احساس ختم تو سب ختم


2008ء میں برطانیہ کے ایک چھوٹے سے قصبے کی ایک بڑی سی جامعہ میں، ایک وفاقی وزیر تشریف لائے۔ ویسے تو ہمیں کبھی ان سے ملاقات کا شرف نصیب نہ ہوتا، چونکہ اس جامعہ میں پاکستانیوں کی تعداد خاصی کم تھی اس لئے ہمیں بھی شرف قبولیت بخشا گیا۔ باقی باتیں تو بھول گئیں، لیکن ایک بات یاد ہےکہ وفاقی وزیر نے بڑے درد ناک انداز میں فرمایا۔

”پاکستان کو اس حال میں پہنچانے میں ہم سب کا کردار ہے۔ آج پاکستان میں حالات بہت خراب ہیں لیکن میں ایک امید کی کرن دیکھ رہا ہوں۔ میں آپ لوگوں کو دیکھتا ہوں اور سمجھتا ہوں آپ پاکستان کو بہتری کی طرف لے جائیں گیں۔ دیکھیں ناں، حالات اس سے زیادہ تو خراب نہیں ہو سکتے نا؟ اب چیزیں بہتری کی طرف کی جائیں گی۔ ان شا اللہ“۔

یہ لگ بھگ دس سال پرانی بات ہے۔ نہ جانے کیوں ہم بھی کچھ پراُمید ہوگئے، کہ واقعی اس سے زیادہ ”راک باٹم“ کیا ہو سکتا ہے۔ ملک میں خود کش حملے عام تھے۔ مشرف صاحب ملک کا جتنا جنازہ نکال سکتے تھے، اس سے بھی دو ہاتھ زیادہ نکال چکے تھے۔

ہمیں جمہوریت سے کچھ امید سی تھی۔ کچھ یقین سا تھا کہ شاید اپنی غلطیوں سے قوم نے سبق سیکھ لیا ہو۔ لیکن ہمیں نہیں پتا تھا پاکستان کا ”راک باٹم“ ماریانا ٹرنچ سے بھی گہرا تھا۔ 2010ء میں وطن واپسی ہوئی۔ ایک دن ٹی وی کے آگے بیٹھے سیالکوٹ میں مارے جانے والے دو بھائیوں کی خبر نشر ہوئی۔

نیوز چینلوں نے ریٹنگ کے چکر میں کچھ سینسر نہ کیا۔ دو چار منٹ میں وہ کچھ دیکھ لیا، جو ساری عمر کے لئے دل پر نقش ہوگیا۔ یقین نہیں آیا کہ اس ملک کے لوگ نہ صرف ایسی حرکت کرسکتے ہیں، بلکہ اس کے لئے تاویلیں بھی ڈھونڈسکتے ہیں

وہ تو پہلا قطرہ تھا، پھر ایک کے بعد ایک ایسی ایسی خبریں سنیں اور دیکھیں، کہ عقل ٹھکانے پر آ گئی۔ امپورٹ ہوئی ساری امیدیں ایک ایک کر کے دم توڑنے لگیں۔ کسی نے کہا دنیا میں جو تبدیلی دیکھنا چاہتے ہو، وہی بن جاؤ۔ ہم نے کہا چلو اور کچھ نہیں یہ سہی۔ بچوں کو سکھایا کہ کسی سے مذہب، رنگ، نسل کی بنیاد پر نفرت نہیں کرنا۔ گاڑی سے کوڑا باہر نہیں پھینکنا، دنیا کو اچھی جگہ بنانا ہے۔

ایک دن پانچ سال کی بیٹی گھر آ کر پوچھتی ہے کہ اماں فلاں فرقے کے لوگ کا فر ہوتے ہیں؟ میں نے دل تھام لیا۔ کس نے کہا؟ کہنے لگی میری سب دوستیں کہتیں ہیں۔ بیٹا گھر آ کر کہنے لگا، آپ کہتی ہیں باہر کوڑا نہیں پھینکنا وین والے انکل کہتے ہیں، میری گاڑی میں خبردار گند ڈالا۔ میں نے رپیر بیگ میں ڈالا تو بچے میرا مذاق اڑانے لگے۔ بچوں کو کہا سیٹ بیلٹ پہن کر گاڑی میں بیٹھنا ہے۔ پر امی وہ سامنے والے انکل تو اپنے بیٹے کو اپنی گود میں بٹھا کر گاڑی چلاتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا تو کہتے ہیں بیٹا تمھارے ابّو تو ڈرپوک ہیں۔ ہاہا۔

