ملالہ کی ڈائری: سکول جانا ہے۔ ۔ ۔


ملالہ یوسفزئی کی یہ ڈائری نو جنوری 2009 سے بی بی سی اردو پر ”گل مکئی کی ڈائری“ کے نام سے شائع ہونا شروع ہوئی۔ اکتوبر 2012 میں ملالہ پر طالبان کے قاتلانہ حملے کے بعد احوال ڈاٹ کام نامی ایک ویب سائٹ نے اسے تحریف کر کے اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا اور اس میں داڑھی اور برقعے کے خلاف الفاظ شامل کیے گئے جس کا مقصد بظاہر یہ تھا کہ ملالہ پر حملے کے بعد طالبان کے خلاف آنے والے شدید عوامی ری ایکشن کو کم کیا جائے۔ ذیل میں بی بی سی اردو پر موجود ملالہ کی اصلی ڈائری (جو ویب سائٹ پر آج بھی موجود ہے) اور ان تاریخوں کی احوال ڈاٹ کام کی خود ساختہ تحریف شدہ ڈائری دی جا رہی ہے۔ احوال کی ویب سائٹ ابھی بھی اسی پرانی کمپنی کے نام پر رجسٹرڈ ہے اور اب ویب سائٹ خالی پڑی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ پر ویب سائٹس کو محفوظ کرنے والی ایسی ویب سائٹس بھی موجود ہیں جہاں کسی بھی ویب سائٹ کا پرانی تاریخوں کا مواد دیکھا جا سکتا ہے۔ (مدیر ہم سب)

بی بی سی نو جنوری 2009 : طالبان نے پندرہ جنوری سے سوات خواتین کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کی ہے۔
صوبہ سرحد کے شورش زدہ ضلع سوات میں گزشتہ برس اکتوبر میں شروع ہونے والی فوجی کارروائی جاری ہے۔ اگر ایک طرف سکیورٹی فورسز اور مسلح طالبان کی جھڑپوں میں درجنوں عام شہریوں کے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف مسلح طالبان نے ایک سو تیس سے زائد سکولوں کو تباہ کرنے کی بھی ذمہ داری قبول کرلی ہے جن میں سے زیادہ تر لڑکیوں کے ہیں۔

اب طالبان نے پندرہ جنوری کے بعد لڑکیوں کے سکول جانے پر بھی پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے۔ اس صورتحال میں طالبات پر کیا گزر رہی ہے، بی بی سی ارود ڈاٹ کام ساتویں جماعت کی ایک متاثرہ طالبہ کی کہانی ایک ڈائری کی صورت میں شائع کرے گا۔ سکیورٹی کے خدشے کے پیش نظر وہ ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے اپنی ڈائری لکھیں گی۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی:

سنیچر، تین جنوری: میں ڈر گئی اور رفتار بڑھا دی
کل پوری رات میں نے ایسا ڈراؤنا خواب دیکھا جس میں فوجی، ہیلی کاپٹر اور طالبان دکھائی دیے۔ سوات میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد اس قسم کے خواب بار بار دیکھ رہی ہوں۔ ماں نے ناشتہ دیا اور پھر تیاری کرکے سکول کے لیے روانہ ہوگئی۔ مجھےسکول جاتے وقت بہت خوف محسوس ہو رہا تھا کیونکہ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ لڑکیاں سکول نہ جائیں۔

آج اسمبلی میں ہیڈ مسٹرس صاحبہ نے کہا کہ طالبان کے خوف سے کل سے سکول کا یونیفارم ختم کیا جا رہا ہے اور آئندہ سےگھرکے کپڑے پہن کر سکول آئیں۔ انہوں نے ہمیں یہ بھی سمجھایا کہ اگر راستے میں ہمارا سامنا طالبان سے ہو تو کیا کرنا چاہیے۔

آج ہمارے کلاس میں ستائیس میں سے صرف گیارہ لڑکیاں حاضر تھیں۔ یہ تعداد اس لیے گھٹ گئی ہے کہ لوگ طالبان کے اعلان کے بعد ڈرگئے ہیں۔ میری تین سہیلیاں سکول چھوڑ کر اپنے خاندان والوں کے ساتھ پشاور، لاہور اور راولپنڈی جاچکی ہیں۔

