’جنرل باجوہ سے یہ بھی پوچھ لینا چاہیے تھا کہ آپ بتائیں کیا کریں‘


جنرل باجوہ

پاکستان کی بّری فوج کے سربراہ کی جانب سے فیض آباد میں جھڑپیں شروع ہونے کے بعد ایک بیان میں اس معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے بیان پر ماہرین کا کہنا ہے کہ انھیں پہلے ہی اس معاملے میں دلچسپی دکھانی چاہیے تھی۔

سنیچر کو فیض آباد میں پولیس کی کارروائی شروع ہونے کے کئی گھنٹے بعد پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ آرمی چیف نے وزیر اعظم سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پرتشدد کارروائیاں کسی طور پر بھی ملکی مفاد میں نہیں ہیں۔

تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت گذشتہ 19 دن سے پرامن حل کی کوشش کر رہی تھی اور اگر معاملہ بات چیت سے حل نہیں ہوتا تو کیا کیا جاتا۔

انھوں نے کہا کہ جنرل باجوہ نے پرامن حل کی بات کی ہے’تو وزیراعظم کو جنرل باجوہ سے یہ بھی پوچھ لینا چاہیے تھا کہ آپ بتائیں کیا کریں‘۔

ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق حکومت تو کہہ رہی ہے کہ ہائی کورٹ کے کہنے پر فیض آباد کو خالی کرا رہے ہیں اور ہم عدالت کا کام کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس معاملے پر فوج کو دلچسپی پہلے لینی چاہیے کیونکہ ’آج جو کچھ ہوا ہے اس کے بعد بات چیت کی گنجائش نہیں ہے اور اگر فوج اب اس صورتحال میں مدد کرنا چاہتی ہے تو کرے اور مولویوں پر دباؤ ڈالے‘۔

اگست 2014 میں اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر جب عمران خان اور طاہر القادری نے وزیراعظم ہاؤس کی جانب مارچ شروع کیا تو جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، اس پر بھی فوج نے فریقین پر زور دیا تھا کہ بات چیت کے ذریعے معاملہ حل کریں۔

اور سنیچر کو بھی جب حکومت نے کارروائی شروع کی تو اس کے کئی گھنٹوں بعد فوج کی جانب سے معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دیا گیا۔

اس قسم کی صورتحال کے دوران فوج کی جانب سے بیان کے بارے میں ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ’یہ گِھسے پٹے قسم کے بیان ہوتے ہیں کہ پرامن طریقے سے معاملہ حل کیا جائے، یہ تو سب ہی کہتے ہیں، حکومت 20، 21 دن سے کوشش کر رہی تھی اور آج صبح تک اس کو مذہبی رہنماؤں اور بہت سارے پیروں کی مدد سے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور جب ایسا نہیں ہوا تو پھر وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم نے ہائی کورٹ کے حکم پر دھرنے کو ہٹانے کے لیے کارروائی شروع کی ہے۔

’اگر ان کو اس معاملے میں اتنی ہی دلچسپی تھی تو انھیں پہلے ہی اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے کوشش کرنی چاہیے تھی اور یہ مسئلہ حل ہو سکتا تھا‘۔

اسلام آباد کارروائی

انھوں نے کہا کہ حکومت کے پاس بھی موقع تھا کہ وہ فوج کو بلا لیتی کیونکہ عام طور پر فوج کے آنے پر فسادی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

تاہم لیفٹٹینٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا اور ان کے مطابق ’اس بیان کو اس نظر سے دیکھا جا سکتا ہے کہ ’بہت ممکن ہے کہ فوج نے دھرنا دینے والوں کو پہلے پیغام دے دیا ہو کہ اس معاملے کو اب پرامن طریقے سے حل کریں اور اس کا کافی اثر پڑا ہو گا اور اب اگر سول حکومت بات چیت کرتی ہے تو وہ ممکن ہے کہ لچک دکھائیں‘۔

تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق حکومت کو مزید انتظار کرنا چایے تھا اور اگر کارروائی کرنے ہی تھی تو اس سے پہلے اداروں سے مشاورت کرتی۔

انھوں نے بھی ڈاکٹر مہدی حسن سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’فوج کی جانب سے آج بیان آنے سے زیادہ اچھا یہ ہوتا کارروائی سے پہلے وزیراعظم، آرمی چیف اور دیگر افراد ایک ساتھ بیٹھ کر اس بارے میں مشترکہ حکمت عملی بناتے‘۔

انھوں نے کہا کہ ’اس کے ساتھ حزب اختلاف کو بھی بلایا جاتا اور آپریشن کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں پوری قومی قیادت کے طور پر فیصلہ لیا جاتا ہے۔ اب آپریشن شروع کر دیا گیا ہے تو اس کے نتائج کو کون بھگتے گا‘۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان بہت ہی عجیب ملک ہے جہاں ہر سیاسی جماعت اور ادارے کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور ان مفادات کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

’ہو سکتا ہے کہ عباسی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کئی لوگوں یا کسی ادارے کا ہاتھ ہو، لیکن حکومت یہ تو کر سکتی ہے کہ سب اداروں کو ایک ساتھ بیٹھاتی اور مستقبل کے بارے میں بات کرتی جس میں اگلے انتخاب کی بات بھی ہونی چاہیے‘۔

سہیل وڑائچ کے مطابق ’اس کارروائی کی سیاسی تعبیر یہ ہے کہ اگر حکومت نے اتنے دن انتظار کیا تھا تو کچھ اور کر لیتی لیکن اب یہ لگتا ہے کہ موجودہ معاملہ مزید بگڑ جائے گا اور حکومت کے لیے بڑا خطرناک ہو گا اور ہم پھر ایک نئی صورتحال کی جانب بڑھیں گے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp