فالٹ لائن پر تعمیر کیا گیا شہر


زمین کی تہہ ”کرسٹ“ کہلاتی ہےجس کو ارضیاتی زبان میں ”اوشیانک (بحری)کرسٹ“ اور ”کانٹی نینٹل (بری)کرسٹ“ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ کرسٹ کے نیچے زیر زمین کا تقریباً چوراسی فیصد حصہ مینٹل کہلاتا ہے اور مینٹل سے نیچے زمین کی کور ہے۔ زمین کی تہہ (کرسٹ) اور پگھلی ہوئی دھاتوں پر مشتمل مینٹل کی اوپری سطح کو ”پلیٹ“ کہا جاتا ہے۔ زمین کی سطح سات بڑی اور دس چھوٹی پلیٹوں سے بنی ہوئی ہے۔ ہر بڑی پلیٹ کا رقبہ بیس ملین یعنی دو کروڑ مربع کلومیٹر سے زیادہ، اور ہر چھوٹی پلیٹ کا رقبہ بیس ملین مربع کلومیٹر سے کم لیکن ایک ملین یعنی دس لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ یہ پلیٹیں متحرک ہیں اور مینٹل کی بیرونی سطح کے چپچپے سیال حصہ کے اوپرنہایت آہستگی سے تیرتی رہتی ہیں۔

ارضیات یا جیالوجی کی زبان میں فالٹ ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سطح زمین پر موجود پلیٹوں کا ایک دوسرے سے ملاپ یا تصادم ہوتا ہے۔ اگر گذشتہ دس ہزار برس میں باہم متصادم پلیٹوں میں کسی ارتعاش یا حرکت کو نوٹ کیا گیا ہو تو ان پلیٹوں کےفالٹ کو متحرک فالٹ کہا جاتا ہے۔ متحرک فالٹ کسی بھی وقت زلزلوں کا باعث بن سکتےہیں۔ پانچ کروڑ برس قبل یوریشین اور انڈین پلیٹوں کے باہمی تصادم سے ایک متحرک فالٹ معرض وجود میں آیا تھا۔ اس متحرک فالٹ کو ”روات فالٹ“ کہتے ہیں۔ یہ فالٹ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر و ضلع راولپنڈی کی تحصیل مری کے قصبے روات سے شروع ہو کر کشمیر کی وادیوں تک چلا جاتا ہے اور سلسلہ کوہ ہمالیہ میں مدغم ہو جاتا ہے۔ ہمارا دارالحکومت اسلام آباد عین اس فالٹ کےاوپر واقع ہے۔ فالٹ مگرانگریزی زبان کا ایک لفظ بھی ہے۔ اردو میں اس کاترجمہ غلطی، خرابی یا نقص کیا جاتا ہے۔

1947 میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو پاکستان کا پہلا دارالخلافہ کراچی تھا۔ انیس سو ساٹھ کی دہائی میں اس وقت کے باوردی صدر جنرل ایوب خان نے دارالخلافہ کو کراچی سےمنتقل کرنےکا فیصلہ کیا تو نظرانتخاب اس جگہ پر پڑی جہاں پراس وقت اسلام آباد، آباد ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے آخر میں دار الخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ انیس سو تہتر کے متفقہ جمہوری آئین کے آرٹیکل دو کی شق (ب) میں اسلام آباد کو دارالحکومت اسلام آباد لکھا گیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس دارالحکومت کا کُل رقبہ نو سو چھ مربع کلومیٹر جبکہ اس کی آبادی کا تخمینہ حالیہ مردم شماری میں لگ بھگ گیارہ لاکھ نفوس کا لگایا گیا ہے۔

یہ معلوم نہیں کہ اسلام آباد کو بسانے سے قبل ”فالٹ“ کے بارے میں سوچا گیا تھا یا نہیں۔ آیا ”فالٹ“ کا علم ہی نہیں تھا یا جان بوجھ کر ”فالٹ“ کو نظر انداز کیا گیا۔ یا پھر ذہن میں یہ سوچ رہی ہو کہ ”متحرک فالٹ“ پر ہونے کی وجہ سے یہاں پر ” فالٹ“ حرکت میں رہیں گے اور گلشن کا کاروبار چلتا رہے گا۔ بہرحال وجہ جو بھی رہی ہو، حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام آباد کے قیام سے لے کر اب تک اس شہر میں ”فالٹ“ متحرک ہیں۔ ”فالٹ لائن ” پر تعمیر اس شہر کی کشش ایسی زبردست ہے کہ اربابِ سیاست اور وہ جو اہل سیاست نہیں ہیں، حکومت میں آنے سے پہلے اور بعد میں بھی ”فالٹ“ کی سیاست کرتے ہیں۔

ماہر ارضیات زمینی حقائق کے بارے میں مؤقررائےرکھتےہیں جو کہ منطقی سیاسی دلائل سے یقیناً بہتر ہوتی ہے۔ ان کے مطابق ”فالٹ“ جتنا سطحی ہوتا ہے اس سے ممکنہ زلزلےکی ہلاکت خیزی اتنی ہی زیادہ ہو سکتی ہے۔ اسلام آباد میں سب سے پہلا ”فالٹ ” انیس سو چوہتر میں متحرک ہوا جب عوام کے منتخب نمائندوں نے حاکم مطلق کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرتے ہوئے وہ اختیار استعمال کیا جو انہیں تفویض ہی نہ کیا گیا تھا۔ اس سے آنے والے زلزلے کے آفٹر شاکس اب تک اس ملک میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ دوسرا ”فالٹ“ انیس سو ستتر میں متحرک ہوا جب ایک فوجی آمرنے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر عنان حکومت سنبھالی۔ اس فالٹ کے متحرک ہونے سے اگلےگیارہ برس تک پاکستان کی سیاست میں زلزلہ رہا۔ انیس سو اٹھاسی سے انیس سو ننانوے تک ملک میں چھوٹے موٹے ”فالٹ“ متحرک ہوتے رہے جن سے معمولی شدت کے زلزلے آتے رہے۔

ایک ”فالٹ“ بارہ اکتوبر 1999کو متحرک ہوا جس سے آنے والے زلزلے کی شدت نے ملک کے سیاسی اور جمہوری نظام کو تہ وبالا کر کے رکھ دیا۔ نو سال تک متحرک رہنے والے اس ”فالٹ“ نے ملک کے مستقبل پر گہرے اثرات چھوڑے۔ اور اس کے بعد تو بے تحاشہ ”فالٹس“متحرک ہو گئے۔ سب سے بھاری ”فالٹ“ ایک حادثے کے باعث متحرک ہوا اور پانچ سال تک ملک جھٹکوں کی زد میں رہا۔ اس دوران ملک کے آئین میں اٹھارویں ترمیم بھی ہوئی اور جھٹکوں کی نوعیت شدید ہو گئی۔ پاکستان میں اکتوبر کا مہینہ اکثر اچھی یادیں اپنے پیچھے چھوڑ کر نہیں جاتا۔ چھ برس قبل اکتوبر ہی کے مہینے میں ایک ”فالٹ“ کھیلتے کھیلتے متحرک ہو گیا۔ اس ”انتہائی متحرک فالٹ“ کے اثرات فوری طور پر نمایاں نہیں ہوئے بلکہ کچھ عرصہ کے بعد سیاست میں پینتیس۔ چھتیس سال سے متحرک ”فالٹ“ کو مذکورہ ”انتہائی متحرک فالٹ ” نے جو شدید جھٹکے پہنچائے وہ ہم سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

ابھی حال ہی میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے انتخابی اصلاحات کے بل میں جو ترامیم کیں ان میں ایک ”زبردست فالٹ“ متحرک ہوا اور پورا ملک شدید زلزلے کی لپیٹ میں آ گیا۔ اس زلزلے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ حکومت کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں۔ آفٹر شاکس کے طور پر پہلے شعلہ بیاں ڈاکٹر جلالی اور پھر ”شیریں گفتار“ خادم رضوی پاکستان کے صوبہ پنجاب سے شروع ہونے والی ”فالٹ لائن“ پر واقع دارالحکومت پر یکے بعد دیگرے بلائے ناگہانی کی طرح نازل ہوئے۔ مطالبہ ان کا آئینی ترمیم میں ہونے والے ”فالٹ“ کی درستگی اور ”فالٹ“ کے ذمہ داران کے خلاف ”تسلی بخش“ کارروائی کا تھا۔ ہمارے ہاں آفات میں فوج طلب کر لینے کا دستورعام ہے چناچہ اس آفت سے نبٹنے کے لیے بھی حکومت نے فوج طلب کر نے کا فیصلہ کیا اورہمیشہ کی طرح فوج نے ”خوش اسلوبی“ سے اس آفت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پالیا۔ تاہم بعض حکومتی ارکان تاحال ردِ بلا کے لیے مختلف وظائف یعنی توبہ اور اِستغفار کرنے کے ساتھ ساتھ تجدیدِ ایمان کرتے پائے جا رہے ہیں۔

سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس شہر کی بنیادیں ”فالٹ ” پر اٹھائی گئی ہوں وہ شہر پائیدار کیونکر ہو سکتا ہے۔ اگر اسلام آباد کی منصوبہ بندی کرتے وقت ”فالٹ“ کا جائزہ لے کر اس کا سدباب کر لیا گیا ہوتا اور شہر اقتدار کی بنیادیں مضبوط اورپائیدار انداز میں تعمیر کی گئی ہوتیں تو ہم لوگ دائروں کا سفر نہ کر رہے ہوتے۔ کمزور بنیادوں پر کھڑی عمارت کی بار بار مرمت کرنے کے بجائے زمانے کے ساتھ کندھے سے کندھا اور قدم سےقدم ملا کر چل رہے ہوتے۔ دنیا میں ہمارا نام ایسی قوم کے طور پرنہ جانا جاتاجو اپنی مرمت کے لیے بھی غیروں سے مدد مانگتی ہے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad