مودی نیپال کو سیکولر سے ہندو ملک بنانے میں ناکام


دنیا میں ایک ہی ہندو مملکت تھی، اور وہ تھی نیپال۔ 2007 میں جب ادھر جمہوریت طلوع ہونا شروع ہوئی تو نئے عبوری آئین میں اسے ہندو مملکت کی بجائے سیکولر قرار دے دیا گیا۔ پھر اس کے مستقل آئین کی تیاری پر کام شروع ہوا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اشارے پر ایک پرتشدد مہم چلی کہ نیپال کے آئین میں اسے ایک سیکولر کی بجائے ہندو ملک قرار دیا جائے۔ مذہبی انتہاپسندوں نے جلاؤ گھیراؤ کیا اور ملک گیر مہم چلی۔

اپریل 2015 میں نریندر مودی اور ہمنواؤں نے یہ دیکھ کر سکھ کا سانس لیا کہ پارلیمنٹ ان مذہبی انتہاپسندوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتی دکھائی دے رہی ہے۔ مگر ستمبر میں اسے ایک بڑا سرپرائز ملا جب توقعات کے برخلاف نیپالی پارلیمنٹ نے مذہبی شدت پسندوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ملک کو سیکولر بنانے کی شق برقرار رکھی۔

بھارت نیپال کو ایک طفیلی ریاست سمجھتا رہا ہے۔ نیپال کا باقی دنیا سے رابطہ بھارت کے ذریعے ہی تھا۔ بھارت نے نیپال کو اس نافرمانی کی سزا دینے کا فیصلہ کیا اور نیپال کی سرحد بند کر دی۔ نیپال میں اشیائے ضرورت کی کمی سے ایک سنگین بحران پیدا ہو گیا۔ تیل ختم ہو گیا۔ ملک بھر میں پہیہ جام ہو گیا۔ بھارت کی توقعات کے برخلاف نیپال نے گھٹنے نہ ٹیکے۔ الٹا بھارت کے خلاف شدید عوامی جذبات ابھرے۔ نیپالی حکومت کو مجبور ہو کر چین کی طرف دیکھنا پڑا اور اس عزم کا اظہار کرنا پڑا کہ وہ بھارت پر انحصار کرنے کی پالیسی سے تائب ہو جائے گی۔

چین کے ساتھ نئے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ چین اب نیپال میں ریل کی پٹڑیاں بچھا رہا ہے اور تبت سے نیپال تک شاہراہ قراقرم جیسی سڑکیں بنا رہا ہے جو ہنگامی حالات میں رن وے کے طور پر بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ نیپال اور چین کے درمیان تیل اور توانائی کے کئی معاہدوں پر دستخط ہو گئے ہیں۔

بھارت کے لئے یہ ایک ڈراؤنا خواب بن رہا ہے۔ دو برس قبل بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے نیپال میں دو جلسے کرنے اور وہاں عوام میں سائیکلیں بانٹنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان پر نیپالی اپوزیشن کا ردعمل آیا تو نیپالی حکومت نے اپنے نمائندے بھی ساتھ کھڑے کیے تھے مگر نیپالیوں میں شدید بھارت مخالف جذبات دکھائی دیے تھے کہ غیر ملک کا وزیراعظم کیا سمجھ کر یہاں خیرات بانٹ رہا ہے۔ پھر جب آئین کے معاملے پر بھارت نے پابندیاں لگا دیں تو یہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔

اب نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حالیہ انتخابات میں بائیں بازو کی پارٹیوں کے اتحاد نے پارلیمان کی 49 میں سے 40 سیٹیں جیت لی ہیں جبکہ انڈیا کی حامی نیپالی کانگریس کے حصے میں صرف 6 سیٹیں آئی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (یو ایم ایل) نے 28 اور کمیونسٹ پارٹی آف نیپال (ماوسٹ) نے 12 سیٹیں حاصل کی ہیں۔ یہ پارٹیاں مذہبی شدت پسندی کی بجائے سیکولرازم کی حامی ہیں اور ان کا جھکاؤ بھارت کی بجائے چین کی جانب ہے۔ بی جے پی کی نیپال کو ہندو ریاست بنانے کی چاہ نے اسے ہندوستان سے دور دھکیل کر چین کی آغوش میں پھینک دیا ہے۔

اس سے کچھ عرصہ قبل مالدیپ نے بھی چین سے ایسے معاہدے کیے تھے جنہوں نے بھارت کو پریشانی کا شکار کر دیا تھا۔ سری لنکا میں بھی چین کا اثر و نفوذ بڑھتا جا رہا ہے اور ادھر کی ایک بندرگاہ چین کے پاس ہے۔ پاکستان دنیا میں چین کا قریب ترین اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں بھارت تمام اطراف سے چین کے گھیرے میں آتا دکھائی دے رہا ہے۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar