رابندر ناتھ ٹیگور کی کہانیوں میں عورت کی بیداری


بنگالی جدید افسانے کے بانی عظیم ادیب ٹیگور کی سوانح عمری کے مطالعے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کی تخیلاتی اپچ اور تخلیقی سمت متعین کرنے میں ان کے گرد و پیش کے عوامل کا کیا کردار رہا ہو گا۔ انیسویں صدی کے آخیر اور بیسویں صدی کی ابتدائی دھائیوں میں ہندوستان میں سیاسی سطح پہ انگریزی تسلط کے خلاف آزادی کی جدوجہد، تیزی سے بدلتے سماجی اقدار، عورتوں میں تعلیم حاصل کرنے کی تحریک، اور حقوق حاصل کرنے کے لئے بیداری کی لہر۔ غرض ان تمام حالات کا واضح اثر ان کی تحریروں میں واضح محسوس کیا جا سکتا ہے۔

ٹیگور کی افسانہ نگاری کا سفر 1877 میں 16 برس کی عمر میں لکھی گئی پہلی کہانی بھکارنی سے شروع ہوا۔ اور ایک طویل عرصہ ادب کے افق پر چھائے رہنے کے بعد 1941 میں بسترِ مرگ پہ تخلیق کی ہوئی کہانی لیبارٹری پہ اختتام پذیر ہوا۔ اپنی کہانیوں میں عام افراد کی زندگیوں سے تعلق رکھنے والے منفرد موضوعات، سادہ، دلنشین اور رواں انداز تحریر نے انہیں بنگلہ ادب نہیں بلکہ دنیا کے صفِ اول کے عظیم افسانہ نگاروں مثلا موساپاں، چیخوف، ایڈگر ایلن وغیرہ کے درمیان نمایاں مقام عطا کیا۔

مضمون کے اس حصہ میں ان کے مختلف افسانوی ادوار کا جائزہ لیا جائے گا۔ منفرد اندازِ تحریر کے علاوہ امن و انسان دوستی کے پیغام پہ مبنی ان افسانوں کی بلاشبہ ایک تاریخی حیثیت ہے۔ بطورِ خاص ان کہانیوں کا تجزیہ بھی کیا جائے گا جو انہوں نے عورتوں کی پست سماجی حیثیت کے حوالے سے انتہائی دردمندی سے رقم کیں۔ کیونکہ انہوں نے اس موضوع کو سنجیدہ مسئلہ سمجھا اور اپنی ان کہانیوں کے ذریعے سماج کی فرسودہ رسموں اور عورتوں کو کم تر سمجھنے والے غیر منصفانہ نظام کو چیلنج کیا۔

ٹیگور کی کہانیوں کا خاصہ معاشرے کے نظر انداز کیے گئے ان کرداروں کا چناؤ ہے جن کی کوئی آواز نہیں۔ غریب اور حالات کے مارے انسان اور جاگیردار طبقہ کے ہاتھوں پسے مرد اور عورت۔ ان کی کہانیوں کے موضوعات فطرت، محبت سماجی مسائل، انسانی رشتے اور ان کے مابین نفسیاتی گتھیوں کا سلجھاؤ ایک ماہر نفسیات کی مانند، ۔ ان کی انگلی سماج کی نبض پہ تھی۔ اور مرد ہوتے ہوئے بھی انہوں نے عورت کی نفسیات کو حیران کن حد تک مہارت سے پیش کیا۔ ان کی کہانیوں میں حقیقت، سادگی، شاعرانہ تخیلاتی حسن اور انسانیت کا عالمگیر تصور ہے۔ انہوں نے اپنی کہانیوں میں سماجی تضادات واضح کرنے کی کوشش کی۔ مثلا دیہاتی اور شہری زندگی کا تضاد، نئی اور پرانی قدروں کی چپقلش، ظالم اور مظلوم، بے حسی، اور شدید حسیت، تنہائی اور ہجوم، امیری اور غریبی اور پھر بطور خاص مرد اور عورت کے مابین رویوں کا فرق۔ انہوں نے ان تضادات کا دردمندی سے گہرا نفسیاتی مشاہدہ کیا اور غیر ضروری تفصیلات اور لفاظی سے گریز کرتے ہوئے، اہم موضوع اور پیغام پر توجہ مرکوز رکھی۔

ان کی کہانیاں کسی بھی بظاہر کسی بھی معمولی اور غیر اہم واقعہ سے شروع ہو کر اردگرد کے ماحول کی تفصیل کو شامل کرتی ہوئی، سادگی اور روانی سے بنتی چلی جاتی ہے۔ ان میں گندھی اداسیوں کے باوجود ان کا انداز فکر رجائی ہے۔ جو زیادتی کے شکار افراد کو محنت، عزت اور خود اعتمادی سے جینے اور آگے بڑھنے کا سبق دیتا ہے۔ کبھی ان کے کردار ہی راوی ہوتے ہیں یعنی کہانی فرسٹ فارم میں لکھی جاتی ہے اور کبھی تھرڈ فارم میں بیان ہوتی ہے۔ غیر روایتی انداز میں لکھی گئی ان کہانیوں کا اختتام غیر متوقع موڑ لے کر قاری کو چونکاتا اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اسطرح وہ قاری سے اس کی فکر اور جواب کے متمنی ہیں۔ کیونکہ سوچ اور تبدیلی کے عمل میں وہ اپنے پڑھنے والوں کو شامل کرنا چاہتے تھے۔

ٹیگور کی کہانیوں کے ادوار

ناقدین نے ٹیگور کی کہانیوں کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ ان کی کہانیاں(جن کی تعداد متنازعہ لیکن سو سے اوپر ہے۔ )ماسوا چند کے تین جلدوں میں’’ گلپ گچھ ‘‘میں جمع کر دی گئی ہیں۔ ان کی کہانیوں کا پہلا دور شادھنا دور کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ کہانیاں خود اپنے مرتب کردہ رسالے شادھنا میں شائع ہو رہی تھیں۔ یہ زمانہ 1891 تا 1898 کا تھا۔ اپنی تخلیقی زرخیزی کے اس دور میں انہوں نے تواتر سے انسٹھ(59) کہانیاں لکھیں جو ان کی کل کہانیوں کی آدھی سے زیادہ تعداد ہے۔

یہ وہ ابتدائی دور ہے کہ جب ٹیگور 1890 میں اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کے لئے بنگال کے شہر کلکتہ سے دیہات مثلا ڈاما منتقل ہو گئے تھے۔ کلکتہ جیسے بڑے شہر سے یہاں آنے کے بعد ٹیگور نے فطرت کے خوبصورت ماحول اور دیہات میں رہنے والوں کی زندگیوں کو دل کی گہرائیوں اور انسانی جذبے کے ساتھ پوری دردمندی سے لکھا۔ اپنے اس دور کی کہانیوں کے متعلق ٹیگور نے 1895 میں ایک خط میں یہ رائے لکھی۔

’’شادھنا کے لئے میں ایک کہانی لکھنے بیٹھا ہوں تو میرے الفاظ میں میرے گرد و پیش کی روشنیاں، سائے اور رنگت سب شامل ہو گئے ہیں۔ یہ آفتاب، یہ بارش، یہ ندی اور یہ ندی کے کنارے کے سرکنڈے، یہ برسات کا موسم، یہ سایہ سے ڈھکی ہوئی بستیاں اور یہ ہرے بھرے کھیت جو میرے سامنے ہیں۔ انہی کے پس منظر میں میری کہانی کے واقعات، ان کا محل وقوع اور اشخاص کا تصور میرے ذہن میں ابھرا ہے۔ اور اسی وجہ سے اس میں سچائی کا رنگ پیدا ہو گیا ہے۔

برسات کے موسم میں آج کے بے ابر دن میں اس چھوٹے سے چشمے کا پانی جو آفتاب کی روشنی میں میرے سامنے چمک رہا ہے۔
یہ ندی کا کنارہ اور درختوں کا سایہ اور اس دیہات کی شانتی کی تصویر، اس نقشے کو اگر میں اپنی کہانی میں ہو بہو کھینچ سکوں تو اس کا پڑھنے والا بلاتامل میری کہانی کی سچائی کی تصدیق کرے گا۔ ‘‘(صفحہ 13۔ اکیس کہانیاں)

ٹیگور کی شادھنا دور کی کہانیوں کے موضوعات خالصتا مشرقی ہیں۔ جن پر کسی مغربی ادب کا اثر نہیں۔ بنگال کے ماحول میں رچی بسی کہانیاں۔ پوسٹ ماسٹر، کابلی والا (1892) اور بھوکا پتھر، رشمونی کا لڑکا (1895)جیسی اعلی معیار اور مقبول کہانیاں اس دور کی لکھی ہوئی ہیں۔ کہانی کابلی والا جسے ہندوستان کے مشہور ہدایت کار ستیہ جیت رائے نے فلم میں ڈھالا ہے۔ افغانستان کے غریب الوطن میوہ فروش رحمت کی کہانی ہے جو کہ نہ صرف کرخت طبیعت کا مالک ہے بلکہ جیل بھی جاتا رہا ہے۔ ایک معصوم پانچ سالہ بچی مینی کی بھولی بھالی باتوں کی وجہ سے اسے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے جو اسے اپنے دور افتادہ وطن میں رہنے والی بیٹی کی یاد دلاتی ہے۔ وہ اپنی بیٹی کی تصویر ہمیشہ ساتھ لئے پھرتا ہے۔ ایک قتل کے جرم میں دس سال جیل میں رہنے کے بعد جب وہ بطور خوانچہ فروش بینی کے گھر جاتا ہے تو وہ بینی کی شادی کا دن ہوتا ہے۔ باوجود شخصیت اور حالات کے تضاد کے رحمت اور بینی کا باپ ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں۔ کیونکہ دونوں میں ایک ہی سا دل ڈھرکتا ہے۔ محبت کرنے والے باپ کا۔ جو انسان کی برابری کی مثال ہے۔

ٹیگور کے پہلے دور کی کہانیوں میں عورت جاں نثار ماں، پتی ورتا بیوی اور خدمت گذار بیٹی ہے۔ وہ عورت کی مثالی محبت، پاکبازی، وفا شعاری، ایثار، قوت برداشت اور بہادری کے قائل تھے۔ اور اس کو اونچے درجہ پہ فائز دیکھنا چاہتے تھے۔ مثلا راشمنی کا لڑکا جس میں کالاپدو کہ جو اپنی محنتی، ہمت والی محبتی ماں کی وجہ سے ایک حساس اور ارادے میں مضبوط لڑکا ہوتا ہے۔ باوجود اپنی جسمانی کمزوری اور غربت کے۔

’’پوسٹ ماسٹر‘‘ میں بارہ سالہ ان پڑھ رتن شہر سے آنے والے پوسٹ ماسٹر کی اس کی بیماری کے زمانے میں ماں کی طرح خیال رکھتی ہے۔ خدمت گذار بیٹی کی طرح ہر چیز کی فکر۔ کہانی’’ نیم شب ‘‘میں ایک اندھی بیوی اپنے شوہر کی جذباتی آسودگی کا اتنا خیال رکھتی ہے کہ اپنی جان دے دیتی ہے۔ ٹیگور نے جہیز، زبردستی کی شادی، بیواؤں کی حق تلفی، ان پر ہونے والے نفسیاتی تشدد اور سماج میں رائج فرسودہ رسوم کے خلاف مسلسل قلم سے جنگ لڑی۔

ٹیگور کی کہانیوں کے درمیانی دور کو ’’سوچ پتر‘‘ زمانہ کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں شائع ہونے والی کہانیاں زیادہ تر رسالہ سوج پتر میں چھپیں جس کے مدیر پروتھو چودھری تھے۔ جس میں 1898 سے 1911 کے دوران ان کی چھ کہانیاں چھپیں۔ جبکہ 1914 سے 1917 کے درمیان دس کہانیاں شائع ہوئیں۔

اس دور کی کہانیاں اچھی مگر مختلف ہیں۔ اس میں بنگال کے دیہات کا پس منظر اور کردار بدل گیا ہے۔ ٹیگور کی توجہ سیاسی اور سماجی حالت کو سدھارنے میں لگ گئی۔ مثلا 1901 میں انہوں نے اپنے تجرباتی اسکول کی بنیاد رکھی۔ ثقافت و فن کا مرکز شانتی نکتن کلکتہ کے شمال میں واقع یہ ادارہ 1920 میں ویسوا بھاراتی انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل ہو گیا تھا۔ اس دور کی کہانیوں میں سیاسی اور سماجی انقلاب کے زیر اثر نئی پڑھی لکھی متوسط طبقہ کی جدوجہد سے متعلق مسائل کو موضوع بنایا گیا۔ بدلتے اقدار اور زندگی کا رویہ۔ انہوں نے مردوں کی سوچ کا چہرہ چاک کیا۔ اور مذہب، دھرم اور فرسودہ روایات کے نام پر عورتوں کے ساتھ ہونے والے غیر مساوی سلوک پہ تنقید کی۔ یہ کہانیاں بہت اہم اور مقبول ہیں۔

عمر اور ذمہ داریوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی فکروں اور پریشانیوں نے پچھلے دور کی لکھی کہانیوں کی تازگی، بے ساختگی اور مسرت میں کمی کر دی۔ مثلا 1932 میں ایک خط میں لکھتے ہیں۔

۔ ’’بنگال کے دیہاتوں میں جب فطرت کے آمنے سامنے رہا کرتا تھا تو میرے دن مسرت کی طغیانی میں گزرا کرتے تھے۔ وہی مسرت ان سیدھی سادھی کہانیوں میں موجیں مار رہی ہے۔ اب میں بنگال کے دیہاتوں کی محبت بھری مسافر نوازی سے بہت دور آ پڑا ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرا موٹر کی طرح تیز چلنے والا قلم ادبیات کے اس ٹھنڈے سایہ دار صحرائی راستوں پر سے اب کبھی نہیں
گزرے گا۔ ‘‘ صفحہ 12 (اکیس کہانیاں)

اس دور کی کہانیوں میں بنگال میں عورت کی بیداری کی تحریکیں سر اٹھا چکی تھیں۔ جن کی شروعات میں ٹیگور کا اپنا گھرانہ پیش پیش تھا۔ مثلا 1876 میں ٹیگور کی بہن سوارنا کماری نے بیوہ عورتوں اور جوان غیر شادی شدہ عورتوں کی اقتصادی خوشحالی کے لئے ایک آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ وہ کانگریس کے اجلاس میں اپنے شوہر کے ساتھ شرکت کرنے جاتی تھیں۔ سوارنا نہ صرف پہلی ناول نگار بلکہ ایک رسالے کی مدیر بھی تھیں۔ اس سے پہلے باوجود مخالفتوں کے بنگال میں 1849 میں عورتوں کا علیحدہ اسکول شروع ہو چکا تھا۔ اس زمانے کی عورتوں نے قلمی یا اصلی ناموں سے لکھنا اور چھپنا شروع کر دیا تھا۔ اور عورت کی حیثیت سے متعلق سوال اٹھایا مثلا رضیہ سخاوت حسین (1880 تا 1930) جیسی ادیبہ کی تحریریں۔ کچھ روشن خیال مردوں نے بھی تحریک کا ساتھ دینا شروع کیا۔ مثلا قاضی نذر الاسلام نے لکھا۔
’’ میں مساوات کے گیت گاتا ہوں
میری نظروں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں‘‘

اس تغیر پذیر معاشرے کا عکس ہمیں ٹیگور کے درمیانی اور پھر آخری افسانوی دور میں نظر آتا ہے۔ واضح ہو کہ کچھ تنقید نگاروں نے ان کے افسانوی ادوار کو دو ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ یعنی گیتا انجلی (جس پر انہیں1913 میں نوبل پرائز ملا)سے پہلے اور گیتا انجلی کے بعد کا دور۔ نوبل پرائز ملنے کے بعد سے وہ تواتر سے امریکہ، یورپ اور کئی دوسرے ممالک میں لیکچرز دینے کی غرض سے بلائے جاتے رہے۔ اس کی وجہ سے انہیں مغرب کی تعلیم، ترقی اور ثقافت سے آشنا ہونے کا بہت موقعہ ملا۔ ان کی روشن خیالی اور سوچ میں تبدیلی کا واضح اثر ان کی تحریروں میں پڑا۔ ان کے افسانوں میں عورتیں اپنے حقوق سے آشنا ہو رہی تھیں۔ اور غیر منصفانہ سلوک کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کر رہی تھیں۔

یوں تو ان کے درمیانے دور کی بہت سی کہانیاں اعلی اور مشہور ہیں مگر مضمون کے اگلے حصے میں ہم نے ان کی دو اہم کہانیوں اور ان کے مرکزی کردار (خواتین)کا مقابلہ اور تقابل کیا ہے۔ ان کہانیوں کے عنوانات ہیں اجڑا آشیانہ اور، بی بی کا خط۔ دونوں کہانیاں دس سے زیادہ سالوں کے فرق سے لکھی گئی ہیں۔ لہذا ہم ان کے کرداروں میں رویہ اور آزادی کی گونج کا واضح فرق محسوس کر سکتے ہیں۔
۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).