لاہوریوں کا کھانا حکومت نے حرام کر دیا


آج زیادہ لمبی بات نہیں ہو گی۔ بس سیدھی اور ٹو دی پوائنٹ۔ خیر اگر چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہیں کہ مصداق کوئی بھول ہو جائے تو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی معاف کر دیجئے گا۔

خاکسار کو لاہور بدر ہوئے قریب تین سال بیتنے کو ہیں۔ باوجود اس کے کہ ہماری ساری عمر وہاں بیتی بھی نہیں اور اب ہر بار جا کر دل کچھ بجھ سا بھی جاتا ہے اس شہر سے پھر بھی ایک عجیب سا تعلق ہے۔ غالبا عشق کا جس میں درد بھی اٹھتا ہے اور لپک بھی بڑھتی جاتی ہے۔ کوئی ان دیکھی ڈور کھینچے چلی جاتی ہے۔
درد بھی ہر دفعہ بڑھتا ہے، کبھی شہر کی زبوں حالی پر اور کبھی لوگوں کی دیوانگی پر۔ ہر دفعہ ہے کہ کچھ پہلے سا نہیں رہا۔ سب بدل گیا ہے۔

لاہوریوں کو ہمیشہ سے یہی لگتا آیا ہے کہ دنیا میں ایک بس یہی شہر ہے۔ حج پر بھی بیمار پڑ جائیں تو داتا صاحب کی دیگوں کی فکر پڑ جاتی ہے۔ اللہ میاں کا گھر اپنی جگہ لیکن لاہور تو پھر لاہور ہے نا۔ بقول ان کے جس نے لاہور نہیں دیکھ وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ اس فلسفے کی رو سے دنیا میں اربوں کھربوں کی آبادی پیدا ہوئے بغیر ہی گھوم پھر رہی ہے۔ بات بھی صحیح ہے۔ یہ بھولی مجیں کیا جانیں انار کلی کی شانیں۔

لاہور کا ایک اپنا ہی مزاج ہے، بے فکرا، لا ابالی، رنگین، رنگ باز، خوش باش۔ مجھے یاد ہیں وہ دن جب دہشت گردوں کی جانب سے شہر کے اہم مقامات پر حملے کرنے کی دھمکی دی گئی تھی اور ہمیں دوپٹے کی لیس لینے کے لیے لبرٹی مارکیٹ جانا پڑا تھا تب بھی یوں ہی کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ نکڑ کی چاٹ والے پر بھی وہی رش تھا۔ ۔ ”بھائی کھٹا زیادہ ڈالنا“ کی وہی کھلکھلاتی آوازیں تھیں۔ خون خرابے پر ہمیشہ کھابے کو ہی ترجیح دی ہے ان زندہ دلان نے

یہاں کسی سے پوچھیں کہ زندگی میں کیا کھویا اور کیا پایا تو یہی جواب ملے گا
’جو گاجر کے حلوے میں ڈلتا ہے وہ کھویا ہےاور جس کا شوربہ بنتا ہے وہ پایا ہے۔ ‘

بائی دی وے، لاہور کے یہ چرچے پاکستان سے باہر بھی کچھ کم نہیں۔ ابھی پچھلے ہی دنوں چندی گڑھ میں رہنے والے ایک بزرگ سے انٹرنیٹ پر بات ہو رہی تھی جو تقسیم کے وقت لکشمی چوک میں اپنا بھرا پرا گھر چھوڑ کر ہجرت کر گئے تھے لیکن آج بھی خود کو بڑے فخر سے لاہوریا ہی کہتے ہیں۔ یہی حال اور بھی بہت سے بزرگوں کا ہے۔ بھلے لاہور کی مٹی دوبارہ چھونے کی اس ہی باقی ہو لیکن امید تو ہے نا۔

آج کی نسل تو شاید بسنت کو محض تاریخ کے طور پر جانتی ہو لیکن ہمیں تو وہ وقت یاد ہے جب پوری دنیا یہاں کی بسنت بہار بہار دیکھنے دور دور سے آتی تھی۔ اندروں لاہور کی شاید ہی کوئی چھت ایسی ہو جہاں رنگین آنچل نہ لہراتے ہوں، ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا نہ ڈلتا ہو، بو کاٹا کے فلک شگاف نعروں سے شہر نہ گونج اٹھتا ہو۔ ۔ بسنت کے موقے پر آسمان بھی رنگین ہوتا تھا اور لوگوں کے دل بھی سرشار۔ خدا کا شکر کے اس وقت مذہبی انتہاپسندی کا عفریت اس قدر زور آور نہ تھا۔ کہیں سے اکا دکّا آوازیں لگ جاتی تھیں کہ ہندوانہ تہوار ہے۔ ہماری اسلامی ثقافت کے منافی ہے۔ لیکن بس نقارخانے میں طوطی کی آواز کیوں سنتا نہیں لاہور ہنستا رہا۔ گاتا رہا۔ پتنگیں اڑاتا رہا۔

پتہ نہیں پھر کیا ہوا۔ شاید نظر لگ گئی۔ دھاتی ڈوریں راہ چلتوں کے گلے چیرنے لگیں۔ حکومت ٹھہری سدا کی چاق و چوبند لہذا جھٹ سے پابندی لگا دی گئی۔ جی، دھاتی ڈوروں پر نہیں، بسنت پر۔ یہی بہترین طریقہ تھا۔ اب قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے لفڑے میں کون پڑتا۔ آج بھی لاہورئیے آہیں بھر کر وہ وقت یاد کرتے ہیں۔ لیکن یہ ان کامسئلہ ہے حکومت وقت کا نہیں۔ سمپل!
شکر ہے اب کوئی نہیں مارتا لاہور میں۔ سب چین سے رہتے ہیں۔ عمر خضر پاتے ہیں۔ حیات جادواں پا چکے ہیں خیر سے۔ اسی لئے ہسپتالوں کی طرف توجہ نہیں دیتی حکومت۔ سب اتنے چین سے جو رہتے ہیں۔

سب صحیح چل رہا تھا۔ خوشیاں منانے کا کوئی گنہگار موقع نہیں بچا تھا۔ مذہبی منافرت کی برکت سے ہر چیز بدعت بھی بن چکی تھی۔ لیکن کہاں صاحب! اسد شیخ نامی ایک لاہوریے کو پتا نہیں کیا سوجھی۔ بیرون ملک کی پر تعیش زندگی چھوڑ کر لاہور واپس آ گیا اور کھانے پینے کے کلچر کو پروان چڑھانے کے درپے ہو گیا۔ بس لت لگ گئی سب کو۔ ریسٹورنٹس کا بزنس پھلنے پھولنے لگا۔ پکوڑوں کی ریڑھیوں والے مزید کمانے لگے۔ گھریلو خواتین کو بھی ایک نئی راہ ملی اور بہت سی اپنے بزنس چلانے لگیں۔ ، خودمختار ہونے لگیں۔ آئے دن یہ منچلے مل کر فوڈ ماب منانے لگے جہاں یہ فیس بک گروپ ”فوڈیز آر اس“ اکٹھا ہوتا تھا اور دل کھول کر کھاتا تھا، ہنستا تھا۔

بات یہیں تک بھی رکی رہتی تو صبر کا کڑوا گھونٹ پی ہی لیتے۔ اس منچلے نے لاہور کے تمام چیدہ کھانوں کو اکٹھا کیا اور ایک نیا میلہ رچایا۔ کوک والے بھی اس گناہ میں برابر کے شریک ٹھہرے۔ سب لاہوریے پہنچ گئے ہنستے گاتے۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں، رنگ ہی رنگ۔ گھریلو بزنس ہوں یا اندروں شہر کے چٹخارے، سب یہاں موجود تھے۔ موسیقی کا دور بھی رواں ہوا۔ تین سو روپے کا ٹکٹ اور سب کچھ ایک جگہ! توبہ توبہ! ہمیں تو دار لگنے لگا کہ کہیں خوشی منانے کی یہ روایت پھر سے دم نہ پکڑ لے۔

سنا ہے کہ پورا لاہور ہی گھر رہنے سے انکاری تھا اور نکل پڑا ٹولیوں میں۔ لوگ جوق دار جوق امڈ رہے تھے۔ ٹریفک کی صورت حال بھی ناگفتہ بہ تھی۔ ظاہری سی بات ہے۔ لیکن وہ کیا ہے کہ یہاں تو کبھی ٹریفک جام ہی نہیں۔ عادت ہی نہیں کے ٹریفک کی روانی میں کوئی کسر رہے۔ لہذا معاملہ فہم اور زیرک شہری انتظامیہ پھر سے حرکت میں آئی اور جھٹ سے ایک گرما گرم کیس بنا ڈالا۔ بسنت کے بعد اب لگتا ہے کوک فیسٹیول کی باری ہے۔ بس فتوے سے بچت ہو گئی۔ لگتا ہے مولوی صاحبان کی نظر نہیں پر۔ خیر خدا کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں۔

سنا ہے بہت سے منچلے یہ نکتہ بھی اٹھا رہے ہیں کہ جب مال روڈ مولوی صاحبان کی وجہ سے بلاک ہی تب تو کوئی شور نہیں اٹھا۔ اجی، حلال اور حرام میں کوئی تو فرق رہنے دیجیے۔

خیر ہمارے پاس ایک حل ہے اس سب مدعے کا۔ حل تو کیا ہے بس گزارش ہی ہے۔ پارلیمنٹ سے درخوست ہے کہ ایک نیا بل پاس کرے جس کی رو سے ہر قسم کی خوشی منانے پر پابندی لگا دی جائے۔ علماء کرام سے بھی گزارش ہے کہ ایک فتوے کے تحت خوشی منانے کو حرام قرار دیا جائے۔ یہ روز روز کے بین اور کیسوں کی درد سری سے تو جان چھٹے۔ بہت وقت کا زیاں ہے۔
نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).