ایک بجکر چالیس منٹ پر سکول کی چھٹی ہوئی۔ گھر جاتے ہوئے راستے میں مجھے ایک شخص کی آواز سنائی دی جو کہہ رہا تھا: ’میں آپ کو نہیں چھوڑونگا۔ ‘ میں ڈرگئی اور اپنی رفتار بڑھادی۔ جب تھوڑا آگے گئی تو پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ کسی اور کو فون پر دھمکیاں دے رہا تھا، میں یہ سمجھ بیھٹی کہ وہ شاید مجھے ہی کہہ رہا ہے۔

ملالہ کو بدنام کرنے کے لئے تحریف شدہ ڈائری جو اکتوبر 2012 میں احوال ڈاٹ کام پر شائع ہوئی:
ہفتہ تین جنوری: میں خوفزدہ تھی

میں نے کل ایک ہولناک خواب دیکھا جس میں مسلح طالبان اور ہیلی کاپٹر دکھائی دیے۔ سوات میں ملٹری آپریشن سے قبل بھی مجھے ایسے خواب آیا کرتے تھے۔ امی نے ناشتہ بنایا اور میں اسکول چلی گئی۔ میں اسکول جانے سے خوفزدہ تھی کیونکہ طالبان نے لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کے خلاف ایک فرمان جاری کردیا تھا۔ ستائیس میں سے صرف گیارہ بچیاں ہی اسکول آئیں اور یہ تعداد طالبان کے حکم کے بعد ہی کم ہوئی تھیں۔ طالبان کے اس اعلان کے بعد میری تین سہیلیاں پشاور، لاہور اور راولپنڈی منتقل ہوگئی تھیں۔ میں جب اسکول سے گھر آرہی تھی تو میں نے سُنا کہ ایک شخص کہہ رہا تھا کہ میں تمہیں قتل کردوں گا۔ میں نے تیز تیز قدموں سے چلنے لگی اور پیچھے مڑ کر دیکھا کہ وہ میرا تعاقب تو نہیں کررہا۔ مجھے اطمینان ہوا کہ وہ درحقیقت فون پر بات کررہا تھا اور اس نے موبائل فون پر کسی اور کو دھمکی دی تھی۔

اتوار، چار جنوری: کل سکول جانا ہے، میرا دل دھڑک رہا ہے

آج چھٹی ہے، اس لیے میں نو بجکر چالیس منٹ پر جاگی لیکن اٹھتے ہی والد صاحب نے یہ بری خبر سنائی کہ آج پھر گرین چوک سے تین لاشیں ملی ہیں۔ اس واقعہ کی وجہ سے دوپہر کو میرا دل خراب ہو رہا تھا۔ جب سوات میں فوجی کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی اس وقت ہم تمام گھر والے اتوار کو پِکنک کے لیے مرغزار، فضاء گھٹ اور کانجو چلے جاتے تھے۔ اب حالات اتنے خراب ہوگئے ہیں کہ ہم ڈیڑھ سال سے پِکنک پر نہیں جاسکے ہیں۔

ہم رات کو کھانے کے بعد سیر کے لیے باہر بھی جایا کرتے تھے۔ اب حالات کی وجہ سے لوگ شام کو ہی گھر لوٹ آتے ہیں۔ میں نے آج گھر کا کام کاج کیا، ہوم ورک کیا اور تھوڑی دیر کے لیے چھوٹے بھائی کے ساتھ کھیلی۔ کل صبح پھر سکول جانا ہے اور میرا دل ابھی سے دھڑک رہا ہے۔

پیر، پانچ جنوری: زرق برق لباس پہن کر نہ آئیں۔ ۔ ۔

آج جب سکول جانے کے لیے میں نے یونیفارم پہننے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو یاد آیا کہ ہیڈ مسٹرس نے کہا تھا کہ آئندہ گھر کے کپڑے پہن کر سکول آجایا کریں۔ میں نے اپنی پسندیدہ گلابی رنگ کے کپڑے پہن لیے۔ سکول میں ہر لڑکی نے گھر کے کپڑے پہن لیے جس سے سکول گھر جیسا لگ رہا تھا۔

اس دوران میری ایک سہیلی ڈرتی ہوئی میرے پاس آئی اور بار بار قرآن کا واسطہ دے کر پوچھنے لگی کہ ’خدا کے لیے سچ سچ بتاؤ، ہمارے سکول کو طالبان سے خطرہ تو نہیں؟ ‘ میں سکول خرچ یونیفارم کی جیب میں رکھتی تھی لیکن آج جب بھی میں بھولے سے اپنے جیب میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتی تو ہاتھ پھسل جاتا کیونکہ میرےگھر کے کپڑوں میں جیب سرے ہی نہیں۔
آج ہمیں اسمبلی میں پھر کہا گیا کہ آئندہ سے زرق برق لباس پہن کر نہ آئیں کیونکہ اس پر بھی طالبان خفا ہوسکتے ہیں۔

سکول کی چھٹی کے بعد گھر آئی اور کھانا کھانے کے بعد ٹیوشن پڑھا۔ شام کو میں نے ٹیلی ویژن آن کیا تو اس میں بتایا گیا کہ شکردہ سے پندرہ روز کے بعد کرفیو اٹھالیا گیا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ ہمارے انگریزی کے استاد کا تعلق اسی علاقے سے ہے اور وہ شاید کل پندرہ دن کے بعد پڑھانے کے لیے سکول آجائیں۔

ملالہ کو بدنام کرنے کے لئے تحریف شدہ ڈائری جو اکتوبر 2012 میں احوال ڈاٹ کام پر شائع ہوئی:
پیر پانچ جنوری : رنگین کپڑ ے مت پہنو

میں اسکول روانہ ہونے کے لئے یونیفارم پہن ہی رہی تھی کہ مجھے یاد آیا کہ ہمارے پرنسپل نے ہمیں یونیفارم پہننے سے منع کردیا تھا اور کہا تھا کہ گھر کے سادہ کپڑوں میں اسکول آیا جائے اور برقعہ پہن کر۔ مجھے تو برقعہ دیکھ کر ہی پتھر کا زمانہ یا د آتا ہے اور داڑھی والے دیکھ کر فرعون۔ شام کو امی، میری کزن اور میں برقعہ پہن کر بازار گئے۔ ایک زمانے میں مجھے برقعہ پہننے کا بہت شوق تھا لیکن اب اس سے تنگ آئی ہوئی ہوں کیونکہ مجھ سے اس میں چلا نہیں جاسکتا۔ سوات میں آجکل ایک بات مشہور ہوگئی ہے کہ ایک دن ایک عورت شٹل کاک برقعہ پہن کر کہیں جا رہی تھی کہ راستے میں گر پڑی۔ ایک شخص نے آگے بڑھ کر جب اسے اٹھانا چاہا تو عورت نے منع کرتے ہوئے کہا ’رہنے دو بھائی مت اٹھاؤ تاکہ مولانا فضل اللہ کا کلیجہ ٹھنڈا ہوجائے‘۔ ہم جب مارکیٹ میں اس دکان میں داخل ہوئے جس سے ہم اکثر شاپنگ کرتے ہیں تو دکاندار نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں تو ڈر گیا کہ کہیں تم لوگ خود کش حملہ تو کرنے نہیں آئے ہو۔ وہ ایسا اس لیے کہہ رہے تھے کہ اس پہلے ایک آدھ واقعہ ایسا ہوا بھی ہے کہ خود کش حملہ آور نے برقعہ پہن کر حملہ کیا ہے۔ میں نے اپنا پسندیدہ گلابی رنگ کا لباس پہننے کے لئے نکالا۔ دیگر لڑکیاں بھی رنگ برنگے لباس پہن کر آتی تھی اور اسکول گھر کے ماحول جیسا لگتا تھا۔ اسکول میں میری ایک سہیلی نے پاس آکر کہا کہ برائے خدا ایمانداری سے بتاؤ کہ کیا طالبان ہمارے اسکول پر حملہ کرنے جارہے ہیں۔ صبح کی اسمبلی میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ رنگین لباس پہن کر اسکول نہ آئیں کیونکہ طالبان اس پر اعتراض کرسکتے ہیں۔ میں اسکول سے واپس آگئی اور شام کو ٹی وی پر دیکھا تو خبر آرہی تھی کہ پندرہ دن کے بعد شکر درہ سے کرفیو اٹھالیا گیا ہے۔ یہ خبر سن کر مجھے خوشی ہوئی کیونکہ ہماری انگریزی کی استانی وہاں رہتی تھی جو کرفیو کی وجہ سے نہیں آسکتی تھیں۔ امید ہے کہ اب وہ بھی اسکول آنے لگیں گی۔


اسی بارے میں

ملالہ کی ڈائری کیسے شروع ہوئی؟

پہلی قسط: ملالہ کی ڈائری: سکول جانا ہے۔ ۔ ۔

دوسری قسط: ملالہ کی ڈائری: ’شاید دوبارہ سکول نہ آسکوں‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).