگو خواب سے بھی محروم ہے، مسلسل حالات کے جبر کے ساتھ اس کیجنگ ہے، وہ غلبے کے لئے جنگ میں حصہ نہیں لیتا بلکہ جبر مسلسل میں تھوڑے وقفے کے حصول کے لئے اپنی طاقت آزماتا ہے۔

ہاں اس کے باپ دادا جمہوری راگنی پہ جھومتے آئے ہیں، دوران انتخابات وہ جھنڈے لہراتے اور دال دلئے کو ہضم کرنے کا جوکھم کرتی انتڑیوں اور دھواں نگلتی چھاتی کے زور سے“۔ زندہ باد“ کا نعرے لگاتے آئے ہیں۔ مگر ہر دفعہ خوابوں کی کر چیوں نے ان کی بصارت کو زخمی کیا ہے۔ ان کی سماعتوں میں دلاسے، وعدے جھوٹ کی سنہری تہوں میں لپٹے ٹھونسے جاتے رہے۔ پھر ان کے نوکیلے کونوں نے کانوں کے پردوں پہ خراشوں کا جال بن دیا۔ اب ان کی نسل کے سب منگو جب کچھ سنتے ہیں، تو آواز خراشوں کی لمبی لکیروں میں کھو جاتی ہے۔ وہ صرف بر ی خبروں کے لئے کسی ہر دم تروتازہ سپاہی کی طرح ہو شیار ہیں۔ جیسے ہی کوئی خوش خبری کی بات کرے، تو انہیں مضحکہ خیز سی لگتی ہے۔

خوابوں کے اس سلسلے میں ایک نام علامہ اقبال کا بھی ہے، جو مصور بھی کہے گئے اور مفکر بھی، شاعری بھی مشرق سے منسوب تھی اور یوں شاعر مشرق مانے گئے۔ آج تاریخ اور تحریک ان کے نام سے تقدس سمیٹتی ہے۔ روحانیت کے چشموں کو قلم کی نوک سے نکالنے کی سعی کی، نبض شناسی کو ایران اور پاکستان دونوں میں سراہا گیا۔ حکیم الامت کا خطاب آپ کے نام سے جڑتا ہے۔ آپ احیائے امت کے اشارے پیچیدہ تراکیب سے دے گئے، نظریاتی باپ کے مرتبے پہ فائز ہوئے۔ سرشاری اور سرمستی کی کیفیات کو صوفیوں سے جدا کیا اور یوں ایک نئی گتھی سلجھانے کے واسطے چھوڑ گئے۔ دنیائےمسلم پہ ایک ہو جانے کے پیغام کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ جو ممالک ان کے کلام سے شدید متاثر ہوئے ہیں، وہ بھی باہم شیر و شکر نہ ہو سکے تھے۔ حالانکہ شاعر مشرق امت کی بدحالی پہ مسلسل نوحہ کناں رہتے، بعض اوقات تو خود اپنی شاعری کو ترنم کے ساتھ پڑھتے ہوئے بے اختیار رو دیا کرتے۔

مغرب کی تہذیبی اور ثقافتی کمزوریوں کو بیان کیا، یوں انہیں بھی باور کرایا کہ کونسی خامیوں کو ہمراہ لئے چل رہے ہو۔ جرمن شاعرگوئٹے کو لگ بھگ ایک سال بعد مشرق کی طرف سے پیغام دیا۔ زلت و رسوائی کا شکوہ کیا اور پھر اس کا جواب دیا۔ علمی پستی کا شکار آبادی کو ہر ممکن روحانی طنزیہ شاعری سے بیدار کرنے کا ارداہ ظاہر کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں تڑپ پیدا کی، یہ عین اس وقت ہوا جب وہ خواب غفلت کا شکار تھے۔

مگر منٹو کا منگو سویا ہوا نہیں تھا، وہ بیدار تھا وہ فکر مند تھا۔ اس کے اندر ایک خاموش سی نفرت تھی، جو استحصالی طبقے کے روا رکھے گئے سلوک کا جواب تھی۔ اسےعملی حل کی تلاش تھی، وہ زندگی پہ اپنے برابر حق کو طلب کرتا دکھائی دیتا ہے، اس پہ بے چین ہوتا ہے، اس کے لئے تیاری کرتا ہے، اپنے گھوڑے کی سجاوٹ کرتا ہے۔ وہ انہی سڑکوں اور راستوں پہ تبدیلی کو خوش آمدید کہنے نکلتا ہے۔ اس کے ہاں تبدیلی کا تعلق حالات سے ہے۔ وہ نئے سورج کی کرنوں کو اپنی زمین پہ اترتا محسوس کرتا ہے۔ نیا دن اسے حالات کی شکستگی سے بحالی کا دن لگتا ہے۔

وہ کر م فرماؤں سے اپنی امیدیں وابستہ کرتا ہے، سفید آقاؤں اور گندمی قائدین سے اس نے توقع قائم کر لی تھی۔ وہ اتنی مضبوط تھی اور اتنے ہی بڑے دھچکے سے ٹوٹ گئی۔ منٹو آج نہیں، اقبال بھی نہیں اور ٹانگے بھی ناپید سے ہو گئے ہیں۔ مگر منگو ابھی بھی ہے، اسی تکلیف اور اسی جبر کے ساتھ، فرق صرف اتنا ہے کہ اب وہ دلاسوں سے بہلتا نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).