سکندر اعظم سے وزیراعظم تک سب کو جانا پڑتا ہے


تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ماؤں نے نمرود، فرعون، شداد، افلاطون، چنگیز خان اوربڑے بڑے سورما پیدا کیے، انھیں مرنا بھی پڑا۔ زندگی نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی، ہر عروج کو زوال سے دو چار ہونا پڑتا ہے تب کہیں جا کر سلطان وقت پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی خیر کو شر پر اور کبھی شر کو خیر پر فوقیت رہتی ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہو۔ زیر، زبر، پیش کا قاعدہ بھی بڑا دلچسپ ہے، یعنی جو آپ کی طاقت کے آگے جھک گیا وہ زیر ہے۔ جو آپ پر حاوی رہا وہ زبر ہو گیا اور جس نے زمانے کے انداز سمجھ لیے، دنیا داری نبھا لی وہ پیش رہا۔ مجھے یونان کا وہ سپہ سالار یاد آ رہا ہے جس نے دنیا کو تسخیر کرنے کا خواب دیکھا اور اس کی تعبیر کے لیے قدم بھی آگے بڑھائے۔ جیت کا نشہ اس چرس کے سگریٹ کی طرح ہوتا ہے جو پینے والے کو دنیا و مافیہا سے بے خبر کر کے ہواؤں میں اڑاتا پھرتا ہے۔ جیت کی تلخی حلق میں ارتعاش پیدا کرتی ہے اور ہتھیلی پر چرس مسلنے والے کی کھجلی نہیں جاتی۔

سکندر کو بھی جیت کا نشہ تھا، یہ کھجلی اس کے پورے وجود میں سرائیت کرتی جارہی تھی۔ ارسطو جیسے استاد کی ذہانت کے سوتے بھی اس کے دماغ سے فتح کا لفظ نہ نکال سکے۔ وہ جنگجو کا بیٹا تھا، پہاڑ جتنا حوصلہ اور چٹان جتنا زور اس کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا تھا۔ یہ وہی یونان ہے جہاں دیوی دیوتاؤں کی دنیا آباد تھی، جہاں تخیل اور اساطیر نے انسانیت کو بڑے نفیس سے احساس میں جکڑ رکھا تھا۔ عمل سے دور اس دنیا میں سکندر کی سکندری کھل کر سامنے آئی۔ اپنی ثقافت کے بل بوتے پر ایران جیسی طاقت کو زیر کیے رکھنا بھی، سکندر کا ہی کمال ہے۔

اس کے کمالات کے تو اتنے قصے ہیں کہ جس کہانی کو بھی کھولیں اس میں کئی موڑ آئیں گے۔ اس کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز کانوں میں رس نہیں گھولتی بلکہ زندگی میں آگے بڑھنے کاپیغام دیتی ہے۔ تاریخ کا طالب علم اپنے ادراکی شعور سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ موت و حیات کا فلسفہ کیا ہے۔ شاعری کی زبان تو دو ٹوک فیصلہ سناتی ہے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور یہ آ کر رہے گی، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ شان سے جینے والے بھی مرے اور بے غیرتی کی زندگی جینے والوں کو بھی موت آئی۔ رہے نام صرف اللہ کا!

سکندر نے تینتیس برس عمر پائی لیکن اس محدود عرصے میں اس کی فتوحات کا سلسلہ طویل رہا۔ اسے سرحدیں پار کرنے کے شوق نے زمین کا گز بنائے رکھا، وہ حوصلہ ہارنے کے خلاف تھا۔ وہ مزید آگے بڑھنا چاہتا تھا مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب تک اس کی فتح کا علم بلند رہا۔ وہ کوہ ندا سے موتی لانے کا شائق تھا، کنویں کی منڈیر پر سات روٹیاں رکھ کر وہ یہ کہنے لگا : ’’ اس کو کھاؤں، اس کو کھاؤں، کس کو کھاؤں۔ ‘‘ کنویں کی ساتوں پریاں دبک گئیں اور التجا کرنے لگیں کہ خدارا ہمیں مت کھانا۔ سکندر کو کون روک سکتا تھا، اس نے کسی داستانوی ہیرو کی طرح ان پریوں سے ساز باز کرنے کے بجائے بڑے مزے سے کنوئیں کی ساتوں پریاں کھائیں اور ڈکار بھی نہ لی۔

یہ پریاں اس کی فتوحات کا پیش خیمہ تھیں، یہ ساتوں اپسرائیں اس کے شکم میں انگڑائیاں لے کر اسے یقین دلاتی تھیں کہ اے سکندر! تو عظیم ہے تجھے موت نہیں آئے گی۔ جب پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آنے لگیں تو بڑی بوڑھیاں اپنے پوپلے منہ میں بڑبڑانے لگتی ہیں کہ ہو نہ ہو یہ لونڈا تو رہنے کا نہیں۔ عورت اور نجومی دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا، دونوں جسے چاہیں اپنے جادو کے زور سے مات دے دیں اور جس کے سر پر چاہیں تاج پہنا دیں۔ سکندر کے سر پر بھی تاج تھا لیکن اس کے سر پر بادشاہت کا جنون سوار تھا اسے کسی عورت کے عشق نہیں مارا۔

پھر اچانک کیا ہوا کہ وہ بیمار پڑ گیا اور ٹھیک دس دن بعد کوہ ندا کا موتی، ناقابل تسخیر شہزادہ، حاکم وقت، گھوڑوں کی ٹاپوں سے کھیلنے والا سکندر مر گیا۔ خدائی جیت گئی اور خدا مر گیا، یونانیوں کا خدا، دیوتاؤں کی دعاؤں کا حاصل، دیویوں کے سجدوں کے امین، سکندر کو موت اچک کر لے گئی۔

مرنے کے بعد سکندر، سکندر اعظم بن گیا۔ اسے جیت کا استعارہ سمجھا جاتا ہے، اس کے نام کو فاتح کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ آج کی مائیں اپنے سکندروں کے ماتھے چومتی ہیں تو سمجھتی ہیں کہ دیویوں کا داتا ان کے پالنے میں بھی سو رہا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہماری سیاست کے ایوان خانوں میں ہو رہا ہے۔ سیاسی بحران ہوں یا جلسے جلوس، برسر اقتدار پارٹی کے امیدوار خود کو سکندر کا جانشین سمجھ لیتے ہیں۔ پھر چاہے پارٹی سے سبکدوشی کا معاملہ ہو یا ’ مجھے کیوں نکالا ‘ جیسے فارمولے کی کیمسٹری، کوئی سیٹ خالی چھوڑنا نہیں چاہتا۔ اس دوران کوئی جلسے میں گولی کھاتا ہے اور کوئی طیارے کی تباہی میں راکھ ہو جاتا ہے۔

زمینی سکندر سوگ مناتے ہیں لیکن پھر سوچتے ہیں کہ او بلھیا! اسی مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور۔ دلوں میں زندہ رہنے والے سکندر کو مات نہیں ملتی چاہے وہ زندہ رہے یا مر جائے۔ تاریخ ان لوگوں کو سبق سکھاتی ہے جو سیکھنے کے عمل سے گزرتے ہیں اور جو مقام آہ فغاں سے بھی گزر جائیں وہ دنیا کے لیے خود سبق بن جاتے ہیں۔ تاریخ تو اس بات کی بھی گواہ ہے کہ خاندانی سیاست ہو یا امارت، وقت کسی کا نہیں بنتا۔ تخت و تاج کے لیے کبھی امراء کی آنکھوں میں سلائیاں پھرتی ہیں اور کبھی زہر کے جام پینا پڑتے ہیں۔ وقت پھر بھی کسی کا نہیں بنتا۔ جینے کے لیے مرنا پڑتا ہے۔ ورنہ تو غالبؔ نے بھی یہ کہا تھا :

کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).