مذہبی اقلیتوں کے لیے طرزِ انتخاب کیا ہو؟


روزنامہ ایکسپریس ٹربیون کی اشاعت 26اکتوبر2017ء میں محترم سرور باری صاحب نے مذہبی اقلیتوں کے لئے موزوں طرزِ انتخاب کے ضمن میں تجویز دی ہے کہ قومی اسمبلی کے اُن 28 حلقوں میں جہاں مذہبی اقلیتوں کے 25 ہزار یا اس سے زیادہ ووٹر موجود ہیں ، انہیں کثیر نمائندگی کے حلقے بنا دیا جائے جن میں جنرل سیٹ کے امیدوار کے علاوہ اقلیتی مخصوص نشستوں پر بھی انتخاب ہو۔ تاکہ مذہبی اقلیتیں مخصوص نشستوں پر براہ راست انتخاب سے اپنے نمائندے منتخب کر سکیں۔ اِسی طرح کہیں اقلیتی افراد کے لیے دوہرے ووٹ کی اور کہیں جنرل نشستوں پر حلقے مخصوص کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ تجاویز دینے والے احباب کی نیت پر شک نہیں۔ بظاہر یہ تجاویز معصوم سی لگتی ہیں لیکن غور سے دیکھا جائے تو مخلوط انتخابات کی بحالی کے بعد سیاسی نظام کے اعتبارسے یہ تجاویزمخالف سمت کا سفر ثابت ہوسکتا ہے۔ آئیے پہلے سرور باری صاحب کی پیش کردہ تجاویز کے عواقب کا جائزہ لیتے ہیں۔

1۔ یہ مفروضہ کہ ووٹر اور نمائندہ ہم مذہب ہوں تو بہتر سیاسی نمائندگی ہو سکتی ہے منطقی نہیں لگتا۔ دنیا میں چند ہی سیاسی نظام ایسے ہوں گے جہاں اِس مفروضہ کو اب بھی قابل عمل سمجھا جاتا ہے اور یہ ممالک سیاسی نظام کی کو ئی درخشاں مثال نہیں ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اِس مفروضہ کو جب جب اور جہاں جہاں استعمال کیا گیا وہاں پر سیاست اور تمدن دونوں پر برے اثرات مرتب ہوئے۔ سماجی رشتے تفریق کا شکار رہے۔ پاکستان کے حالیہ نظام میں بھی اِس کا اطلاق ماضی کی آلائشوں کو دھونے کی غرض اور ایک عملی ضرورت کے ناطے سے ہو رہا ہے۔ ورنہ مذہبی بنیاد پر مخصوص نشستوں کی منطقی اور اطلاقی بنیادیں توکمزور ہیں۔

2۔ اگر مندرجہ بالا تجویز پر عمل کرتے ہوئے 28 قومی حلقوں کو کثیر نمائندگی کے حلقے بنانے کی تجویز پر عمل کر لیا جائے تو لامحالہ اِن حلقوں کی پہچان اقلیتی مذاہب کے حوالہ سے ہو جائے گی۔ ممکنہ طور پر پنجاب میں کچھ حلقے مسیحی شناخت اختیار کریں گے تو سندھ میں کچھ حلقے ہندو ہو جائیں گے۔ تو پہلا سوال یہ ہوگا کہ آیا مجوزہ طریقہ کار سے پنجاب کے مسیحیوں اور سندھ کے ہندووں کے لیے تحفظ اور ترقی کے امکانات یقینی ہو جائیں گے یا ان کو درپیش چیلنجز میں اضافہ ہو گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ملک کو ابھی دہشت گردی اور دھرنہ باز گروہوں سے چھٹکارا حاصل کرنے میں وقت لگ سکتا ہے اور ابھی تک ماضی میں اقلیتی آبادیوں پر ہونے والے حملوں کے اثرات باقی ہیں۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ جب 28حلقوں کو ایک مذہبی شناخت کی بنیاد پر منفرد طرزِنمائندگی مل جائے گا تو باقی 244 حلقے اپنے اپنے مسلک کی مذہبی شناخت کو نمایاں کرنے کی آزمائش سے کیوں کر باز رہیں گے۔ جب ان کا شوق پورا نہیں ہوگا تو پھر اُن کے لیے کون سا طرزِ ا نتخاب تجویز کیا جائے گا۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ وہ باقی حلقے (244قومی اسمبلی) جن میں بہرحال 15لاکھ کے قریب اقلیتی ووٹر رہیں گے اُن کومجوزہ سیاسی نمائندگی اور تحفظ وغیرہ کی ضرورت کیوں پیش نہیں آئے گی۔

پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کی بانوے فیصدآبادی ہندو یا مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور مذہبی شناخت پر سیاسی نمائندگی کے مجوزہ کلیے کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں میں انہی دو برادریوں کے افراد کے جیتنے کا امکان ہے لہذا اس تجویز کو مان لیں تو بہائی، سکھ، بدھ مت اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے قانون ساز اداروں میں جگہ پانے کے امکانات معدوم ہو جائیں گے۔

حالیہ طرزِانتخاب میں یہ امکان تو ہے کہ وہ مذہبی اقلیتیں جو تعداد میں انتہائی کم ہیں ان سے تعلق رکھنے والے افراد بھی سیاسی ایوانوں /سیاسی عمل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اگر اس تجویز کو مان لیں تو خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کے لیے ایوانوں کے دروازے بند ہوتے نظر آئیں گے کیونکہ 95فیصد اقلیتی آبادی پنجاب اور سندھ میں آباد ہے۔

باری صاحب کا یہ اعتراض درست ہے کہ 1985ء کے بعد قومی وصوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں میں اضافہ کیا گیا ہے تو مخصوص نشستوں پر بھی اضافہ ہونا چاہیے تھا لیکن اِس تجزیہ میں یہ بات نظر انداز کر دی گئی کہ 2013ء سے 2018ء کی ٹرم میں کم از کم چار ایوانوں میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے نمائندگان کی تعداد آئین میں مقرر کردہ نشستوں سے زیادہ ہے مثلاً سینٹ میں چار کی بجائے پانچ سینیٹر ہیں، قومی اسمبلی میں دس کی بجائے تیرہ، پنجاب اسمبلی میں آٹھ کی بجائے گیارہ اور سندہ اسمبلی میں نو کی بجائے دس نمائندگان ہیں۔ گویا سیاسی عمل میں مذہبی اقلیتوں کے لیے کشادگی پیدا ہونے کے آثار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مذکورہ تجاویز میں حالیہ نظام کی جن کامیابیوں کو نظر انداز کیا گیا ہے وہ کوئی معمولی بھی نہ تھیں۔ شایداحباب مذہبی اقلیتوں کی براہ راست نمائندگی کو زیادہ اہم خیال کرتے ہوئے مخلوط طرِزانتخاب میں پائی جانے والی حقوق کی برابری کی اہمیت پر توجہ نہیں کر پائے۔ اُن کا خیال ہے کہ نمائندگی براہ راست اور مذہبی اقلیتوں کے نمائندوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے تو پاکستان میں تکثیریت اور مذہبی تنوع کی منزل آسانی سے مل جائے گی لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں پر جمہوریت کمزور، سماج میں صنف، علاقہ اور مذہب وغیرہ کے حوالے سے نا برابری پائی جاتی ہے۔ اور وہاں مخصوص نشستوں کے نظام ایسے کلئیے سیاسی نظام کا حصہ تو بنائے گئے ہیں مگر یہ متعصبانہ سماجی رویوں کی درستی اور سیاسی نظام کی اصلاح کا سبب نہیں بن سکے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اگر پسماندگی کو دور کرنے اور نا برابری کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ کار نظام کی مستقل ضرورت بن جائے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ نظام اپنے مقاصد میں ناکام ہو گیا ہے یعنی پسماندگی دور نہیں ہورہی یا پھر یہ طریقہ سیاسی نظام میں ادارہ جاتی امتیاز کا حصہ بن گیا ہیں۔

پاکستان میں سیاسی سماجی حقائق، جمہوری اصولوں کی پاسداری اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے پیش نظر سب سے پہلی کوشش تویہ ہونی چاہئیے کہ وہ طرزِ انتخاب اپنایا جائے جس میں سماجی، سیاسی و مذہبی یگانگت کے اسباب پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہو / خصوصاً مذہبی تعصبات کے خاتمے کی سبیل موجود ہو۔ پاکستان میں اِکیس برس تک جداگانہ طرزِ انتخاب رائج رہا جس میں ووٹر صرف اپنے ہم مذہب امیدواروں کو ووٹ دینے کے مجاز تھے۔ اس نظام کے تحت دو مقامی حکومتوں اور پانچ عام انتخابات ہوئے، جو مذہبی امتیاز اور مذہبی انتہاپسندی کے لئے سازگارفضا بنانے میں کام آئے۔ اور پھر مذہبی تفریق کا بیج ہر صحن میں بو دیا گیا جس کی جڑی بوٹیاں تلف کرنا آج مشکل ہو رہا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی حالت پتلی ہے۔ سماجی انصاف کو مد نظر رکھتے ہوئے آئینی، سیاسی اور خصوصی تحفظ کی ضرورت ہے۔ مذہبی اقلیتوں کی معاشی حالت نے حکومت کو یہ احساس دلایا کہ سرکاری ملازمتوں میں مذہبی اقلیتوں کا کوٹہ مخصوص ہونا چاہیے۔ دیگر ملکوں میں بھی ایسے اقدامات حقوق کی برابری کو ممکن بنانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ یہ درست کہ کئی مغربی ممالک میں اقلیتوں اور تارکین وطن کو سیاسی نظام میں شامل کرنے کا عمل تیزی سے بڑھا یا ہے۔ جس سے ان معاشروں میں سیاسی استحکام، مذہبی تنوع اورہم آہنگی کی بنیادیں مضبوط ہوئی ہیں لیکن وہاں پر مندرجہ بالا اہداف نشستیں مخصوص کرنے سے نہیں بلکہ سیاسی اتفاق رائے اور شعوری سماجی عمل کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں اگر مذہبی شناخت کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کو انتخابی حلقوں تک پھیلا دیا جائے مختلف جغرافیائی اکائیوں کو ایک نئی مذہبی شناخت مل جائے تو ایک مرتبہ پھر ان حدود سے باہر رہنے والے لوگ کسی نئی شناخت کے سفر پر نکل پڑیں گے کیا معلوم یہ شناخت کسی مذہب، مسلک سے آگے بڑھ کر کوئی بھیانک شکل اختیار کر لے۔

خصوصی اقدامات کی ضرورت سے انکار نہیں لیکن پاکستان میں پسے ہوئے، پچھڑے ہوئے، کمزور طبقات کے حقوق کا احترام اور تحفظ اس بات سے مشروط ہے کہ فرد کی آزادی اور جمہوری اصولوں کا احترام بھی ہو۔ جتنا کمزور جمہوری نظام ہوگااتنا ہی مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور انکے تحفظ کی ضمانت دینا مشکل ہوگا۔ یہ بھی تسلیم کہ پاکستان میں حقیقی جمہوری نظام اور رواجوں کو لاگو کرنے کی مشکلات کا سامناہے۔ لیکن یہ ممکن بنانے کے لئے انتخابی نظام کو غیر ضروری پیچیدگیوں سے بچانا بھی تولازمی ہے۔ خاص طو ر پر وہ تجاویز جن کے اثرات معلو م یا مشکوک ہیں۔ طرزِ انتخاب کی بحث میں جداگانہ انتخاب کا تجزیہ اور الیکشن ایکٹ2017 کے ضمن میں پیدا ہونے والے بحران کو سامنے رکھیں تو کوئی ایسی تجویز جو سیاست اور تمدن میں پائے جانے والی مذہبی تقسیم کو گہرا کر دے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

محترم سرور باری اور تمام ایسے ساتھیوں کو جو انسانی حقوق اور عوام کی حاکمیت کی جدوجہد کر رہے ہیں انہیں سکڑتی زمین اور کھلتے ہوئے آسمان دونوں سے واسطہ ہے۔ ا مید ہے وہ کسی ایک کو بھی نظر انداز نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).