لالو کھیت سے لاڑکانہ تک


کراچی اور حیدرآباد کے اردو بولنے والوں میں شناخت کا بحران ہے، قیام پاکستان کے بعد سے تقریبا ہر 20 برس بعد ان دو شہروں میں رہائش پذیر اردو بولنے والوں کی شناخت کو بدلا گیا ہے۔

قیام پاکستان کے فوری بعد کراچی اور حیدرآباد کے اردو بولنے والوں نے پاکستانی شناخت پر اصرار کیا، ریاست کا بیانیہ بھی پاکستانی شناخت کا فروغ تھا مگر اس سے خطے کی مستقل قومیتوں کی جانب سے شدید مزاحمت ہوئی اور ایک نتیجہ ملک دولخت ہونے کی صورت میں نکلا۔

ملک دولخت ہونے کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو کو اقتدار ملا، سندھی شناخت کے حامل ملک کے اس پاپولر لیڈر سے اردو بولنے والے بڑوں کو ایک خدشہ یہ پیدا ہوا کہ ان کی بیوروکریسی اور سیاست پر سے گرفت کم ہو جائے گی اور سندھی بولنے والے ان کی جگہ لے لیں گے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو کا فوکس پسماندہ طبقات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا تھا۔

اور اسی خدشے کے تحت رئیس امروہی کی “اردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے” کی تحریک بھی چلی۔ اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان ایک غیرتحریری معاہدہ بھی ہوا کہ اگر صوبے کا وزیراعلیٰ اردو بولنے والا ہوگا تو گورنر سدھی بولنے والا ہوگا، یہ معاہدہ کسی نہ کسی شکل میں اب تک برقرار ہے مگر سندھی بولنے والوں کے غلبے کے خدشے نے کراچی اور حیدرآباد کے اردو بولنے والوں کو مہاجر نام کی ایک نئی شناخت کی چھتری تلے پناہ لینے پر مجبور کردیا۔

ایم کیوایم کے قیام کے بعد سے مہاجر شناخت کو عروج ملا مگر 2002 میں اسی ایم کیوایم نے اردو بولنے والے سندھی کی ایک نئی شناخت کو اختیار کیا، الطاف حسین کا یہ حیرت انگیز اقدام دراصل خطے کی صورت حال اور اردو بولنے والوں کے مستقبل کو سامنے رکھ کر تھا۔ انہوں نے اگر علیحدہ صوبے کا بھی مطالبہ کیا تو یہ باور کرایا کہ اس کی وجہ اردو بولنے والے سندھیوں کو حقوق نہ دینا ہے۔ 2014 تک اگر ہم الطاف حسین کے بیانات کو دیکھیں تو بار بار اردو بولنے والے سندھیوں کی شناخت کا ذکر ملتا ہے مگر بظاہر ایم کیوایم کے بانی اس معاملے میں شاید کچھ کنفیوژڈ تھے کیونکہ جب ان پر سخت وقت آتا دیکھا گیا تو انہوں نے پھر سے مہاجر نعرہ لگا دیا۔

 الطاف حسین کی جانب سے مہاجر سے اردو بولنے والے سندھی کی شناخت کا سفر دراصل اس خدشے کی بھی تائید کرتا ہے کہ سندھ میں بازی پلٹ چکی تھی اور 70 کی دہائی میں اردو بولنے والے، سندھی بولنے والوں کی جس ترقی کو اپنے لیے خطرہ سمجھ رہے تھے، وہ خطرہ حقیقت کا روپ دھار چکا تھا۔

اردو بولنے والوں میں قوم پرستی کو ابھارنے کے لیے کوٹہ سسٹم کے نام پر احساس محرومی کو پیدا کیا گیا، سندھ میں کوٹہ سسٹم کا معاملہ سب سے پہلے جماعت اسلامی نے اٹھایا تھا اور اس ایشو کو من وعن ایم کیوایم نے 90 کی دہائی میں اپنایا۔

امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور بھارت کی طرح پاکستان میں بھی میرٹ کا نظام کوٹہ سسٹم کے تحت نافذ ہے، جسے کچھ کم فہموں نے میرٹ کے خلاف نظام بنا کر پیش کیا، کوٹہ سسٹم پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں نافذ ہے مگر اردو بولنے والوں کو بتایا گیا کہ یہ صرف سندھ میں ہے اور ذوالفقارعلی بھٹو نے سندھی بولنےوالوں کو فائدہ پہچانے کے لیے اس نظام کو تخلیق کیا۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کوٹہ سسٹم کا آغاز اردو بولنے والے ایک وزیراعظم لیاقت علی خان نے کیا، نومبر کی 15 تاریخ کو 1948 میں کوٹہ سسٹم کا پہلا نوٹی فکیشن جاری ہوا اور آخری نوٹی فکیشن ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے پہلے جنرل یحییٰ خان کے دور میں جنوری کی 16 تاریخ کو 1971 میں جاری ہوا، جس کی تیاری میں اردو بولنے والے بیوروکریٹ پیش پیش تھے۔

 میرٹ کے اس نظام کے تحت سندھ کے شہری علاقوں کا کوٹہ 40 فیصد جبکہ دیہی علاقوں کا کوٹہ 60 فیصد ہے، بظاہر یہ ایک ظالمانہ تقسیم لگتی ہے مگر آبادی کے اعتبار سے تقسیم کو مدنظر رکھا جائے تو 1972 کی مردم شماری کے تحت سندھ کی شہری آبادی 30 فیصد تھی اور ان کا کوٹہ 40 فیصد تھا جبکہ ابھی سندھ کی شہری آبادی 35 فیصد ہے اور اس اعتبار سے سندھ کے شہر اپنی آبادی سے پانچ فیصد زیادہ کوٹہ لے رہے ہیں۔

جب کوٹہ سسٹم کا پہلا نوٹی فکیشن جاری ہوا تھا تو اس میں 15 فیصد ان مہاجرین کے لیے بھی کوٹہ رکھا گیا تھا، جو ابھی ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان نہیں آئے تھے، اس وقت کراچی کی آبادی چند لاکھ تھی اور اس پر بھی اس شہر کو دو فیصد کوٹہ دیا گیا تھا۔

ایم کیوایم کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے تاہم بظاہر ابھی کوٹہ سسٹم اردو بولنے والوں کے براہ راست مفاد میں ہے، اس کی جہاں دیگر وجوہ ہیں وہیں وہاں ایک اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ قوم پرستی کی سیاست کے تسلسل نے اردو بولنے والوں کو تعلیم سے دور کردیا ہے، پہلے مقابلے کے امتحان میں اردو بولنے والے امیدوار سرفہرست ہوا کرتے تھے اور اب کوئی نظر آجائے تو تعجب ہوتا ہے اور سندھ کے شہری کوٹے کی نشستیں اکثر پنجابی اور پختون بولنے والے لے جاتے ہیں۔

یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ جنرل ضیاالحق کی ایما پر شروع ہونے والی قوم پرستی کی سیاست نے اردو بولنے والوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ قوم پرستی کی سیاست کی بنیاد مغالطوں پر رکھی گئی اور نفرت نے اس سارے عمل کو مہمیز کیا، آج صورت حال یہ ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے اردو بولنے والوں کی سیاسی پوزیشن رہی ہے اور نہ تعلیمی میدان میں ہم نمایاں ہیں، ایسے میں شاید ہمارے لیے بہتر ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں میں آنے والے اردو بولنے والوں کی طرح خطے کی مستقل قومیتوں سے اپنا رشتہ جوڑیں، ہمارے بڑوں نے ایسا نہیں کیا تو اس کا نتیجہ ہماری نسلوں نے بھگتا ہے، فیصل آباد اور بہاول پور سمیت ملک کے دیگر شہروں میں آنے والے مہاجرین آج زمین زادے اور دھرتی کے فرزند کہلاتے ہیں مگر کراچی اور حیدرآباد کے اردو بولنے والے اس احساس سے محروم ہیں۔

نفرت کی سزا کی قیمت ہم نے اپنی اقدار کی تباہی کی صورت میں وصول کرلی ہے، الطاف حسین کی اردو بولنے والے سندھی شناخت کی تجویز بری نہیں ہے، گو وہ خود اور اپنی پارٹی پر برا وقت آنے کے بعد پھر سے مہاجر شناخت کا نعرہ لگا رہے ہیں مگر بہرحال پرویزمشرف کے دور میں اپنے اچھے وقت میں انہوں نے اپنی تقریروں کے ذریعے شعوری کوشش کی کہ یہ شناخت عام ہوجائے۔

کراچی اور حیدرآباد کے اردو بولنے والوں نے صدیوں صدیوں اب یہیں رہنا ہے، سندھ ہمارا گھر ہے، کسی شناخت کو قبول کرلینے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ آپ اپنی اقدار، تہذیب اور زبان کو فراموش کردیں، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اردو بولنے والے سندھی ہیں تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہماری زبان اردو ہے، جس سے لکھنو اور دلی کی تہذیب جڑی ہے مگر ہمارا خطہ سندھ ہے۔

لالوکھیت اور لاڑکانہ میں قربتیں ضروری ہیں۔ ایک اور غلطی کی گنجائش نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).