بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔ ۔ ۔


مسٹر شفقت ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ایک نئی فرم، جس نے اپنے کاروبار کا آغاز ہی کیا تھا، وہاں ان کو نوکری پہ رکھ لیا گیا۔ کام کی نوعیت کیا تھی، بس اتنا سمجھ لیجیے کہ اس فرم میں جو جتنا چرب زبان ہوگا اس کو اتنی ہی ترقی دی جائے گی۔

پہلے چھوٹی پوسٹ پہ تھے پھر کچھ اپنی صلاحیتوں سے اور زبان درازی کے فن سے آگے بڑھتے گئے۔ اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے کا ایک اور شارٹ کٹ یہ نکالا کہ ہر فن مولا بن جائیں، سیاسی امور بھی انجام دینے لگے، دین کی تبلیغ بھی شروع کر دی پھر ساتھ ساتھ لوگوں کو تفریحات بھی فراہم کرنے لگے۔ جب پانی اور بجلی سے محروم اور مہنگائی کے ڈسے ہوئے عوام میں موٹر سائیکلیں بانٹنے لگے تو مقبولیت میں اور اضافہ ہوا، ساتھ ہی کمپنی کی ساکھ بھی مارکیٹ میں بلند ہو گئی۔

دوسری کمپنیوں کو بھی شوق ہوا کہ کام کے بجائے ذرا نام بھی کمایا جائے اور نام بن جانا پیسے کی آمد کا ہی خوش آئند سبب ہوتا ہے تو شفقت صاحب کو دھڑا دھڑ اپنے ہاں ملازمت کی آفر دینے لگیں، جو کہ انہوں نے بخوشی قبول کی اور کیوں نا کرتے، اس سارے فن سے ہی تو ان کی دکان چمکنی تھی۔ بس پھر کیا تھا کبھی کسی کمپنی کے ساتھ تو کبھی کہیں اور نظر آتے اور پھر کچھ دنوں بعد اپنے پرانے رقیبوں کے ساتھ حب الوطنی کے گیت گاتے نظر آتے۔ پھر اچانک سے کاروبار کی دنیا میں ایک نئے نام کی گونج سنائی دیے جانے لگی اور حیرت انگیز طور پہ اس نام نے ”حب الوطنی“ کے ساتھ لوگوں کی زندگیاں بدلنے کا دعویٰ کر دیا۔

اب ہر چھوٹا بڑا چرب زبانی کا ماہر خواہش کرنے لگا کہ مارکیٹ میں آنے والا نیا نام اس کو گود لے لے اور اس کے گال بھی خوشی سے لال ہو جائیں۔ لیکن بد قسمتی سے لال لال گالوں پہ کالا نظر کا ٹیکہ لگا دیا گیا جس نے الٹا ہی کام دکھایا اور اس نئے نام کی چلتی ٹرین کو بریک لگا۔ کچھ عرصے بعد جب ریلوے ماسٹر نے ہری جھنڈی دکھا دی تو ٹرین رواں دواں ہوئی چونکہ بڑے بڑے مددگار جو اس ٹرین کو رفتار دینے میں مصروف تھے وہ منہ موڑ چکے تھے لہذاٰ اس بار شفقت صاحب کی خدمات لینے کا سوچا گیا۔

اتنی اچھی سہولتوں اور آسائیشوں کو بھلا کون منع کرتا۔ جھٹ پٹ اب شفقت صاحب کا نام اس نئے نام سے جڑ گیا۔ اب تو جیسے ان کی زبان کو ایک خاص لائنس مل گیا ہو کیا کیا ان کی چرب زبانی کےفن کے مظاہرے ہوئے اور لوگوں نے ان کو خوب سراہا کیونکہ انھوں نے ایسے ایسے رازفاش کیے جن میں دادی جان سے لے کر پپو تک اور ابو سمیت سب کے لئے انتہائی حیرت انگیز دلچسپی کا سامان موجود تھا۔ اب ایسا لگتا تھا کہ اس ادارے سے ان کا تعلق امر ہو گیا ہے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں بھی کھا لی گئیں، اپنے اس تعلق کو اور مضبوط بنانے کے لئے عوام الناس کا سہارا لیا گیا اور ان کو اونچی اڑان کے خواب بھی دکھائے گئے۔

پھر ایک دن اچانک کاروباری دنیا میں پھر بھونچال برپا ہوا اور تیزی سے مارکیٹ میں خبر گھومی کہ شفقت صاحب کی پھر سے طبیعت ناساز ہو گئی اور منسلک ادارے کے تیمار داری نا کرنے کے باعث ان کے درمیان دوریاں پیدا ہو گئیں۔ عوام الناس کا ایک طبقہ تو خاص حیرت کا شکار ہوا مگر دوسری جانب کاروباری دنیا کے لوگوں نے اس کو حسبِ توقع قرار دیا۔ لوگوں کو پھر سے رات کی بیٹھک میں مصالحے دار چائے کے ساتھ چٹخارے دار موضوعِ بحث مل گیا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں وہ علاج کے حقدار ٹہرے جب کہ کچھ کہ خیال میں وہ شاہ کے وفادار ثابت ہوئے۔ اب ہر وہ ادارہ ان کی جانب پھر سے لپکے گا جس کو ان کا سہارا لے کے عوام میں سنسنی پیدا کر کے اپنا نام اونچا کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ تو طے ہے کہ شفقت صاحب سے زیادہ منجن بیچنے کا فن شاید ہی کسی کو آتا ہو۔ نئی کہانیاں بنائی جائیں گی۔ نئے کرداروں کو متعارف کیا جائے گا۔ انداز بھی نیا ہوگا بس ہوگی تو وہ ہی پرانے عوام جو شفقت صاحب کے رچنے بسنے کی دعاؤں میں اثر رکھنے کی دعا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).