اردو میں فسادات کے ادب کا سیاسی پس منظر


               

اگست سن سنتالیس کے فسادات سے پھوٹنے والی ادبی تخلیقات ناقابلِ فراموش ہیں۔ فسادات کے اس ادب کی تفہیم و تعبیر کی خاطر اس سوال پر گہرے غور و فکر کی ضرورت ہے کہ قیامِ پاکستان پر انسانیت سوز فسادات کیوں برپا ہوئے تھے؟ عہدِ حاضر کے چند سیاسی مورخیں نے اس سوال کے جواب کی تلاش میں چند فکر انگیز کتابیں لکھی ہیں۔  ہم ادب کے طالب علموں پر لازم ہے کہ بے لوث سیاسی تجزیہ نگاروں کی مساعی سے اکتسابِ فیض کریں۔  میری یہ تحریر اسی تلاش و تمنا کا ثمر ہے۔

مہاتما گاندھی کے پوتے اور ایک انسان دوست اور روشن خیال مورخ اور سیاستدان راج موہن کو آج تک دو سوالات نے پریشان کر رکھا ہے۔  اوّل یہ کہ اگست سن سنتالیس میں برصغیر کی تقسیم کیوں عمل میں آئی تھی؟ دوم: یہ کہ برصغیر کی اس تقسیم پر اتنے ہولناک فسادات کیوں برپا ہوئے تھے؟ ان سوالات کو تاریخی، تمدنی اور سیاسی سیاق و سباق میں سمجھنے اور پیش کرنے کی خاطر انہوں نے مغل شہنشاہ اورنگ زیب سے لارڈ ماونٹ بیٹن تک پنجاب کی تاریخ پر ایک خیال انگیز کتاب لکھی ہے۔ خوش قسمتی سے برطانوی ہند کا وہ ریکارڈ بھی منظرِ عام پر آ چکا ہے جو ایک طویل عرصے تک صیغہ راز میں چلا آ رہا تھا۔  راج موہن گاندھی کی کتاب کی اشاعت سے چھ سات برس پیشتر امریکی مورخ اور سوانح نگار سٹینلے والپرٹ (Stanley Wolpert) اس دستیاب مواد کو کام میں لا کر ہر دو سوالات کا تشفی بخش جواب دے چکے ہیں۔  خود برطانوی مدبر سرونسٹن چرچل نے برطانوی حکومت کی جانب سے انتقالِ اقتدار کو شرمناک فرار (Shameful Flight) قرار دیا تھا۔  جناب والپرٹ نے اسے برطانوی ہند کے آخری چند برس پر اپنی کتاب کا معنی خیز عنوان دیا ہے۔  اس کتاب کے مطالعے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ان فسادات کا مقصد پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کو آگ اور خون کے طوفان میں غرق کر دینا تھا۔  یہ اُس وقت کی حکومت کی مجرمانہ غفلت سے زیادہ سوچی سمجھی سیاسی حکمتِ عملی تھی۔  راج موہن گاندھی نے اپنی کتاب کے نویں باب میں اس حقیقت کا اثبات کیا ہے کہ قائداعظم آخر تک پنجاب اور بنگال کی تقسیم کی ڈٹ کر مخالفت کرتے آئے تھے:

“Until June, Jinnah resisted the application of partition’s logic to the provinces. Continuing to ask for all of Punjab and Bengal, and Assam he called the congress’s partititions resolution ‘sinister’ and ‘stunt’ and accused the Hindu minorities of Punjab and Bengal of a wish, to cut up theses provinces and cut their own people into theses provinces. Cutting no ice with anyone and rejected unreservedly by Mount Batten his stand against divided Punjab and Bengal was quietly dropped.”

جناب والپرٹ نے اپنی کتاب بعنوان ”شرمناک فرار“ میں اس موضوع پر مزید تفصیلات پیش کی ہیں۔  انھوں نے ہمیں” انتقالِ اقتدار “کی دسویں جلد کے صفحہ 258 پر دی گئی قائداعظم کی ایک تحریر کی جانب متوجہ کیا ہے۔  قائداعظم نے 17 مئی 1947ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور برطانوی کابینہ کو پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے تصور کو رد کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ مسلم اکثریت کے ان دونوں صوبوں کی تقسیم کا کوئی تاریخی ، معاشی ، جغرافیائی، سیاسی اور اخلاقی جواز نہیں ہے:

“The Muslim League cannot agree to the partition of Bengal and the Punjab…..It cannot be justified historically, economically, geographically, politically or morally. These proviنces have build up their respective lives for nearly a century….In the name of justice and fair play do not submit to this clamour. For it will be sowing the seeds of future serious trouble at the results will be disaster for the life of these two provinces.”

اس باب میں برطانوی حکومت سے مایوس ہو کر قائداعظم نے پنجاب کی سکھ قیادت سے بھی رابطے قائم کیے تھے۔  انھوں نے سکھ لیڈرشپ کو یقین دلایا تھا کہ انہیں پاکستان کے اندر رہتے ہوئے فکر و عمل کی آزادی حاصل ہوگی۔  قائداعظم کا یہ استدلال اُس زمانے کی سکھ قیادت پر کوئی مثبت اثر قائم نہ کر سکا تھا۔  شاید اس لیے کہ یہ لوگ بھی اسی خام خیالی میں مبتلا تھے کہ پنجاب کی تقسیم ایک عارضی سانحہ ہے اور یوں پاکستان کا تصور فسادات کے خون میں ڈوب کر رہ جائے گا۔

 اب آئیے پنجاب کی تقسیم میں عدل و انصاف کے اصولوں کی پائمالی کی جانب ۔  جناب سٹینلے والپرٹ نے ریڈ کلف ایوارڈ کے نقشے پر زبردست کاٹ پیٹ پر سر پیٹتے ہوئے لکھا ہے کہ پنڈت نہرو اور لارڈ ماونٹ بیٹن کی غیر اصولی ملی بھگت نے مسلم اکثریت کے علاقوں کو زبردستی بھارت کے نقشے میں ڈال دیا تھا:

“Radcliffe tried his best to be fair in tackling what became an impossible job. He could not understand why Nehru’s and Mountbatten’s greatest concern over the new Punjab border lines was to make sure that neither of the Muslim majority sub districts of Ferozepur and Zira nor the Muslim majority districts of Gurdaspur should go to Pakistan, since that would have deprived India of direct road access to Kashmir. The Punjab boundary commission Radcliffe chaired, after all was simply asked to divide the province along lines of Muslim verses non Muslim majority districts since the number clearly favour Muslims, Radcliffe awarded the Ferozpur sub-district and Gurdaspur to Pakistan in his initial maps.”

یہ تو رہی پنجاب کی جبری تقسیم کی بات۔  اب آئیے بنگال کی تقسیم کی جانب۔  لارڈ ماونٹ بیٹن یہ سمجھتے تھے کہ جب وہ قائداعظم کو بتائیں گے کہ حسین شریف سہروردی متحدہ بنگال چاہتے ہیں تو قائداعظم سہروردی کی اس ”سازش“پر بھڑک اُٹھیں گے مگر وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ قائداعظم بھی متحدہ بنگال کے حامی نکلے:

“Mountbatten asked Jinnah what he thought of Suharwardhi’s proposal to create as separate soverign Bungal, expecting him to be shocked at the Muslim League’s Lieutenant’s “Treachery”. Much to Mountbatten’s surprise Jinnah calmly replied, I should be delighted. What is the use of Bengal without Calcatta?’, they had much batter remain united and independent. I am sure they would be on friendly terms with us.”

یہ ایک تاریخی صداقت ہے کہ صوبوں کی تقسیم کی کوئی بھی سکیم آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان میں شامل نہیں تھی۔  علامہ اقبال اور قائداعظم، ہر دو بانیانِ پاکستان برصغیر کے مسلمان اکثریت کے صوبوں پر مشتمل آزاد اور خودمختار پاکستان کی قیام چاہتے تھے۔  جب برطانوی حکومت اور انڈین نیشنل کانگریس طلوعِ پاکستان کو روکنے میں ناکام ہو گئی تب مسلم اکثریت کے ہر دو صوبوں ، بنگال اور پنجاب کی انتہائی نامنصفانہ تقسیم سامنے لائی گئی اور فسادات کرائے گئے۔

پرامن انتقالِ اقتدار برطانوی حکومت کی ذمہ داری تھی۔  اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں دو افراد کلیدی حیثیت رکھتے تھے۔  گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن اور وزیرداخلہ سردار پٹیل ۔  چند برس پیشتر ریڈ کلف نے اپنے ایک سوانحی مضمون میں اُس دباو کا ذکر کیا تھاجو پنڈت نہرو کے زیرِ اثر لارڈ ماونٹ بیٹن اُن پر ڈالتے چلے آئے تھے اور جس کے باعث وہ باونڈری کمیشن کے حتمی نقشے میں متعدد تبدیلیوں پر مجبور کر دیے گئے تھے۔

مسلمانوں کو” کٹا پھٹا “اور دیمک خوردہ پاکستان دینے کی خاطر باونڈری کمیشن کے نقشے میں تبدیلیاں کروانے کے بعد فسادات کی آگ بھڑکائی گئی تاکہ یہ کٹی پھٹی اور دیمک خوردہ آزاد اور خودمختار ریاست قائم ہوتے ہی منتشر ہو کر رہ جائے۔  ایسے میں مہاتما گاندھی جیسے انصاف پسند رہنما یکہ و تنہا اور بے یارومددگار ہو کر رہ گئے تھے۔  انہیں ”محمدگاندھی“ اور قائداعظم کا آلہ کار کہا جانے لگا تھا اور بالآخر اسی” جرم“ میں عدم تشدد کے اس پیکرکو تشدد کا شکاربنا کر ملکِ عدم روانہ کر دیا گیا تھا۔  جناب سٹینلے والپرٹ نے اُس زمانے کی انڈین نیشنل کانگریس میں سردارپٹیل کی خوں خوار آمریت کی نقاب کشائی درج ذیل الفاظ میں کی ہے:

“Mohatma Gandhi also spoke out every evening against the mistreatment of Muslims, appealing to those who came to his prayer meetings to take care of Muslims forced out of their homes and to treat them with loving kindness. Hindus fanatics called him “Jinnah’s stooge!” and “Muhammad Gandhi!” Vallabhhbhai Patel was in charge of Delhi’s police, and Nehru urged him to work harder to activate them to apprehend Hindu Rashtriya Svayamsevek Sangh (RSS, National Volunteer Association”) thugs, who terrorized Muslims. Patel himself sympathized with and Strongly supported the RSS.”

خود جواہر لال نہرو نے برٹش راج کے آخری ایام کے عنوان سے ایک کتاب کے انگریز مصنف Leonard Moseley کو اپنے ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ ”ہم پاکستان کو ایک بالکل عارضی اور رفتنی و گزشتنی واردات سمجھتے تھے اور ہمیں یقین تھا کہ پاکستان جلد از جلد ہندوستان سے آ ملے گا۔ “بنگال اور پنجاب کی تقسیم پر کانگرس اور ہندو انتہا پسند جماعتوں کا اصرار بھی اسی باعث تھا۔  وہ چاہتے تھے کہ تقسیم پر اشتعال کو ہوا دے کر آگ اور خون کا طوفان برپا کر دیا جائے اور یوں قیامِ پاکستان کا تجربہ ناکام ہو کر رہ جائے۔  راج موہن گاندھی کی زیرِنظر کتاب میں ایک پورا باب ”پاگل پن کے دوران انسانیت“ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے جس میں ایسی بہت سی سچی کہانیاں درج کی گئی ہیں جن میں ہندو اور سکھ اپنی جان پر کھیل کر مسلمان خاندانوں کو حفظ و امان فراہم کرتے ہیں اور دوسری جانب مسلمان اپنی جان پر کھیل کر ہندو اور سکھ خاندانوں کو بحفاظت بھارت روانہ کرتے ہیں۔  اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب کی تقسیم اور تبادلہ آبادی کے دوران ایک سوچی سمجھے منصوبہ بندی کے تحت تشدد پسندی اور دہشت گردی کے ذریعے قتل و غارت کی فضا پیدا کی گئی تاکہ پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کو جان کے لالے پڑ جائیں۔  یہ سازش ناکام رہی۔  سردار پٹیل جیسے متعصب اور تنگ نظر ہندو اور پنڈت نہرو کے سے لبرل سوشلسٹ کا مشترکہ خواب کہ پاکستان کا قیام بالکل عارضی ثابت ہو اُس وقت تو مٹی میں مل کر رہا مگر بعد ازاں نہرو اور پٹیل کے جانشیں اُن کی روایات پر قائم رہے۔  جب ہماری اپنی غلطیوں کے باعث مشرقی پاکستان کے سیاسی بحران نے شدت اختیار کی تو پنڈت نہرو کی بیٹی نے بھارتی فوجی یلغار سے پاکستان کو دو لخت کر دیا تھا۔  یہ مہم جوئی بھی اس اعتبار سے سراسر ناکام ہے کہ آج کا بنگلہ دیش دو قومی نظریے پر قائم رہتے ہوئے ہندوبنگال سے اپنے الگ قومی وجود پر نازاں ہے۔

برطانوی سامراج نے برصغیر سے اپنی پسپائی کے آخری مراحل میں انڈین نیشنل کانگرس کے ساتھ مل کر آگ اور خون کا یہ کھیل کیوں کھیلا؟ اس سوال کے جواب کی تلاش و جستجو میں لکھی گئی متذکرہ بالا کتابوں میں پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے حقیقی محرکات و عوامل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔  اِن میں غیر جانبدار سیاسی مورخین کی جانب سے پیش کیے گئے تاریخی حقائق اردو میں فسادات کے ادب کی تفہیم و تعبیر کا درست تناظر پیش کرتے ہیں۔  میری تمنا ہے کہ ادبیات اور پاکستانیات میں دادِ تحقیق دینے میں مصروف احباب اِن کتابوں میں بیان کیے گئے حقائق کو بھی پیشِ نظر رکھیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).