ہم اتنے تنگ نظر کیوں ہیں؟


یورپ آکر جن پاکستانیوں سے دوستی ہوئی ہے ماشاللہ سب ہی پڑھے لکھے، اعلیٰ عہدوں پر فائز اور کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ ہیں۔ تمام ہی محبت اور اخلاق کی مثال ہیں اور ہمہ وقت اچھے مشورے دینے اور حتی الامکان مدد کرنے پر مستعد رہتے ہیں۔ بس بات اس وقت کچھ بگڑ جاتی ہے جب گفتگو کسی سماجی موضوع پر ہو، حالاتِ حاضرہ پر رائے زنی کی جائے یا پھر کسی طرف سے چبھتے ہوئے سوال پوچھ لئے جائیں۔ جیسے:

سوال: کیا آپ نے اپنے بچے کے سکول میں پڑھائی جانے والی کتاب خود کھول کر پڑھی ہے؟

جواب: ہمیں کیا ضرورت ہے؟!

سوال: کیا آپ نے کبھی تاریخ پر کوئی بھی کتاب پڑھی؟

جواب: ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ان میں کون سی سچ ہے اور کیا بکواس ہے بلاوجہ کیوں جھوٹ پڑھ کر اپنا دماغ خراب کریں؟!

سوال:یہاں کے لوگ عام طور پر ہمدرد اور ایماندار کیوں ہوتے ہیں؟

جواب: یہ سب انہوں نے ہم ہی سے سیکھا ہے۔

سوال:کم سن بچیوں کے ساتھ جنسی تعلقات کے اتنے بڑے سکینڈل میں ہمارے ہم قوم اور وہ بھی شادی شدہ لوگ کیوں ملوث ہیں؟

جواب 1: اس کی قصور وار وہ لڑکیاں خود اور ان کی مائیں ہیں جو اس قدر کم لباس میں کھلے عام گھومتی ہیں۔

جواب2: یہ جھوٹ الزامات ہیں ہمیں بدنام کرنے کی سازش ہے۔ آپ اپنا وقت یہاں کے اخبارات پڑھ کر ضائع کیوں کرتے ہیں!

پچھلے ہی سال کچھ دوستوں کی فرمائش پر اس ارادے سے کہ ہم سب اپنے بچوں کو اردو لکھنا پڑھنا اور صاف بولنا سکھائیں ہم نے پرائمری کی کچھ کتابیں پاکستان سے منگوائیں۔ ایک ہفتہ میں تین استعمال شدہ کتابیں ہمارے ہاتھ میں تھیں۔ خوشی اور تجسس کے ملے جلے احساس کے ساتھ سرورق پلٹ کر جب موضوعات دیکھے تو شبہ ہوا کہ کہیں غلطی سے اسلامیات کی کتابیں تو نہیں آگئیں۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی اردو کی چوتھی کتاب میں مضامین کی فہرست یوں ہے:

حمد، نعت، سیرتِ طیبہ ﷺ ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ، حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت فاطمہؓ ، امام ابو حنیفہ ؒ، قائداعظم ؒ ، ٹیپو سلطان، عیدالفطر، فاطمہ جناحؒ ، دو ننھے مجاہدؓ ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ، شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ ، شہری دفاع، مینارِ پاکستان، جیسی کرنی ویسی بھرنی، ارشادات و اقوال، اور چند نظمیں مثلا” ہمارا وطن، ہمدردی، ہوا، ایک ننھی بچی، ہماری زمین وغیرہ
اردو کی چھٹی کتاب میں موضوعات کچھ یوں ہیں:
حمد، سیرتِ ﷺ ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ ، نعت، جنگِ بدر، حضرت سلمان فارسیؓ ، قائد اعظمؒ اور طلبا ، قائد اعظمؒ اور فاطمہ جناحؒ ، اسلامی اتحاد، لیاقت علی خان، داتا گنج بخش ؒ، مولوی نذیر احمد، راشد منہاس شہید، ارشادات و اقوال وغیرہ وغیرہ

خیال آیا کہ اسلامیات دینیات میں پڑھا لی جاتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ جو مضامین مذہبی نوعیت کے تھے وہ تو تھے ہی اور وہ بھی جو غیر مذہبی ہو سکتے تھے ان میں بھی مذہبی پہلو کو خوب اجاگر کیا گیا تھا۔ مثلا” ٹیپو سلطان کے ایک اچھے مسلمان کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس نے عورتوں پر اوڑھنی(برقعہ) کی پابندی لازمی بنائی۔ اسی طرح ڈپٹی نذیر احمد کو مولوی نذیر احمد لکھ کر ان کے سب سے بڑے کارنامے یعنی تعلیمِ نسواں کے لیے ان کی کاوشوں کا ذکر بالکل ضمناً اور سرسری انداز سے کیا گیا تھا۔

چوتھی کے بچوں کو ایک اسلامی جنگ کے بارے میں بتایا گیا تھا جس میں دو ننھے مجاہد ایک دشمنِ اسلام کو گرا دیتے ہیں اور ان میں سے ایک مجاہد جلدی سے اپنی تلوار سے اس ملعون کی گردن تن سے جدا کردیتے ہیں۔

قائد اعظم اور علامہ اقبال کے ناموں کے سامنے رحمت اللہ علیہ لکھ کر یہ تاثر دیا گیا تھا جیسے وہ سیاسی رہنما، مفکر یا دانشور نہ ہوں بلکہ نعوز باللہ مذہبی شخصیات ہوں۔ فاطمہ جناحؒ کی ستائش میں مضامین میں اس بات کو لکھنا مناسب نہیں سمجھا گیا تھا کہ پچاس باون برس پہلے انہوں نے اپنے وقت کے آمر کے خلاف صدارتی الیکشن بھی لڑا تھا۔ ان کتابوں میں کوئی بھی مضمون ایسا نہ تھا جس کا تعلق آج کی دنیا سے ہو۔ نظمیں وہی تھیں جو ہم نے اپنے بچپن میں پڑھی تھیں۔ اقوال زریں میں صرف اور صرف قرآنی آیات، احادیث اور صحابہ کرامؓ کے ارشادات تھے۔

ہم نے ان کتابوں کے ہمراہ آئی ‘آسان اردو-3’ کھول کر دیکھی جو کراچی کے نچلے متوسط علاقوں کے پرائیوٹ اسکولوں میں تیسری کے بچوں کو پڑھائی جاتی ہے۔ اس میں بھی مضامین سرکاری کتب سے مختلف نہ تھے۔ ‘عملی کام’ کے عنوان سے خالی جگہ پر کرنے کی ایک مشق کے تحت سر تا پا سیاہ لباس میں ملبوس تین عورتیں دکھائی گئی تھیں جو بچوں کی گاڑیاں دکھیلتی چڑیا گھر میں پورا دن گزارنے کے بعد اپنے لئے چوڑیاں اور بالیاں خریدتی گھر واپس جارہی ہیں۔ اسی کتاب کے باب ‘دم دار ستارے’ میں جب بچہ اپنی ماں کو دم دار ستارہ دکھاتا ہے تو خوف کے مارے ان کا رنگ فق ہوجاتا ہے ایسے میں اّبا ہنس کر کہتے ہیں:”بیٹا ان پڑھ لوگ اپنی خام خیالی سے اس کو قحط، وبا یا کسی ایسے ہی بڑے حادثے کا موجب سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ تمہاری اماں ڈر گئیں۔”

وہ حقیقت جو خبر نہیں کیسے ہم بھول گئے تھے ایک بار پھر آشکار ہوگئی کہ یہ ہمارا تعلیمی نصاب ہی ہے جس نے کچے زہنوں کے سادہ صفحات پر یہ تحریر لکھ دی ہے کہ انسانی اخلاقیات اور اقدار کا ماخذ مذہب ہے. جو ایک نا مناسب بات ہے اور قوم پرستی اور حب الوطنی کی نفی کرتی ہے۔ اس میں کم سنوں کے سامنے تشدد کولائقِ تحسین بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ بنتِ حوا کا ایک روایتی کردار متعین کرنے کے ساتھ ان کی کم تر اور ثانوی حیثیت اچھی طرح ذہن نشین کرادی گئی ہے۔

ایسے نامور ادیب اور شعرا جن سے اردو زبان سمجھنے میں مدد مل سکتی تھی ان کتابوں سے بالکل خارج رکھے گئے تھے۔ ایسا کوئی مضمون جس سے پاکستانی تہذیب، تاریخ اور دنیا کے ملکوں میں کسی علیحدہ شناخت کا تصور ابھر سکتا ہو، ان کتابوں میں نہیں تھا۔ بچوں میں ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے پنجابی، پشتو، بلوچی، سرائیکی اور سندھی زبان، روایات اور رسومات کی حکایات کو یہاں کوئی جگہ نہیں دی گئی تھی۔

تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ ننھے منے لچک دار نونہالوں کو ایک ایسے سمجھدار، باشعور اورمعاملہ فہم فرد میں ڈھالا جائے جس کو اپنے ملک کے ماضی، حال اور مستقبل سے آگہی ہو۔جو بین الاقوامی حالات سے بھی واقف ہو۔ دنیا کونفرت و تعصب کے بغیر سمجھ سکے اورکسی تنگ نظری کا شکارہوئے بغیر آسانی سے لوگوں میں گھل مل سکے، غیر جذباتی انداز میں تجزیہ اور بحث پر قادر ہو۔ قانون کا احترام کرے اور انسانی معاشرے میں کوئی مثبت اور تعمیری کردار ادا کرسکے. بد قسمتی سے پاکستانی نصاب ہمیں ان تقاضوں کے بالکل برعکس نظر آیا۔

اب ہمیں یہ سمجھ آگیا کہ جب کسی سماجی، سیاسی، بین الاقوامی یا معاشی موضوعات پر بحث ہورہی ہوتی ہے تو کچھ دوستوں کے چہرے کیوں سرخ ہو جاتے ہیں۔ ماتھے پر تیوریاں کیوں چڑھ جاتی ہیں، گردن کی رگیں کیوں تن جاتی ہیں اور مٹھیاں کیوں سختی سے بھنچ جاتی ہیں۔ ہم پر یہ بھی عیاں ہو گیا کہ نئی نسل میں سماجیات، فلسفہ اور سیاسیات پڑھنے کے شوق کا ایسا فقدان کیوں ہو گیا کہ اب اکثر پاکستانی جامعات میں ان شعبہ جات پر تالے پڑنے والے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments