میرا تازہ افسانچہ۔ کلمہ شہادت


میں آپ کی پرانی گاہک ہوں پچیس سو روپے دوں گی دینا ہے تو دو ورنہ میں جا رہی ہوں پہلے ہی بہت دیر ہوچکی۔ خاتون نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ نہیں باجی اتنے میں تو خرید بھی نہیں۔ مغربی لباس میں ملبوس نوجوان سیلز مین نے کاروباری مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے نفی میں سر ہلا دیا۔ سیلز مین کی تیز نظروں کے طواف اور زبان سے نکلے لفظ باجی میں کوئی مطابقت نہ تھی۔

پچھلے دس منٹ سے یہی بحث جاری تھی۔ طرح دار خاتون اپنی نو عمر بیٹی کے ہمراہ ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکان کے چمکتے شوکیس پر کہنیاں ٹکائے اپنی پسند کے فراک کی قیمت کم کروانے کے جتن کر رہی تھی اور زیرک سیلز مین اپنی چبڑی باتوں کے ذریعے زیادہ منافع لینے کی سعی میں مصروف تھا۔ دکان کے سامنے واقع سکول کے باہر لوگ جمع تھے اور اندر سے وقفے وقفے سے عورتوں کے بین کرنے کی آواز بھی آ رہی تھی۔

باجی بتیس سو روپے سے ایک روپیہ کم نہ ہوگا روزانہ کی پانچ ہزار کمیٹی، دکان کا ماہانہ کرایہ بجلی کے بل ہماری تنخواہیں۔ سو دو سو روپے تو حق بنتا ہے نا ایک فراک پر۔ اس نے ایک اور پتہ پھینکا۔ خاتون جواب دینے ہی لگی کہ قریبی مسجد کے سپیکر سے کھنکتی ہوئی سیٹی کی آواز سنائی دی۔ خاتون نے چپ سادھ لی کہ شاید عشاء کی اذان کاوقت ہوا چاہتاہے۔ حضرات ایک ضروری اعلان سنیے موزن کی آوازگونجی۔ حضرات ایک ضروری اعلان سنیے اعوان گارمنٹس کے عدنان اعوان صاحب کے برادر نسبتی محسن بٹ کا نماز جنازہ آج رات بعد نماز عشاء پڑھایا جائے۔ تمام حضرات سے گزارش ہے کہ اپنے دنیاوی کام چھوڑ کر نماز جنازہ میں شرکت کے لیے تشریف لائیں۔ مختصر اعلان ختم ہوا اور اس کے بعد اذان عشاء بلند ہو ئی اللہ و اکبر۔

خاتون کے جسم میں ایک سرد لہر دوڑ گئی اور وہ بیٹھ گئی۔ اذان کا احترام اپنی جگہ لیکن اس کی ٹانگوں میں اب مزید کھڑے ہونے کی سکت نہ تھی اسے یاد آیا کہ بروسوں قبل اس کے بھائی کی نماز جنازہ کا اعلان بھی اسی طرح ہوا تھا۔ کیسا سوگوار دن تھا کہ دل درد سے پھٹا جاتا تھا۔ کمرشل ایریے میں گھر ہونے کی وجہ سے ساری مارکیٹ بند ہو گئی تھی۔ بہت ہی محبت کرنے والا بھائی تھا جس کی کمی آج تک نہ پوری ہو سکی۔

خاتون نے اذان عشا ء خاموشی سے سنی۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ سیلز مین سے مزید بحث فضول ہے۔ واقعی بڑی دکان کے اخراجات بھی بڑے ہوتے ہیں۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے اپنے پرس میں سے بتیس سو روپے نکال کر سیلز مین کے سامنے شوکیس پر رکھے۔ جو اس نے جھٹ سے اٹھا کر دراز میں ڈال دیے اور فاتحانہ انداز میں فراک فینسی شاپنگ بیگ میں پیک کرنے لگا۔ شوخ رنگ کے اس شاپنگ بیگ پر بڑا سا اعوان گارمنٹس لکھا ہوا تھا۔

ایک ہاتھ میں بیٹی کا ہاتھ اور دوسرے ہاتھ میں فراک کا شاپر اٹھائے جب وہ دکان سے باہر نکلی تو اسی وقت بلند آواز میں خواتین کے رونے کی آواز سنائی دی اور سکول کے کھلے گیٹ سے میت کی چارپائی برآمد ہوئی۔ کندھا دیے ہوئے اشکبار آنکھوں والے نوجوان نے زور سے کہا۔ کلمہ شہادت۔ اور سب بآواز بلند کلمہ شہادت پڑھنے لگے۔
۔ ۔ ختم شد۔

راقم تحریر کا تعارف۔ خرم بٹ(سابق سینئر جوائنٹ سیکریٹری نیشنل پریس کلب اسلام آباد)۔ بائیس سال سے فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ مزاح نگار۔ کالم نگار۔ بلاگر۔ ون لائنر۔ بٹ گمانیاں کے نام سے طنز ومزاح لکھتے ہیں۔ ان کی غائب دماغی کی وجہ ان کی حاضر دماغی ہے۔

 

خرم بٹ
Latest posts by خرم بٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خرم بٹ

خرم بٹ(سابق سینئر جوائنٹ سیکریٹری نیشنل پریس کلب اسلام آباد)۔ بائیس سال سے فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ مزاح نگار۔ کالم نگار۔ بلاگر۔ ون لائنر۔ بٹ گمانیاں کے نام سے طنز ومزاح لکھتے ہیں۔ ان کی غائب دماغی کی وجہ ان کی حاضر دماغی ہے

khurram-butt has 10 posts and counting.See all posts by khurram-butt