پشاور: ایسا شہر ایسے لوگ حق رکھتے کہ زندہ رہیں آباد رہیں


دو دن پہلے اسلام آباد میں پاک افغان ٹریک ٹو قسم کا ایک اکٹھ ہوا۔ افغان سفیر صحافی بھی موجود تھے ہمارے سابق سفارتکار رٹائر جرنیل اور صورتحال کو سمجھنے جاننے والے صحافی بھی موجود تھے۔ ہر طرح کی باتیں سننے کو ملیں۔ حل کوئی نہیں تھا ہر طرف سے اچھی اچھی باتیں ہی ہورہی تھیں۔ ایک دوسرے کی غلطیاں بتائی جا رہی تھیں۔

تقریب ختم ہونے کا انتطام کرتا رہا کہ اپنے دوست بھائی صحافی سے ہاتھ ملایا جائے۔ ایک خاتون کا آخری خطاب جاری تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ جب ساڑھی پہن کر پشاور جاتی ہیں تو ان کو پشاور کے دوست منع کرتے ہیں۔ جبکہ کابل میں انہیں کوئی منع نہیں کر سکتا۔

اس سے آگے کچھ نہیں سنا گیا وہاں سے نکل آیا۔ ہم کہ جنہوں نے پشاور کو اچھے دنوں میں دیکھ رکھا ہے۔ ایک روادار محبت کرنے والوں اپنے کام سے کام رکھنے والوں کا شہر۔ سیاحوں کو ہر دم خوش آمدید کہتا مہمان نواز شہر۔ بارشوں پھولوں کا شہر۔ کسی کو اندازہ تک نہیں کہ پشاور کی لمبی برسات تاریخ ہو چکی۔ ہرا بھرا شہر کنکریٹ کا جنگل ہوتا گیا۔ درجہ حرارت بہت تبدیل ہو گیا۔ اس شہر میں رہنے والے ایرانی چلے گئے۔ گورے سیاحوں نے آنا چھوڑ دیا۔ بدھ مت کے آثار دیکھنے والے جاپانی مدت ہوئی یہاں کا رخ نہیں کرتے۔ اس شہر سے فنکار رخصت ہوئے۔

ستمبر گیارہ کے بعد درجنوں بار ڈائیلاگ کرائے ان میں شرکت کی۔ قبائل کا موقف سنا ہے ویسے بھی پتہ ہی ہوتا کہ اپنے لوگ ہیں اپنا دیکھا بھالا علاقہ ہے۔ وہی باتیں دہرائی جاتی ہیں وہی سرکاری عزم ہے۔ بس رات ہے کہ ختم ہوتے میں آتی ہی نہیں۔

ایگری کلچر یونیورسٹی کا سات طالبعلم مر گئے۔ یہ نہ ماؤں نے محاذ پر بھیجے تھے۔ یہ گئے ساتھ ہی کتنے خواب مٹی ہوئے۔ دہشت گردوں کے مارے جانے کے بعد گھر کے کپڑوں میں قمیض کے بغیر پشاور پولیس کا افسر میدان میں کھڑا ہے۔ ہمیں اپنی پولیس ایسے افسروں سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ ہم نے وہ افسر بھی دیکھے جو آپریشن شروع کرتے وقت بلٹ پروف جیکٹ اتار دیتے تھے کہ ان کہ سپاہیوں کو حوصلہ رہے۔ یہ پاگل پن یہ بہادری قابل تعریف ہے۔

آپ نے کبھی شادی کا خوشی کا مطلب سمجھنا ہو تو پشاور کی کسی شادی میں شرکت کریں۔ اس زندہ شہر اس کے لوگوں بارے بہت کچھ جان لیں گے۔ دہشت گردی کی ساری جنگ پشاور کے سینے پر لڑی گئی۔ یہ شہر یہ لوگ نہ ہوتے تو ہمارے وطن میں مایوسی کا راج ہوتا۔ ایسا شہر ایسے لوگ حق رکھتے کہ زندہ رہیں آباد رہیں۔ سات لوگ پھر پرائی خوشیوں پر قربان ہوئے۔ وہ منحوس خوشی جس کا تعلق گولی اور خون سے ہے۔ چھوڑیں بس یہ بتائیں کہ امن کب آوے گا۔ کوئی تو بتائے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi