’میں پہلے جہادی تھی اب جہاد کے خلاف ہوں‘


تانیا جورجلیس

شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے امریکی جنگجو کی سابق اہلیہ تانیا جورجلیس کی ملاقات اپنی سابق شوہر جان جورجلیس سے انٹرنیٹ پر ہوئی تھی۔ امریکی ریاست ٹیکسس میں رہنے والے جان نے اسلام قبول کر لیا تھا اور دونوں مذہبی عقیدوں کی وجہ سے ہی ایک دوسرے سے ملے تھے۔

جان، تانیا اور اپنے بچوں کو شام لے گیے تھے جہاں سے تانیا کسی طرح واپس لوٹ آئیں تھیں۔ 33 سالہ تانیا کے تین بیٹے اب ٹیکسس میں اپنے دادا دادی کے ساتھ رہتے ہیں۔ جان شام میں لڑ رہے تھے۔ اب ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ تانیا اب ٹیکسس میں رہتی ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی سابق جہادیوں کی بحالی اور شدت پسند خیالات کے خلاف مہم کے نام کر دی ہے۔

تانیا جورجلیس

تانیا کی داستان

میرا نام تانیا جورجلیس ہے۔ میں ایک دہائی سے زیادہ مدت تک اسلامی شدت پسند تھی۔ میرے سابق شوہر دولت اسلامیہ کے ایک مرکزی جنگجو تھے۔ اور اب میں ان کے خیالات کے خلاف لڑ رہی ہوں۔

جب میں 17 برس کی تھی تو مذہب کی طرف راغب ہوئی۔ میں اپنی شناخت بدلنا چاہتی تھی۔ میں صرف تانیا بن کر نہیں رہنا چاہتی تھی۔ بلکہ ایک ایسی لڑکی بننا چاہتی تھی جو پاک ہو اور جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ مجھے لندن کا ایک اسلامی گروپ مل گیا تھا۔

لندن میں میں ایسے کئی گروپوں کے ساتھ جڑی رہی جو مسلمانوں کے لیے کام کرتے تھے۔ ہمیں مسلمانوں پر تشدد کی تصاویر دکھائی جاتی تھیں۔ یہ سب دیکھ کر ہمیں لگتا تھا ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔

ہمیں لگتا تھا کہ یہ ہمارا فرض ہے۔ میں القاعدہ، طالبان اور ایسی دیگر تنظیموں کی طرف امید سے دیکھتی تھی۔ مجھے لگتا تھا وہ مسلمانوں کی حفاظت کے لیے کچھ کر رہے ہیں۔

تانیا جورجلیس

سنہ 2005 میں سات جولائی کو لندن میں ہونے والے حملے میرے خیال میں درست تھے۔ میری ایک دوست ان حملوں میں ہلاک ہو گئی تھی۔ حالانکہ مجھے لگا کسی کی جان اتنی کم عمر میں نہیں جانی چاہیے۔ لیکن پھر بھی میں ان حملوں کو درست مانتی تھی۔

آن لائن میرا رابطہ جان جورجلیس سے ہوا اور ہم نے شادی کر لی۔ وہ بہت سمجھدار تھے اور میرا پہلا پیار تھے۔ ہم شدت پسد خیالات والے لوگ تھے۔ میں اپنے بیٹوں کی ایسے پرورش کرنا چاہتی تھی جس سے وہ بڑے ہو کر مجاہد بنیں۔ میں چاہتی تھی میرے بچے مسلمانوں کی فلاح کے لیے کام کریں۔

سنہ 2011 میں عرب سپرنگ کے بعد ہم اپنے بچوں کی بہتر پرورش کے لیے مصر چلے گئے۔ لیکن میرے دل میں شک پیدا ہونے شروع ہو گئے۔ ایک دن میرا بیٹا گرنیڈ لے کر گھر آ گیا۔ مجھے یہ دیکھ پر بہت غصہ آیا۔ میں نے باورچی خانے سے چاقو اٹھایا اور جان کی طرف تان دیا۔ میں نے اس سے کہا دوبارہ میرے بچوں کو کچھ ایسا نہیں سکھانا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے بچھے بندوق یا چاقو کے قریب بھی جائیں۔

میں جب چوتھے بچے کے ساتھ حاملہ تھی تب ہم رہنے کے لیے شام چلے گئے۔ ہم ان گھروں میں رہ رہے تھے جنھیں لوگ چھوڑ کر چلے گیے تھے۔ جن کی کھڑکیاں گولیوں سے ٹوٹ چکی تھیں۔ رات بھر گولیوں کی آوازیں آتی تھیں۔

تانیا جورجلیس

مجھے لگ رہا تھا کہ میری شادی ختم ہو رہی ہے۔ اس وقت وہ ہی میری زندگی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں۔ میں نے جان سے گزارش کی کہ وہ شام چھوڑ کر چلیں۔ وہ مجھے اور بچوں کو شام سے باہر بھیجنے کے لیے تیار ہو گئے۔

عمارتوں کے اوپر نشانہ باز تیار کھڑے تھے۔ میں کسی طرح اپنے بچوں کو لے کر وہاں سے باہر نکل سکی۔ وہ سفر بہت خوف ناک تھا۔

اب میں جان کے ساتھ رابطے میں نہیں ہوں۔ اپنے آخری پیغام میں انھوں نے مجھے اور بچوں سے معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اگلے چھ ماہ کوئی پیغام نہ آئے تو سمجھ لینا کہ میں مر گیا۔ انھوں نے بتایا تھا کہ لڑائی دھیرے دھیرے ان کے علاقے کی طرف بڑھ رہی ہے اور انھیں لڑتے رہنا ہے۔

جارج اور تانیا

میں اب امریکہ واپس آ گئی ہوں۔ مجھے اب دوسرے مذاہب کے بارے میں پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ میں اب آزادی سے سوچ سکتی ہوں۔

اب جب میں پرانی تصاویر دیکھتی ہوں تو مجھے بہت برا لگتا ہے۔ میں اپنے بچوں کے بارے میں زیادہ پریشان ہوتی ہوں۔ میں نے اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔

میں نے جو کچھ کیا اس پر مجھے بہت افسوس ہے۔ اب جب میں اپنے بچوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو لگتا ہے کہ کاش میں نے انھیں ایک بہتر زندگی دی ہوتی۔

جان جورجلیس

امریکہ نے مجھے دوسرا موقع دیا ہے اور وہ اس لیے کیوں کہ میں نے خود کبھی تشدد میں حصہ نہیں لیا۔ انھیں بھی لگتا ہے کہ مجھے اپنی غلطیوں کا احساس ہے۔

میں اب ایک ایسا کیریئر چاہتی ہوں جس میں میں ایسے لوگوں کی بحالی میں مدد کروں جو پہلے شدت پسند تھے۔ انھیں ایسے مدد کروں کہ وہ دوبارہ معاشرے کا حصہ بن سکیں۔

جان جورجلیس

مجھے لگتا ہے کہ جہادیوں کو بھی سنے جانے کی ضرورت ہے۔ ہم نہیں جانتے ہیں کہ وہ جو کر رہے ہیں اس کے لیے ان کے پاس کیا جوابات ہیں۔ ان کی وجوہات کتنی ہی فضول کیوں نہ ہوں لیکن انھیں سننا ضروری ہے۔ اگر ہم انھیں جانیں گے نہیں تو انھیں جواب کیسے دیں گے۔ جنگ، تشدد اور جہاد کے خیالات سےصرف علم کی مدد سے ہی لڑا جا سکتا ہے۔ علم ہی ان خالات سے لوگوں کو آزاد کر سکتا ہے۔

میں نے ان خیالات کی وجہ سے اپنا خاندان کھو دیا اور اپنا گھر گنوا دیا۔ اپنی زندگی کے دس قیمتی برس ضائع کر دیے۔ کیا کوئی بھی لڑکی ایسی صورت حال میں ہونا چاہے گی؟

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp