حسنین جمال کا کالم پڑھنے والی دو عورتیں


حسنین جمال کو’ ہم سب ‘کے پلیٹ فارم سے پڑھنا شروع کیا۔ بڑا لطف آتا اسے پڑھ کر۔ بڑے اچھے دن چل رہے تھے کہ ایک دن معلوم ہوا کہ حسنین جمال ان روز نامہ دنیا میں کالم لکھا کریں گے۔ اپنی روٹین تو’ ہم سب ‘والی ہی رہی۔ پھر کچھ عشق تھا، کچھ مجبوری تھی والا معاملہ ہوا۔ انٹرنیٹ پیکج نہ ہو تو فیس بک پر کئی کئی دن غائب رہنا۔ ایسے میں جب پیکج ہی نہیں تو “ہم سب: کیسے کھولتے۔ یہ انہیں دنوں کی بات ہے جب ہم ابھی والے حالات کی طرح غریب اور مقروض تھے۔ اور روٹی پانی میں ڈبو ڈبو کر کھاتے تھے۔ اکلوتے دوستوں سے فرمائشوں پر ڈھنگ کا کھانا یعنی روٹی دیسی گھی سے چپڑی ہوئی ہو اور ساتھ میں ساگ ہو سرسوں کا یا کوئی دال سبزی۔ تو اتنی غربت میں جب سویرے سویرے ناشتہ کرنے اپنے میس روم میں آتے تو دنیا اخبار کو ٹیبل پر دیکھتے۔ پھر ہمارے ہی ناشتے کے ٹائم پر لڑکیوں کی تعداد پانچ ہو گئی جو اسی اکلوتے اخبار کے پیچھے پڑی ہوتیں۔ ہم تو خیر سے اخبار حاصل کرنا چاہتے تھے کہ جمال بھائی کا کالم پڑھ سکیں۔ باقی لڑکیاں اسی اخبار سے ہاتھ صاف کرنے کے چکروں میں ہوتیں۔ مجھے شروع شروع میں علم نہیں تھا کہ اخبار سے ہاتھ صاف کرنے والی موصوفہ کون ہے؟ حالانکہ میری آنکھوں کے سامنے ہی تو پڑا ہوتا تھا اخبار۔ کھوئی ہوئی صورتیں سامنے ہوئے قتل کو نہیں دیکھ سکتیں یہ تو پھر معاملہ اخبار کے صفحوں سے ہاتھ صاف کرنے کا تھا۔

خیر ایسے ہی دن گزرتے چلے گئے تو ایک دن کھانا کھاتے ہوئے میری نظر پڑی کہ ۔۔۔ ایک لڑکی اس اخبار سے ہاتھ صاف کر رہی تھی جس میں حسنین جمال کا کالم چھپا تھا میں غصے سے لال پیلی ہو گئی۔ کمال کرتی ہے یہ لڑکی۔ الو کی پٹھی۔۔۔۔ جتنی گالیاں مجھے آتی تھیں، سب دے دیں۔ بے چاری کو گالیاں کھا چکنے کے بعد علم ہوا کہ کیوں اتنا تردد کر کے میری بکواس سن رہی ہے۔ پھر اس کے بعد مجھے زچ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ میرے بھی کچھ دن پھرے کہ انٹرنیٹ پیکج واپس آ گیا اور پھر سے ’ہم سب ‘پر آ گئی۔ لیکن وہ لڑکی بی چاری مجھے زچ کرنے کے لیے روزانہ اخبار کھول کر حسنین جمال کے کالم والا حصہ نکال کر اتنا صفحہ پھاڑ کر باقاعدہ ہاتھ صاف کرتی۔ ابھی کچھ دن پہلے بیچاری نے صفحہ پھاڑا اور ہاتھ صاف کرنے سے پہلے ”پاکستان میں نیوڈ مصوری“ کالم پڑھ لیا۔ پھر دفتر جانے سے ذرا پہلے میرے گلے لگ کر انکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو بھر کر کہا۔ ثمینہ ’I am Sorry.‘ تمہیں زچ کرنے کے لیے روز اخبار خراب کرتی تھی۔ اور اتنے اچھے آدمی کے ساتھ اتنا برا سلوک کرتی رہی۔ یہ تو اپنے ہی شعبے کا بندہ ہے۔ اپنے ہی علاقے کا نکلا اور سب سے بڑھ کر اپنے ہی نظریے کا۔ تھوڑی عقل ہی دے دیتی۔ دوست ہونے کا کیا فائدہ، یار! میں ایسی غلطی تے نہ کردی۔

بادشاہو ! میں نے کہاں بخشا تھا۔ بدلے کے چکر میں اس کے ایک رائٹر دوست کو گھٹیا ترین رائٹر کہا تھا اور ہر دوسرے بندے کو کم و بیش یہی کہا تھا۔ تو میں نے بھی اعتراف کیا کہ یار میں نے یہ غلطی کی ہوئی ہے۔ I am so sorry Love.  اب سے ہم دوست اور ہمارے بیچ کوئی تیسرا نہیں آئے گا۔ لڑنا بھی ہم نے اپنی ذات تک ہے۔ تو ہماری تو دوستی ہو گئی۔ دوست تو ہم خیر پہلے بھی تھیں۔ دو غریب سہیلیاں۔ پر اب ایک نیا مسئلہ۔ اخبار غائب ہو تو ”سیمی! سیمی! اخبار کدھر ہے؟ تم نے ضرور چھپا رکھا ہے۔ پلیز دے نہ یار“۔ کیونکہ میں تو ہم سب پر کالم پڑھ لیتی ہوں پھر اس کالم کا یو آر ایل اپنی دوست کوشیئر کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ اور کبھی غلطی سے بندہ بھول جائے تو اس کی سزا، رات کے کھانے پر وہی دوستوں والی عزت۔ اور اب تو ایک نیا مسئلہ آ گیا ہے ۔ ابھی تین یا چار  نئے والے اور کوئی پانچ پرانے والے کالم پڑھے ہیں بی بی نے اور جناب پر حسنین جمال سے ملنے کا بھوت طاری ہو گیا ہے۔ اصرار جاری ہے کہ مجھے ھسنین ضمال سے ملواؤ۔ ایسی فرمائش پر اپنا بھی اندھا دھند خاموشی کا نسخہ ہے کہ خاموشی ہر مصیبت کا حل ہے۔ وہ ایک محاورہ ہے نا  دیانت داری بہترین پالیسی ہے۔ اپنا تو محاورہ ہے خاموشی بہترین پالیسی ہے .تو آ ج کل اسی پر عمل ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).