گھر میں ملازمہ رکھی تو ایک دفعہ محلے کے ایک گھر میں بھیجا ہوا کھانا یہ کہ کر واپس ہو گیا، ان کے گھر کھانا عیسائی عورت پکاتی ہے۔ اگر کوئی قانون کی پاسداری کررہا ہے چپ کرکے سر جھکائے اپنا کام کرتا جاتا ہے تو کہہ دو بے چارہ شریف آدمی ہے۔ شرافت کو گالی بنا دو، انفرادی سطح پر خود بھی کچھ نہیں کرنا اور کوئی کر رہا ہو تو اس کو اتنا زچ کردو، کہ وہ یا تو وہ کام چھوڑ دے یا خاموش ہو کر کرتا جائے، کسی اور کو تبلیغ نہ کرسکے۔

یہاں محبت پھیلانے کی کوشش ہو رہی ہے، وہاں چرچ پر خود کش حملہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف لاشیں پڑیں ہیں اور لوگ غصے میں شک کی بنیاد پر ایک داڑھی والے کو ڈنڈے مار مار کر ختم کر رہے ہیں۔ کہیں جرگے کے حکم پر گینگ ریپ ہو رہا ہے، تو کہیں غیرت کے نام پر بچیاں ذبح۔ سینہ چوڑا ہے اور دل میں سارے عالم اسلام کا درد بھرا پڑا ہے۔ گھر کے پچھواڑے میں لاشے پڑے ہیں پروا نہیں۔

جعلی پیری فقیری کا راج ہے۔ گالیاں ہیں کہ منہ سے جھڑتی جارہی ہیں، پیروکار ہیں کہ سبحان اللہ کا ورد کرتے جا رہے ہیں۔ اللہ رسول کے نام پر ہزاروں لوگوں کو تکلیف میں ڈالا جا رہا ہے۔ ایمبولینس میں بچے مررہے ہیں، کوئی راستہ دینے کو تیار نہیں ہے۔ نہ وہ جو سڑک پر آلتی پالتی مار کر ڈنڈا لئے بیٹھا ہے، نہ وہ جو ڈھائی کروڑ کی گاڑی چلارہا ہے لیکن 25 فی صد عقل نہیں رکھتا کہ ایمبولینس کو راستہ دینا کتنا ضروری ہے۔ یہ اس قوم کا مجموعی رویہ ہے

لوگ کہتے ہیں آپ بہت زیادہ منفی خیالات رکھتی ہیں۔ آپ کو ملک میں کچھ اچھا نظر نہیں آتا۔ سمجھ نہیں آتا کوئی یہ سوال کیسے کر سکتا ہے؟ یا تو لوگ انتہائی درجے کے بے حس ہیں، یا پرلے درجے کے بیوقوف۔ یا شاید دونوں۔ بار بار ایک ہی گڑھے سے ٹھوکر کھاتے ہیں، منہ کے بل گرتے ہیں۔ کبھی ناک ٹوٹ جاتی ہے کبھی ماتھا پھوٹتا ہے۔ کبھی چال میں لنگڑاہٹ آ جاتی ہے تو کبھی بازو کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن اٹھتے ہیں اور کپڑے جھاڑ کر کاموں میں ایسے مشغول ہو جاتے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ایک طالب علم نے کہا میڈم اس سے تو ثابت ہوتا ہے ہم بڑے بہادر ہیں۔ میں نے کہا بیٹا بہادر نہیں بے حس ہیں، دونوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔

جہاں 12 سال کا بچہ ایک سیاسی قافلے کے نیچے آ کر مرجائے اور اس کو سیاسی شہید قرار دے دیا جائے، جہاں ایک جوان جہاں ہنستے کھیلتے میجر کو ہمارے ”گمراہ بھائی“ بھون دیں اور قوم کو نوید دی جائے کہ یہ شہید ہیں ہمارے گلشن کے، خبردار جو پوچھا، کہ ذمہ دار کون ہے۔ غدار ہو تم! بس انتظار کریں کچھ عرصے کی بات ہے ہر کسی کی باری آئے گی اور پھر منمناتی سے آواز میں پوچھیں گے آخر ہمارا قصور کیا ہے؟ ہمارے لئے کوئی آواز کیوں نہیں اٹھاتا۔ کیوں کہ آپ بھی شہید ہیں جمہوریت کے، مذہب کے، اس گلشن کے۔ خبردار جو سوال پوچھا۔ یہ لو امدادی چیک۔

بات یہ ہے جناب جہاں احساس ختم ہوجائے وہاں سب ختم ہوجاتا ہے۔ اور میں غلط ہوں تو درست کیجیے گا، لیکن بحثیت قوم ہمارا احساس کب کا دفن ہوچلا۔ نہ آپ نے کسی کا احساس کیا، کسی کے لئے آواز اٹھائی، نہ آپ کے لئے کوئی اٹھے گا۔ چلے چلیں یونھی بہادر، بے حس بنے۔ رہے نام اللہ کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).