خادم حسین، میرے ننھے اور یو ٹیوب کی انوکھی تکون



اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کا بہت ساری عام عورتوں کی طرح میں نے بھی کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ مظاہرین کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کو معمول کی کارروائی جان کر نظرانداز کردیا، فوج کی تعیناتی پر بھی میں بے خبر بنی بیٹھی رہی، مختلف شہروں میں ہونے والے ہنگاموں کی خبریں سرسری پڑھ کر پھر کاموں میں لگ گئی۔ بھلا یہ کو ن سی نئی بات ہے! اس ملک میں ایسا ہونا تو معمول ہے۔ یہ سوچ کر خود کو معاملاتِ زندگی میں الجھا لیا۔ لیکن میں بے وقوف تھی، جو یہ سمجھ بیٹھی کہ باہر لگی آگ گھر کے اندر نہیں پہنچے گی۔

اُف! ایک قیامت تھی جو ملکی حالات کے ردعمل میں اسی شام میرے گھر میں برپا ہو گئی۔ ٹی وی چینل اور فیس بک کی تو خیر ہے، لیکن یو ٹیوب بھی بند کردی گئی، آخر کیوں؟ اب میں تھی اور جنونیوں کی طرح مجھے نوچتا کھسوٹتا میرا دو سالہ بیٹا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح اسے تھوڑا بہت ہی سہی خادم حسین کا نظریہ سمجھا سکوں، کہ اسے کچھ تو قرار آئے لیکن اس کا وہی ایک رونا کہ کارٹون ہی دیکھنا ہے۔ میں پوری دوپہر اسے لے کر بالکنی میں کھڑی رہی اور موقع تلاش کر کرکے اسے ملکی سیاست کے اسرار و رموز سمجھاتی رہی، وہ روتے روتے اپنی بہتی ناک میرے کندھے سے رگڑتا رہا اور اپنے ناسمجھ ہونے کا بے ہنگم سا ثبوت دیتا رہا۔ اپنی بات پر اڑا، روتا ہوا وہ ایک لمحے کو خادم حسین لگنے لگا اور مجھے جھرجھری سی آگئی۔

ان دو دنوں میں میرا مسئلہ نہ خادم حسین رہا اور نہ اس کے پیروکار۔ مسئلہ تو یہ تھا کہ کب یوٹیوب پر سے پابندی ہٹے گی اور کب میری جان کی خلاصی ہوگی۔ اللہ اللہ کر کے پہلے چینلز کی نشریات بحال ہوئیں پھر یو ٹیوب سے بھی پابندی اٹھا لی گئی۔ مجھے یہ جاننے سے کوئی دل چسپی نہیں تھی کہ خادم حسین کا سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھا، بس جلدی سے خوش آمدید یوٹیوب کا نعرہ بلند کرکے بیٹے کو گود سے پٹخ دیا۔ اس کے چہرے پر ایسی فاتحانہ مسکراہٹ تھی جو مطالبات منظور ہونے پر خادم حسین کے ہونٹوں پر بھلا کہاں آئی ہوگی۔

میرے بیٹے نے فوراً کارٹون لگایا اور میں نے ٹیکنالوجی کا شکریہ ادا کیا جس کی وجہ سے کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو کم از کم بچے پالنا ضرور آسان ہو گئے۔ یہ الگ بات کہ خادم حسین کی وجہ سے دو دن میں ہی مجھے پتا چل گیا کہ بچے پالنا مشقت کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ لیکن پیمرا کی احسان مند ہوں کہ اس نے مجھ جیسی ماؤں کو دو دن سے زیادہ پریشان نہیں ہونے دیا۔ یہ دو دن میں ایسے یاد رکھوں گی جیسے پاکستانی تاریخ کے صفحات خادم حسین کو یاد رکھیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ خادم حسین کے اچانک ظہور سے حکومتی ارکان بھی ایسے نہیں ہولے ہوں گے جیسے یو ٹیوب کے اچانک بند ہو جانے سے ہم ماں بیٹا بولا گئے۔ پہلے سے علم ہوتا تو یو ٹیوب سے بچے کی پسند کے سو ڈیڑھ سو کارٹون بالکل ایسے ہی ڈاؤن لوڈ کر کے رکھ لیے جاتے، جیسے خادم حسین نے دھرنے کے لیے کارکن جمع کر کے رکھے ہوئے تھے۔

بیٹے اور یو ٹیوب کا ٹوٹا ہوا ناتا پھر سے بحال ہوا تو میری جان میں جان آئی۔ لیکن ننھے نے یوٹیوب کے حق میں دو دن جو مظاہرہ کیا اس کے نتائج پورے گھر میں میرا منہ چڑا رہے تھے۔ وہ تو لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے اپنے پسندیدہ کارٹون میں محو ہوچکا تھا لیکن میں جلے ہوئے دل کے ساتھ ان مہنگی مہنگی کھلونا گاڑیوں کو دیکھتی رہی جن کا اس نے بگڑے ہوئے موڈ میں وہ حشر کیا تھا جو خادم حسین کے مریدوں نے اصلی گاڑیوں کا بھی نہ کیا ہو گا۔ گھر میں سارا سامان یوں بے ترتیب ہو چکا تھا جیسے ابھی یہاں سے مظاہرین اٹھ کر گئے ہوں۔ پرس میں جھانکا تو وہ ننھے کو بہلانے کے چکر میں لائی جانے والی چیزوں کے اخراجات سے خالی ہو چکا تھا۔ ننھے کو کون سمجھاتا کہ پیسے بہت محنت سے کمائے جاتے ہیں خادم حسین کی طرح بیٹھے بٹھائے کہاں ملتے ہیں؟ لیکن اس کو سمجھانا بے سود تھا۔ جس کو سمجھنا ہی نہ ہو اس کو کسی بھی عمر میں سمجھانا بے سود ہی رہتا ہے، ننھا تو پھر ننھا ٹھہرا!

وہ تو شکر ہے مظاہرین کے دھرنا ختم کرنے سے پہلے ہی چینل اور سوشل میڈیا پر سے پابندی اٹھا لی گئی۔ دو دن کے تھکے ہارے جب گھروں کو لوٹیں گے تو ان کو بھی تو سامانِ تفریح و لذت درکار ہو گا ناں! وہ بھی پاؤں پھیلا کر ٹیک لگا کر مطمئن آنکھیں اسکرین پر گاڑکر ایسے ہی لطف اندوز ہوں گے جیسے اس وقت یو ٹیوب پر میرا ننھا کارٹون سے لطف اٹھا رہا ہے۔ اور ریاست کتنے ہی دنوں تک ان کا پھیلاوا اسی طرح سمیٹ رہی ہو گی جیسے اس وقت میں اپنا گھر سمیٹ رہی ہوں۔ ان دو دنوں میں بس ایک ہی بات سوچ کر دل کو راحت ملتی رہی کہ ابھی میرے ننھے نے فصاحت سے بولنا نہیں سیکھا۔ ورنہ اگر وہ خادم حسین کی طرح گالیوں کی بھی برسات کر دیتا تو میں کہاں جاتی، شہر کے سارے راستے تو کنٹینروں سے بند تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).