احتجاجی مظاہرے، عوام اور میڈیا


کچھ لوگ نیک نیتی سے سمجھتے ہیں کہ میڈیا ہماری معاشرت میں صحت مند تبدیلی لا سکتا ہے۔ میں ان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ قارئین میری رائے سے اتفاق کریں یا نہ کریں مگر اس حساس مسئلے پر ان کا غوروفکر کرنا ضروری ہے کیونکہ میڈیاکے آئندہ رویے سے پاکستان کا مستقبل جُڑا ہوا ہے۔

اس بارے میں سوچتے ہوئے ایک انگریز جے ڈی ایچ چیپ مین کی باتیں یاد آ رہی ہیں جو میرے زمانہ طالب علمی میں کیڈٹ کالج حسن ابدال کے پرنسپل تھے۔ یہ 1968ء کا ذکر ہے ۔ پورے ملک میں ایوب حکومت کے خلاف احتجاج زوروں پر تھا۔ پرنسپل صاحب کا تعلق برٹش آرمی کی ایجوکیشن کور سے رہا تھا۔ کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ کافی عرصے سے پاکستان میں مقیم تھے اور انہیں حکومت کے خلاف مظاہروں کے دوران گھیرائو جلائو اور بڑھتے ہوئے تشدد کے حوالے سے پاکستان کی فکر رہتی۔ انگلستان کی مثالیں دینے کا شوق تھا۔ ایک روز دل سوز لہجے میں بتایا کہ لندن میں لوگوں کو کسی فیصلے سے اختلاف ہو تو پلے کارڈ پر اپنے مطالبات لکھ کر اس ادارے کے دفتر کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ متعلقہ ادارے کے کرتا دھرتا انہیں دیکھ کر یقین دلاتے ہیںکہ مطالبات نوٹ ہو گئے ، اگر معاملہ وزیرِاعظم کی سطح کا ہو تو عوام 10۔ ڈائوننگ ا سٹریٹ پہنچ جاتے ہیں۔ وزیر اعظم موجود ہوں تو کھڑکی میں آکر ہاتھ ہلاتے ہیں، اگر وزیر اعظم موجود نہ ہوں تو ان کا نمائندہ مظاہرین سے لکھی ہوئی درخواست وصول کر لیتا ہے۔مظاہرین یہ خیال رکھتے ہیں کہ عوام کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ کرنل صاحب نے اس بات کی دو وجوہات بتائیں۔ اوّل یہ کہ معاشرے کی سماجی ترقی کا اندازہ اسی بات سے ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے ہاتھوں آزار کا شکار نہ ہو۔دوسری وجہ آج کی تحریر کا مرکزی خیال ہے۔ کرنل صاحب نے کہا کہ اگر مظاہرین کے ہاتھوں کسی شہری کو تکلیف پہنچے تو میڈیا اس کی ایسی خبر لیتا ہے کہ رائے عامہ مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف ہو جاتی ہے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد میں ایک سال تک پنجاب پبلک سروس کمیشن میں تعینات رہا۔ اس وقت کمیشن کا دفتر شملہ پہاڑی کے پاس تھا۔ سڑک کے دوسری جانب لاہور پریس کلب کا دفتر تھا۔ وہاں روزانہ کوئی نہ کوئی گروہ مظاہرہ کرنے پہنچ جاتا۔ وہ سب سے پہلے ٹریفک روکتے۔ دوپہر کے رش آور میں پولیس ٹریفک کا بہائو متبادل راستوں کی طرف موڑتی۔ بہت دیر کے لئے پورا علاقہ ساکت ہوجاتا۔ کاریں ،بسیں، ٹرک اور موٹر سائیکل سوار رکنے پر مجبور، ہارن بجا کر غم و غصے کا اظہار کرتے۔ عام لوگ روزانہ خوار ہوتے اور آج کل بھی ہو رہے ہیں۔ واپڈا میں دو سال سے زائد تعینات رہنے کے بعد مستعفی ہوا۔ واپڈا ہائوس کے دفتر کی کھڑکی سے روزانہ دیکھتا کہ چیئرنگ کراس پر کسی گروہ نے ٹریفک روکی ہوئی ہے۔ عوام کی مشکل کا کسی کو احساس تک نہیں ہوتا تھا۔

انسانی عقل کا تقاضا ہے کہ احتجاج سے بے گناہ راہ گیروں کو تکلیف نہ پہنچے، مگر عجیب بات ہے کہ مظاہرین اس کے بالکل اُلٹ لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کا کوئی ڈر یا خوف نہیں ہوتاکہ عوام کو پہنچنے والی تکلیف کے لئے میڈیا انہیں ذمہ دار ٹھہرائے گا۔ وہ عوامی حمایت سے محروم ہو جائیں گے اور ممکن ہے کہ حکومت کا رویہ بھی نرم ہونے کی بجائے سخت ہو جائے۔ سیاسی پارٹیاں جو عوام کا ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہیں، وہ بھی حکومتِ وقت پر دبائو ڈالنے کے لئے منفی حربے استعمال کرتی ہیں اگر انہیں میڈیا کی تنقید کا ڈر ہو تو وہ ایسا رویہ نہ اپنائیں۔اس بے حسی کے ماحول میں ٹیلی وژن کا رپورٹر ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی مظاہرے کی رپورٹنگ میں مطالبات کے جائز ہونے کے جواز کا جائزہ نہیں لیاجاتا۔ رپورٹر عام طور پر حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کا آسان راستہ منتخب کرتے ہیں۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ نہ تو رپورٹر کو ٹریننگ دی جاتی ہے اور نہ اس میں غیر جانبداری سے مسئلے کو کھنگالنے کی اہلیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کہیں ایساتو نہیں کہ الیکٹرونک میڈیا، ٹریفک جام کرنے والوں کا احسان مند ہوتا ہے۔ انہی مظاہروں کی وجہ سے چوبیس گھنٹے خبروں کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ پتھرائو ہو رہا ہو، سرکاری املاک کو آگ لگائی جا رہی ہو، سڑک بلاک کرنے سے ٹریفک جام ہو جائے، گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جائیں ، میڈیا کے لئے خبروں کی کمی نہیں رہتی۔ ان حالات میں رپورٹر مشکلات میں گھرے عام لوگوں کے انٹرویو لینا شروع کرتا ہے۔ ان بیچاروں کو کیا علم کہ ٹریفک کس نے روکی ہے؟ مظاہرین کا مطالبہ کیا ہے؟ کیا وہ مطالبہ جائز بھی ہے یانہیں؟ ٹریفک میں پھنسے ہوئے لوگ تو اپنا غصہ حکومت پر ہی اُتار سکتے ہیں۔ اس طریقے سے میڈیا بالواسطہ طور پر مظاہرین کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ کبھی کبھار میڈیا کے رپورٹر کو یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ ٹریفک کس نے روکی ہے۔ کوئی گروہ اپنی تنخواہ بڑھانا چاہتا ہے یا اپنی عارضی حیثیت کو مستقل ملازمت میں تبدیل کروانے کا خواہاں ہے یا بغیر کسی وجہ کے کوئی ناجائز مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے کہ وہ غیر جانبداری سے مطالبات کا جائزہ لے کر عوام کو حقائق سے آگاہ کریں۔

کرنل چیپ مین نے پچاس سال پہلے بتایا تھا کہ برطانوی میڈیا سیاسی گروہوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ عوام کے حقوق کا احترام کریں، اگر ان کی وجہ سے عوام کو مشکل پیش آئے تو رپورٹنگ اس طرح کی جاتی ہے کہ مطالبات کو عوامی حمایت نصیب نہ ہو۔ کیا ہمارے میڈیا کو اس بارے میں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے؟ کیا اسے بیک گرائونڈ میں جلتی ہوئی بس کی تصویر سے دلچسپی ہے یا پاکستان میں بڑھتے ہوئے پر تشدد مظاہروں کے بارے میں تشویش؟ رپورٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مظاہرین کے درمیان گھُس کر اُن کی حمایت میں تقریر کرتا نظر آئے۔ وہ مظاہرین کی ناجائز حوصلہ افزائی بھی کرے تو دفتر میں بیٹھے ہوئے ایڈیٹر کو تشویش نہیں ہوتی۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مظاہرین اس قدر منہ زور ہو چکے ہیں کہ وہ بزور طاقت اپنے حق میں خبر لگواتے ہیں۔ نافرمانی کرنے والے رپورٹر کو پٹائی کا ڈر رہتا ہے۔ اس کا کیمرہ چھین لیاجاتا ہے اور کبھی کبھار تو چینل کی وین بھی نذر آتش کر دی جاتی ہے۔ ان حالات میں میڈیا کی تمام تنظیمیں سیاسی پسند یاناپسند سے بالا تر ہو کر رائے عامہ کو پرتشدد رویے کے خلاف بیدار کریں گی تو پاکستان کی معاشرت میں مثبت تبدیلی آ جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood