ہر چیز فنا ہو جائے گی


اس سال تیس نومبر کو پاکستان پیپلز پارٹی اپنا پچاسواں یوم تاسیس منانے جا رہی ہے۔ نصف صدی بیت گئی ہے لیکن وہ دن اور واقعات آج بھی میرے ذہن میں نقش ہیںاور میں بھول بھی کیسے سکتا ہوں۔ پاکستان پیپلز پارٹی میری پہلی محبت تھی،سترہ سال کی عمر میں جب میرے ہم عمر صنف نازک کی آنکھوں کی سرمستیوں میں ڈوب رہے تھے ،میں اور میرے چند نوجوان ساتھی ذوالفقار علی بھٹو کے سحر میں مبتلا ہو چکے تھے۔ بھٹو سے ہماری ملاقات کروانے کا سہرا امان اللہ خان کے سر تھا، امان اللہ خان اس زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے لیکن ان کا اثرورسوخ شہر کے ہر کالج میں تھا۔ ہم اس سے قبل بھی ایوب خان کے خلا ف مختلف تحریکوں میں حصہ لے چکے تھے اور جیل کی ہوا بھی کھا چکے تھے۔ معاہدہ تاشقند کے بعد ایوب کابینہ سے مستعفی ہونے کے فیصلے نے بھٹو کو نوجوانوں میں اور بھی مقبول کر دیا تھا،ذوالفقار علی بھٹو ایک طلسماتی شخصیت کے مالک تھے اور ان کو خدا نے تقریر کے ایسے فن سے نوازا تھا کہ لوگ برستی بارش میں بھی کھڑے انہیں بولتا سنتے رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے ناصر باغ میں ایک جلسے کے دوران سامعین کو بارش میں بھیگتے دیکھ کر بھٹو نے اپنی چھتری ہٹاتے ہوئے کہاتھا کہ جب میرے لوگ بارش میں بھیگ رہے ہیں تو میں کیسے چھتری لے سکتا ہوں۔ جب بھٹو کی تقریر ختم ہوئی تو لوگ نہ صرف بھیگ چکے تھے بلکہ کئی جگہ گھٹنوںتک پانی جمع ہو چکا تھا۔

پھر جب بھٹو نے ایک نئی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا تو ہم جیسے اور بہت سے سر پھرے اس سفر میں شریک ہو گئے۔ ڈاکٹر مبشر حسن کے گلبرگ میں واقع گھر میں جنم لینے والی سیاسی جماعت پچاس برس کی ہونے جا رہی ہے۔ اُس روز کنونشن کے لئے کچھ زیادہ انتظامات نہیں کئے گئے تھے ، اسٹیج کے طور پر جو چبوترہ بنایا گیا تھا اس پر ایک میز اور چند کرسیاں رکھی تھیں۔ لان میں شامیانہ لگا کر کنونشن میں شریک دیگر افراد کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھااور شاید ڈیڑھ دو سو لوگ ہی کنونشن میں شریک ہوئے تھے۔ جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن، معراج محمد خان، شیخ محمد رشید، حیات محمد شیرپائو، حق نواز گنڈاپور، ملک اسلم حیات، ملک حامد سرفراز، میرحامد حسن، اسلم گورداسپوری، چاکرعلی جونیجو، پیر بخش بھٹو، رسول بخش تالپور، عبدالوحید کلپڑ،ملک پرویز اختر، راجہ منور احمد، میاںمحمد اسلم، عاشق بھٹو، ملک نوید احمد، امان اللہ خان، بیگم عباد احمد، فاروق بیداراور آفتاب ربانی نمایاں تھے۔ مصطفی کھر اور غلام مصطفی جتوئی بھی موجود تھے اگرچہ دونوں رکن اسمبلی ہونے کی بنا پر مندوبین میں شامل نہیں تھے۔ میں اور میرا دوست ظفریاب آنے والے نمائندگان کے نام ایک رجسٹر میں درج کرتے رہے، شاید آج بھی وہ رجسٹر ڈاکٹر مبشر حسن کے پاس موجود ہو۔

ڈاکٹر مبشر صاحب کے لیونگ روم میں وہ، جے اے رحیم کے ہمراہ اس روز پیش کئے جانے والی دستاویزات کوحتمی شکل دیتے رہے۔ یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ نئی سیاسی جماعت کے لئے تمام تر سوچ بچار کرنے کا کام ان افراد کے سپرد تھا جو اس سے قبل عملی سیاست کا کبھی حصہ نہیں رہے تھے۔ اس وقت کے منتخب ایم این ایزغلام مصطفی جتوئی، غلام مصطفی کھر اورممتاز بھٹو ان دستاویزات کی تیاری کے عمل سے دورہی رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پارٹی کی تشکیل کے لئے جس بنیادی دستاویز کو استعمال کیا گیا وہ روایتی سیاست سے بالکل الگ تھی۔ “ایک نئی پارٹی کیوں ؟” کے نام سے تحریر کی جانے والی دستاویز میں نئی پارٹی بنانے کی وجوہات بیان کی گئیں۔

اس دستاویز میں تحریرکیا گیا کہ: ” ہمار ے انداز فکر میں انقلاب آفریں تبدیلی کی اشدضرورت ہے، اب اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔جب چھوٹا راستہ موجود ہو تو لمبا راستہ اختیار کرنا کوئی خوشگوار کام نہیں۔ لیکن پاکستان کے موجودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ لمبا راستہ اختیار کیا جائے۔ ہمیں تجربے نے بتا دیا ہے کہ جب ایسے مسائل درپیش ہوںجس سے عوام اور ملک کی تقدیر وابستہ ہو، آسان اور چھوٹا راستہ دراصل منزل سے آشنا نہیں کرتا بلکہ سراب کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ حقیقت اب واضح ہو چکی ہے کہ ایک نئی سیاسی جماعت اور ایک نیا سیاسی لائحہ عمل اور دستوراس قوم اور ملک کے لئے اشد ضروری ہیں۔موجودہ حالات میں ایک نئی سیاسی جماعت کی تنظیم اور نشوونما بہت مشکل کام ہے۔اس سلسلے میں تمام مجبوریوں اور بندشوں کا احتساب ضروری ہے لیکن ان تمام مشکلات کے باوجودجو کہ اس قدم کو اٹھانے پر پیش آئیں گی، ہماری سیاسی زندگی کی موجودہ صورتحال اورہمارے قومی مفاد ہمیں اس راستے کو اختیار کرنے پرمجبورکرتے ہیں۔چاہے اس کے لئے ہمیں انتہائی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے اور اپنا آپ وقف کرنا پڑے۔ صرف اسی راستے کو اختیار کرنے سے قومی یکجہتی اور حب الوطنی کے مفادات کو تقویت پہنچائی جا سکتی ہے۔ــ”

اس روز جو خواب ہم نے دیکھنے کی جسارت کی تھی اس کے سچے ہونے کی امید شاید ہم میں سے بہت سے لوگوں کو بھی نہیں تھی۔ اس روز کے بارے میں لکھتے ہوئے روزنامہ ڈان کے ایک رپورٹر نے لکھا تھا کہ” وہ کنونشن کم اور انڈرگریجویٹ گیٹ ٹو گیدر زیادہ لگ رہا تھا، کنونشن بھگوڑے طلبا، منفرد نظریات رکھنے اور رومانوی سیاست پر یقین رکھنے والوں کی ایک ایسی محفل تھی کہ جس میں کوئی بھی نامور سیاستدان نہیں دکھائی دے رہا تھا”۔ دراصل رپورٹر کے لئے یہ تسلیم کرنا بہت مشکل تھا کہ سرپھرے لوگوں پر مشتمل ایک نئی جماعت اس وقت کے طاقتور ڈکٹیٹر کو للکار سکتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آنے والے وقت نے ثابت کیا ہم نے سر پھرے انقلاب کے اپنے پیغام کو عوام تک اس کامیابی سے پہنچایا کہ اپنی تشکیل کے دو سال بعد ہی پاکستان پیپلز پارٹی مغربی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی۔ یہ ہم سر پھرے لوگوں کا ہی کمال تھا کہ بھٹو کے پیغام کولے کر معاشرے کے ہر طبقے تک گئے اور عوام نے بھی پیپلز پارٹی اور اس کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو مایوس نہیں کیا۔ صرف ستر کے انتخابات ہی نہیں، ستتر میں بھی عوام نے بھٹو کو بھاری اکثریت سے کامیاب کروایا۔ ضیاء الحق نے جب بھٹو کو پھانسی دی تو کوئی بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ اٹھاسی میں عوام پھر سے پی پی پی کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیں گے۔ پھر 2008میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی پیپلز پارٹی کو فتح نصیب ہوئی۔ پارٹی کی بنیاداتنی مضبوط تھی کے ایک لیڈر کے پھانسی چڑھنے ، آمریت کے ظلم سہنے اور پھر ایک اور لیڈر کے قتل کے بعد بھی عوام سے اس کا رشتہ نہ ٹوٹ سکا۔

مگر یہ رشتہ انیس سو اٹھاسی کے بعد پیپلز پارٹی کے مختلف ادوار حکومت میں کمزور ضرور ہوتا گیا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد ” روٹی ، کپڑا اور مکان ” کے نعرے پر رکھی گئی تھی اور اس کا مقصد طاقت کو عوام تک منتقل کرنا تھا۔ یہ درست ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں اس مقصد کے لئے بہت سے اقدامات کئے۔پیپلز پارٹی ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت کے طور پر قائم کی گئی تھی اور ہمارا خیال تھا کہ یہ عام آدمی کی جماعت ہو گی ۔ کیونکہ اس کے قیام کے وقت بھی پنجاب کے جاگیردار اس میں شامل نہیں ہوئے تھے اور سندھ کے جو وڈیرے ساتھ آئے وہ بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نظریات رکھتے تھے۔ مگر پیپلز پارٹی کے مختلف ادوار حکومت میں جب جماعت کی قیادت نے چاہا اینٹی اسٹیبلشمنٹ نظریہ اختیار کر لیا اور جب چاہا اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کر دی۔

جس کی بناپر پارٹی رفتہ رفتہ اس فلسفہ سے دور ہوتی گئی جس پر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 2008 کے بعد اس کا رابطہ عوام سے بھی کم سے کم ہوتا گیا۔ جس جماعت کو ایک لیڈر کی پھانسی، ایک کا قتل ، آمریت کی صعوبتیں ختم نہ کر سکیں ، آصف زرداری کے ایک دور حکومت نے پستیوں میں پہنچا دیا۔

کیا بلاول بھٹو کی زیر قیادت پیپلز پارٹی کبھی دوبارہ اپنے بام عروج پر پہنچ پائے گی ؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینا میرے بس میں نہیں۔ کیونکہ جماعت کا عروج اس کے نظریات اور عوام میں ان نظریات کی مقبولیت پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک جماعت جو خود اپنے نظریہ کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہو ، وہ عوام کو اس پر کیسے قائل کرے گی؟ پیپلز پارٹی کے لئے ” طاقت کا سر چشمہ” عوام تھے ۔۔۔مگر اب شاید یہ، کرپشن اور اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کا ایک قول پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ پر بہت نمایاں کر کے لکھا گیا ہے ، جو پیپلز پارٹی کی موجودہ صورتحال کا عکاس معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاتھا: ” اگر تبدیلی نہیں آتی ، تو تبدیل ہونے کو کچھ نہیں بچے گا۔ اقتدار عوام کو منتقل کر دیا جائے، ورنہ ہر چیز فنا ہو جائے گی” ۔۔۔بلاول بھٹو اگر پیپلز پارٹی کو پھر سے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اس قول پر ضرور غور کرنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

افتخار احمد

بشکریہ روز نامہ جنگ

iftikhar-ahmad has 17 posts and counting.See all posts by iftikhar-ahmad