ہمارے ماں باپ کو گننے والے۔۔۔


25 نومبر 2017 کی صبح اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹر چینج پر میسرز مولوی خادم حسین، پیر افضل قادری و دیگران کے بیس روز سے جاری دھرنے کے خلاف پولیس کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ عدلیہ نے اس کارروائی کا حکم دے رکھا ہے۔ بہادر افواج کے ترجمان نے تین روز قبل واضح کیا تھا کہ دھرنے کے بارے میں حکومت کے احکامات پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ تادم تحریر ایک پولیس اہل کار شہید ہو چکا ہے۔ 200 کے قریب افراد زخمی ہیں۔ مولوی خادم حسین نے منہ پر ماسک پہن لیا ہے۔ یہ علامہ اقبال کی آرزو کی تکمیل ہے۔ حضرت اقبال نے فرمایا تھا، کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند۔۔۔

ملک کے مختلف شہروں میں ہنگامے شروع ہو چکے ہیں۔ لاہور، کراچی اور فیصل آباد سمیت ملک کے بہت سے حصوں میں پولیس اور مظاہرین میں تصادم کی اطلاعات ہیں۔ پیمرا کے حکم پر نجی ٹیلی ویژن چینلز کو کارروائی کی لائیو کوریج سے روکا جا رہا ہے۔ جولائی 2007 کے شہرت یافتہ صحافی نے نئی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تو محض ایک صحافی ہونے کے ناتے شہریوں کو حالات و واقعات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں اپنے فرائض کی ادائی سے روکنا غلط ہے۔ صحافی مذکور نے یہ بتانا مناسب نہیں سمجھا کہ گزشتہ تیس برس میں وہ متواتر ملک کے شہریوں کو بعینہ وہی نظریات اور رجحانات سکھاتے رہے ہیں جو فیض آباد دھرنے والوں کو محبوب ہیں۔ اس صورت میں صحافی مذکور محض اطلاع کنندہ نہیں بلکہ صورت حال کا فریق ہیں۔

ہمارے ملک کی مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور صاحب نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اطلاع دی ہے کہ آرمی چیف محترم جنرل قمر جاوید باجوہ نے ٹیلی فون پر وزیر اعظم کو تجویز دی ہے کہ فیض آباد دھرنے اور ملک کے دوسرے شہروں میں اس دھرنے کے تقویت کاروں کے خلاف تشدد کئے بغیر مسئلہ حل کیا جائے۔ اس ٹویٹ میں دونوں اطراف سے تشدد گریز رویے کی توقع ظاہر کی گئی ہے تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ محترم جنرل قمر جاوید باجوہ نے فریق ثانی سے بھی کوئی رابطہ کیا یا تشدد سے گریز کی تجویز محض حکومت تک پہنچائی گئی ہے۔

خیبر پختون خوا میں اے این پی کے سربراہ افراسیاب خٹک نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ فیض آباد دھرنا ملک میں آئینی بندوبست لپیٹنے کی سازش ہے۔ افراسیاب خٹک چھ برس تک ایوان بالا کے رکن رہے ہیں۔ چارسدہ میں ان پر خود کش حملہ بھی کیا گیا تھا۔ انہیں رموز مملکت سے پوری آگہی ہے۔ وہ یقیناً جانتے ہوں گے کہ خادم رضوی اور ان کے رفقا جیسی پرفتوح ہستیوں کو محض ایسے مفلوج، بے دست و پا اور ناہل آئینی بندوبست کو لپیٹنے کے لئے زحمت نہیں دی جا سکتی۔ لبیک تحریک کے زعما تو کائناتی نصب العین رکھتے ہیں۔ پاکستان جیسے چھوٹے سے ملک کے آئینی بندوبست کو ایسے اندوہ ربا مردان باصفا اپنے جوتے کی نوک پر نہیں رکھتے۔ غالباً خٹک صاحب کی نظر سے وہ فلک بوس بینر نہیں گزرا جو دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنے کے اطراف میں نظارہ دے رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔

اس پر واضح طور پر لکھا ہے کہ جو لوگ فیض آباد دھرنے کے اغراض و مقاصد سے اتفاق نہیں رکھتے ان کی مائیں (زندہ یا مرحومہ) نیک نہیں تھیں۔ نیز یہ کہ ان کے والد (زندہ یا مرحوم) وجود واحدہ نہیں تھے۔ گویا فرمان کے دوسرے حصے میں بھی کلام معجز نظام کا خطاب اختلاف کی جسارت کرنے والے بدنصیبوں کی ماؤں سے ہے۔ علم حیاتیات سے معمولی شدبد رکھنے والے جانتے ہیں کہ جاندار اپنے ماں باپ کا انتخاب نہیں کرتے۔ (علم حیاتیات سے زندگی کے علم کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ غیرت اور دیگر اخلاقی مسائل سے دوچار افراد براہ کرم اسے حیا سے منسوب نہ کریں۔) فانی انسان اپنے محدود علم سے اب تک صرف یہ جان سکے ہیں کہ بچے کی پیدائش میں صرف ایک مرد کو دخل ہوتا ہے۔ البتہ ایسے خوش نصیب دنیا میں موجود ہیں جنہیں اپنے گھر میں ایک کی بجائے دو یا دو سے زائد ماؤں کی شفقت نصیب ہوئی۔ ان میں سے کچھ لوگ فیض آباد میں بیٹھے ہیں اور دوسروں کو بھی اس سہولت سے استفادے کی ترغیب دیتے ہیں۔

آئینی بندوبست کی ضمانت تو ابھی چند روز قبل ہمیں ایک ٹویٹ کے ذریعے دی گئی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کوئی ادارہ ریاست سے زیادہ اہم نہیں۔ اگرچہ کم فہم افراد یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ریاست تو آئین میں بتائے گئے اداروں کے ربط باہم سے مرتب ہوتی ہے۔ کیا ریاست اداروں سے ماورا کوئی مظہر ہے؟ یہی سوال فیض آباد والوں سے پوچھنا چاہیے کہ مذہب کا مقصود انسانوں کا اخلاق بہتر بنانا ہے یا بدزبانی کرنا؟ ہم فانی انسان کسی موثر بہ ماضی طریقہ کار کی مدد سے اپنی ماؤں کو نیک نہیں بنا سکتے اور اپنے باپوں کی تعداد تبدیل کرنے پر قدرت نہیں رکھتے۔ درحقیقت ہمیں اس کارلاحاصل میں کوئی دلچسی نہیں۔ البتہ ہم چاہتے ہیں کہ کسی برخود غلط شخص یا گمراہ گروہ کو ہمارے نجی معاملات میں دخل در معقولات سے روکا جائے۔ اور اگر ایسا کوئی شخص یا گروہ سڑک پر آن بیٹھے تو اس کے منہ میں دانت گنے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).