ایک فلاپ فلم کاآخری سین


یہ ایک فلاپ فلم کا سین تھا جس میں پولیس نےطویل تعاقب کے بعد اس کو ایک بند گلی میں گھیر لیا۔

سپر ہٹ فلموں والے سین کے برعکس پولیس والے اسمارٹ نہیں تھے۔ ان کے پیٹ بڑھے ہوئے تھے اور چہروں پر وہی کچھ برس رہا تھا جو اکثر پولیس والوں کے چہروں پر برس رہا ہوتا ہے بلکہ فلموں میں بھی بھرپور طریقے سے برس رہا ہوتا ہے۔ آپ ذہین لوگ ہیں۔ اگر میں لکھ بھی دوں کہ نور برس رہا تھا تب بھی آپ نے وہی سمجھناتھا جو آپ سمجھ چکے ہیں۔ لہٰذا آگے چلتے ہیں۔

جس کا تعاقب پولیس والے کر رہے تھے اس میں بھی کسی سپرہٹ فلم کےکسی ایکٹر جیسا کوئی تاثر نہیں تھا۔ ایک عام سا نوجوان تھا۔ دبلا سا بدن، ہلکی بڑھی ہوئی شیو، بدن پر سستے سے کپڑے اور پاؤں میں جوگرز تھے شاید اسی لئے اس نے پولیس والوں کی اچھی خاصی دوڑ لگوادی تھی۔ دوڑ لگانے سے اس کے بال بکھر گئے تھے لیکن اس کے باوجود وہ بالکل بھی کسی فلمی ہیرو جیسا نہیں لگ رہا تھا۔ بلکہ کسی فلم کے ولن، کامیڈین، ہیرو کے دوست، ہیروئین کے منگیتر یا کسی آئٹم سانگ میں ناچنے والے ایکسٹرا جیسا بھی نہیں لگ رہا تھا۔

بند گلی میں خود کو پا کراس انتہائی غیر فلمی نوجوان کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ سپر ہٹ فلموں میں ایسے سین بہت دلچسپ ہوتے ہیں جب پولیس کسی کو گھیر لے۔ فلم مزاحیہ ہو تو بند گلی میں گھرا ہوا کردار پولیس کو خوب چکر دیتا ہے۔ ایکشن فلم ہو تو کشتوں کے پشتے بھی لگا سکتا ہے۔ یہ مگر ایک فلاپ فلم کا سین تھا لہٰذا ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔

کوئی جائے فرار نہ دیکھ کر اس نے سر جھکا لیا۔ پولیس والے اپنی ڈھالیں آگے رکھے ڈرتے ڈرتے اس کے قریب آئے۔ وہ دیوار کے ساتھ لگا ہانپتا رہا۔ پولیس والوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ وہ اس کو قابو کرتے ہوئے کچھ گھبرا رہے تھے۔ وہ پولیس والوں کی شش و پنج سے بے پرواہ زمین کوگھور رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے اور وہ زیر لب کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ آخر ایک پولیس والے نے دور سےاس کو للکارا۔

”اوئے! تمہارے پاس کوئی اسلحہ ہے تو زمین پر ڈال دو۔ “

اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ پولیس والے شیر ہو گئے اور آن کی آن میں اسے جکڑ لیا۔ دو پولیس والوں نے اس کے ہاتھ قابو کیے۔ ایک نے تلاشی لی۔ یہ سپر ہٹ فلم نہیں تھی چناچہ اس کی جیب میں سے اسلحہ بھی نہیں نکلا۔ پولیس والے اس کولے کر تھانے پہنچے۔ اورپرچہ کاٹ کر لاک اپ میں بند کر دیا۔ نوجوان کچھ نہ بولا۔ نہ غصہ دکھایا۔ نہ کوئی زوردار ڈائیلاگ بولے اور نہ تھانے دار کو تڑی لگائی۔ بس زیر لب کچھ بڑبڑاتا رہا۔

اگلے دن اس کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ کمرہ عدالت سپر ہٹ فلموں کے برعکس تقریباً خالی تھا۔ اگر فلم سپر ہٹ ہوتی تو کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا ہوتا۔ نوجوان کے کپڑے سلوٹوں سے پاک ہوتے، شیو بنی ہوتی۔ جوتے چمک رہے ہوتے اور چہرہ تروتازہ ہوتا۔ مگر جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ فلم فلاپ تھی اس لیے نوجوان کی حالت ردی تھی۔ کپڑے بری طرح مسلے ہوئے تھے۔ آنکھوں سے سرخی جھلک رہی تھی۔ رنگ زرد پڑ چکا تھا۔ چہرے پر دو جگہ نیل بھی پڑے ہوئے تھےاورچال میں لنگڑاہٹ بھی تھی۔ کمرہ عدالت میں جج صاحب، استغاثہ کا وکیل، تفتیشی افسر اور نوجوان کے علاوہ تین پولیس کانسٹیبل ہی حاضر تھے۔

جج صاحب نے اپنی عینک کے اوپر سے نوجوان کو گھورا اور اپنے سامنے موجود کاغذات کو کھنگالنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے برا سا منہ بنایا۔ پھر کھنکار کر اپنا گلا صاف کیا اور سرکاری وکیل استغاثہ کو کیس پیش کرنے کی ہدایت کی۔ وکیل صاحب نے جج کا نہ چاہتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور انتہائی بےزار لہجے میں گویا ہوئے۔

”جناب والا! کل 27 نومبر تھی۔ اسلام آباد میں22 روز سے جاری دھرناللہ اللہ کر کے کل ختم ہوا ہے۔ یہ مشکوک نوجوان جو اس وقت آپ کے سامنے کھڑا ہے، اس وقت دھرنے میں موجود تھا جس وقت دھرنے کا معاہدہ پڑھ کر سنایا جارہا تھا۔ معاہدہ ختم ہوتے ہی اس نے دوڑ لگا دی۔ جناب والا! اس نوجوان کا انداز انتہائی مشکوک تھا۔ جس انداز میں اس نے دوڑ لگائی اس سے شبہ ہوا کہ یا تو یہ نوجوان کوئی واردات کر کے دوڑا تھا یا پھر کوئی واردات کرنا چاہتا تھا مگر موقع نہ ملنے کی وجہ سے اس کو فرار ہونا پڑا۔

اس کو بھاگتے دیکھ کر پولیس اس کے پیچھے لگ گئی۔ اس نوجوان نے پولیس کو کافی دیر تک اپنے پیچھے گلیوں میں دوڑایا او ر نہایت مشکل سے اس پر قابو پایا گیا۔ پولیس کے مطابق اس کے پاس سے کسی قسم کا کوئی اسلحہ برآمد نہیں ہوا۔ اس کی جیب میں صرف ایک قلم تھا۔ پولیس نے اس کی شناخت معلوم کرنے کے لیے اس سے سوال کیے مگر یہ نوجوان جواب میں صرف ایک بات دوہراتا رہا۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ اس نوجوان کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے تاکہ پولیس اپنی تفتیش مکمل کر سکے۔ “

جج صاحب سپر ہٹ فلموں کی طرح کرسی پر آگے جھک کر نہیں بیٹھے ہوئے تھے بلکہ آرام سے کرسی سے ٹیک لگا کرسرکاری وکیل کی تقریر سن رہے تھے۔ انہوں نے سوال کیا۔
”یہ کون سی بات دہراتا رہا؟ “
”جناب والا! یہ نوجوان بڑبڑا رہا تھا کہ ”ریاست ہو گی ماں کے جیسی“، اس کے علاوہ یہ کچھ نہیں بولا۔ “

جج صاحب چونک کر سیدھے ہو گئے اور نوجوان سے پوچھا۔
”تم کچھ کہنا چاہتے ہو؟ “

اگر یہ فلم سپر ہٹ ہوتی تو نوجوان گرج دار آواز میں کہتا کہ جج صاحب مجھے میری زندگی کی ایک رات لوٹا دیں۔ یا کہتا کہ جج صاحب میں بے قصور ہوں۔ یا ایسی ہی کوئی بات کہتا جو عام طور پر سپر ہٹ فلموں میں ایسے مواقع پر کہی جاتی ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ نوجوان نے لب کھولے اور فلم فلاپ ہو گئی۔

اس فلاپ فلم کے آخری سین میں نوجوان نے جج صاحب کی طرف دیکھاتواس کی آنکھوں سے ایک بار پھرآنسو چھلک پڑے۔ اس کے لب کانپے اور اس نے لرزیدہ آواز میں کہا۔
”سر۔ کل بھرے چوک میں میری ماں کی عزت لٹ رہی تھی۔ میں کمزور سا انسان ہوں۔ میں وہاں سے بھاگ نہ جاتا تو کیا کرتا؟ “
Dec 2, 2017

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad