سکینہ واپس دے سکتے ہیں؟


صبح ہی سے اس خشک موسم کے باعث عجیب سا سکوت چھایا ہوا تھا۔ یوں بھی جمعے کے دن زرا چہل پہل دوپہر کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ دن میں بیٹی اسکول سے آئی تو روز کی طرح اسے وی آئی پی پروٹوکول دیتے ہوئے کھانے میں پسند نا پسند پوچھی اور خوب لاڈ اٹھائے؛ جیسا کہ سب مائیں اپنے کنڈرگارٹن کے بچوں کے اسکول سے واپسی پر اٹھاتی ہیں۔ اس کے بعد نہلانا دھلانا، ہوم ورک کروانا اور پھر دن ڈھل جائے تو تھوڑا کھیل لیا یا کارٹون دیکھ لیا۔ لڑکے بین ٹین دیکھتے ہیں اور چھوٹی بچیاں عموما ایسے کارٹون دیکھتی ہیں جو تشدد سے بلکل عاری ہوں۔

بیٹی کو باربی کے کارٹون میں محو دیکھ کر مجھے بچپن کا ایک قصہ یاد آیا، جب ایک بار اپنی پریوں کی دنیا میں کھیلتے کھیلتے تھوڑا سا آگے نکل گئی۔ ایک تاریک اور گہرا جنگل جہاں دن میں بھی اندھیرا تھا اور کہیں دور سے جارحیت پرست بھیڑیوں کے جھنڈ نے کسی کمزور جانور پر وحشیانہ حملہ کر کے اس کو لہولہان کر دیا تھا۔

دوسری طرف کیا دیکھا کہ کچھ جثیم گینڈے اپنے سینگ سے ہرن کے بچے کا شکار کرتے ہوئے اسے گھسیٹ رہے ہیں۔
زرا آگے نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ ایک جنگلی خنزیر کا جھنڈ مسلسل ہلکی تیز آواز پیدا کر رہا تھا۔

لیکن میرا خود سے سوال یہ تھا، کہ اتنا پرانا قصہ جو بچپن کی ہری شیشی میں مقید تھا اور یادوں کے سمندر کی تہہ سے جا لگا تھا آج کیوں کر یاد آیا؟ تو جواب میں اس معصوم چار سالا سکینہ کا چہرہ گھوم گیا جسے کی وِڈیو فیس بک پر دیکھی اور دل کٹ سا گیا۔ سکینہ بھی پریوں والے کارٹون دیکھتی ہوگی۔ اگر ڈرتی ہوگی تو صرف جانوروں سے یا جن بھوت کی باتوں سے۔ اسے صرف یہ معلوم ہوگا کہ جان کو خطرہ صرف ان دوسری مخلوق سے ہوتا ہے انسانوں سے نہیں۔

دن تمام ہوگیا، اس کی ماں کے درد سے میرا اپنا دل مسلسل بوجھل ہوا جا رہا ہے۔ کہاں وہ دندناتی ہوئی تیز رفتار مسافر بس اور کہاں اس ننھی پری کا چڑیا سا وجود۔ اس بچی کے ساتھ ایک ماں کی ممتا، اس بس کے پہیے تلے کچل دی گئی۔ سکینہ کا سوچتے سوچتے اس بس ڈرائیور کا خیال آیا، پتا نہیں اس کے اپنے بچے بھی ہوں گے یا نہیں کہ جن کا سوچ کر وہ دوسروں کا خیال کرلیتا؟ اسے عبرتناک سزا ملے گی یا نہیں؟ سزا سے بچ بھی گیا تو اس ماں کی بے تحاشا چیخوں اور سسکتی ہوئی آہوں سے بچ پائے گا جس کے جگر کا ٹکڑا اس ظالم نے اپنی جلد بازی میں روند دیا؟

بچپن میں جس خنزیر کے جھنڈ سے خوف آتا تھا وہ ایک بار پھر نظروں میں گھوم گیا کہ دیکھوں کون زیادہ بے رحم ہے۔ جنگلی جانور یا اشرف المخلوقات۔

معلوم ہوا کہ اب تو ایسے شقی القلب جھنڈ ہمارے معاشرے کے نہ جانے کس کس کونے میں موجود ہیں۔ وہ تو پھر بھی جنگل تھا۔ بچپن میں جنگلی جانوروں سے جس قدر خوف آتا تھا اب اس سے کہیں زیادہ انسانوں کے کچھ گروہوں سے آتا ہے۔

یوں بھی بچپن میں ایسی مخلوق کے بارے میں زیادہ جانکاری بھی نہیں ہوتی تھی۔ اور پہلے وقتوں میں بتایا جاتا تھا کہ اس جانور کا نام لینے سے چالیس دن تک زبان ناپاک رہتی ہے۔ مگر اب یہ خرافات پرانی ہوگئیں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ کون جانے گائے کھائی ہے گدھا کھایا یا سور۔

زرا بڑے ہونے پر معلوم ہوا کہ خنزیر دوسرے بہت سے جانوروں کی طرح ایک چوپایا ہے، مگر نجس ہے۔ ہمارے ملک میں کچھ عرصہ پہلے تک تو اسے صرف بطور گالی استعمال کیا جاتا تھا، لیکن اب ملک کے کچھ حصوں میں اس کے گوشت کے استعمال کے بھی شواہد ملے ہیں۔ یقینا استعمال کے ساتھ معاشرے میں اس جانور کے بارے میں معلومات میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے۔ جیسا کہ خنزیر آواز اور گندگی کے علاوہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ ان کی (خوف) ناک زمین کھود کر اپنے لیے خوراک تلاش کرنے کے کام آتی ہے۔

سب سے اہم بات ان کے بارے میں جو آج کل ہمارے نرسری کے بچے بھی جانتے ہیں کہ ”پگ“ یا ”ہاگ“ کیچڑ میں کھیلتے ہیں اور کیچڑ اچھالتے ہیں۔ ان میں سے کچھ بہت چالاک اور کچھ عیار ہوتے ہیں، جبکہ ایک جدید مغربی تحقیق کے مطابق کچھ قنوطیت اور باقی خوش امید طبیعت کے حامل ہوتے ہیں۔ ویسے تو کچھ پالتو سور امن پسند ہوتے ہیں، لیکن بعض اوقات ان کے اپنے بچے ہی ان کے پیروں تلے کچل کر مرجاتے ہیں۔

اگر آپ کو اس جنگل کی یادداشت اور خنزیر کی صفات پڑھ کر ہمارے معاشرے سے مشابہت دکھائی دے، تو اندازہ لگائیں کہ ہم جسے اسلامی معاشرہ کہتے ہیں کیا وہ واقعی اب مہذب معاشرہ کہلانے کے قابل ہے؟ یا اس دہشتناک جنگل کی عملی تفسیر؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).