پدماوتی کی کہانی۔ غیرت، تاریخ اور شناخت کے مسائل


سنجے لیلا بھنسالی بھارت کے ایک معروف اور کامیاب فلم ساز ہیں جن کی کئی شاندار فلموں میں ”خاموشی، ہم دل دے بھی چکے صنم، دیوداس، سانوریا، باجی راؤ مستانی اور گزارش“ جیسی فلمیں شامل ہیں۔ وہ بھارت کے چوتھے اعلی ترین سویلین ایوارڈ پدما شری سمیت بہت سے اعزازات حاصل کر چکے ہیں۔ انہیں تاریخی داستانوں، ناول اور کلاسیکی روایتی کہانیوں پر فلمیں بنانے کا بھی شوق ہے، جیسے ’دیوداس‘ ایک ناول پر مبنی ہے اور ’ راس لیلا رام لیلا‘ شیکسپیر کے مشہور رومانوی ڈرامے رومیواور جولیٹ سے اخذ کی گئی ہے جنہوں نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔

ان کی نئی آنے والی فلم ’پدماوتی‘ کے حوالے سے اس وقت بھارت میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔ بھارت میں راجپوت ایک بہت با اثر اور طاقتور برادری ہیں اور انہیں شکایت ہے کہ اس فلم کی کہانی میں ان کی رانی ماں پدماوتی کے کردار کو کم کرکے تاریخ کی غلط روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ اس فلم میں رانی پدمنی یا پدماوتی کا تاریخی کردار دیپیکا پاڈوکون ادا کر رہی ہیں جبکہ شاہد کپور، راجپوت راجہ رتن سنگھ اور رنویر سنگھ مسلمان بادشاہ علا الدین کا کردار نبھا رہے ہیں۔ یہ فلم ابھی ریلیز نہیں ہوئی لیکن راجپوت تنظیموں کا غصہ اتنے عروج پر ہے کہ انہیں نے نہ صرف بھارت اور بھارت سے باہر ان سینما گھروں کو جلا دینے کا اعلان کیا ہے جہاں یہ فلم پیش کی جائے گی بلکہ نومبر کے وسط میں ایک راجپوت تنظیم نے دیپیکا کی ناک کاٹنے کی دھمکی دی ہے اور دوسری نے دیپیکا اور بھنسالی کا سر کاٹ کے لانے والے کے لیے پانچ کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل جنوری 2017 میں شری راجپوت کرنی سینا نامی راجپوت تنظیم نے جے پور قلعے پر حملہ کیا جہاں اس فلم کی شوٹنگ ہورہی تھی، پھر 6 مارچ کو چتر فورٹ میں رانی پدماوتی کے محل کے لئے بنائے گئے شیشے توڑ دیے، پھر کولہا پور میں فلم کے سیٹ پر حملہ کرکے پورے سیٹ کو جلا دیا گیا۔

پدماوتی فلم پر ایسا شدید ردعمل دیکھ کر ذہن کئی طرح کے سوالوں میں الجھ گیا۔ برصغیر پاک و ہند میں انتہاپسندانہ رویوں کا تقابل اور عدم برداشت کا موازنہ تو ایک مستقل موضوع ہے ہی لیکن اس میں بھی پہلا سوال شناخت کے بڑھے ہوئے احساس کے حوالے سے ہے۔ جہاں یہ ایک گروہ یا قوم کا حصہ ہونے کی حیثیت سے ہمیں اعتماد اور تحرک فراہم کرتی ہے وہیں کسی ایک گروہ کے ساتھ جڑے ہونے کا شدید احساس اپنے گروہ سے باہر کے باقی تمام لوگوں کو ہمارے لئے اجنبی اور غیر بنا دیتا ہے بلکہ اکثر ان کے بارے میں ہمیں مسلسل کشمکش اور معاندانہ رویہ میں مبتلا کردیتا ہے۔ اس حوالے سے نوبل انعام یافتہ محقق امرتیا سین نے اپنی کتاب ’شناخت اور تشدد‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’ درحقیقت، دنیا میں بہت سے تنازعات اور بربریت اپنی شناخت کے منفرد ہونے کے واہمے کی وجہ سے برقرار رہتے ہیں۔ حالانکہ ایسی شناخت کا حامل ہونے میں ہماری خواہش یا کوشش کا کوئی دخل نہیں ہوتا (مطلب کسی بھی برادری یا قوم میں ہم اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوتے)۔ نفرت پیدا کرنے کی کلا کسی مزعومہ غالب شناخت، جو دوسری شناختوں کو دبا دے، کی جادوئی طاقت کو استعمال کرنے کی شکل میں ہمارے سامنے آتی ہے، اور آسانی سے جارحانہ شکل میں کسی بھی انسانی ہمدردی اور فطری رحمدلی کو پچھاڑ سکتی ہے‘۔

امرتیاسین نے شناخت کے تصور کے تشدد کے ساتھ تعلق پر اور بھی بہت کچھ لکھا ہے جس پر پھر کبھی بات ہوگی۔ فی الحال پدماوتی کے بارے میں جو دوسرا سوال ذہن میں اٹھا کہ آخر اس کے کردار میں ایسی کیا خاص بات تھی جس نے ایک پوری برادری یا قوم میں غصے کی ایسی چنگاری بھر دی جس نے کسی فلم میں تاریخ کی ایک مختلف تعبیرکرنے پراسے مرنے مارنے پر آمادہ کردیا۔ تھوڑا کھوج کرنے پر معلوم ہوا کہ پدمنی جو پدماوتی کے نام سے زیادہ مشہور ہوئی تیرہویں چودھویں صدی میں ہندوستان میں ایک رانی تھی۔ اس کی کہانی کے کئی ورژن موجود ہیں تاہم زیادہ مشہور یہ ہے کہ سولہویں صدی کے وسط میں ملک محمد جائسی نے پدماوت کے نام سے نظمیہ رزمیہ انداز میں اس کی کہانی پہلی دفعہ لکھی۔ اس داستان کے مطابق پدمنی سنگھال (سری لنکا) کے ایک بادشاہ گندھاروسین کی بیٹی تھی جسے اپنے ایک بولنے والے طوطے ہیرامن سے بہت لگاؤ تھا۔ بادشاہ کو اپنی بیٹی کا اس طوطے سے اتنا لگاؤ پسند نہیں تھا چنانچہ اس نے اس طوطے کو مارنے کا حکم دیا۔ طوطا اپنی جان بچانے کے لئے دور اڑگیا اور اتفاق سے ایک شخص کے ہاتھ لگا جس نے اسے ایک برہمن کو بیچ دیا۔ وہ براہمن اسے ہندوستان میں راجھستان کی ریاست چترگڑھ لے گیا جہاں کے راجہ رتن سین نے طوطے کی باتیں کرنے کی خاصیت کی وجہ سے اسے خرید لیا۔ طوطا رتن سین کے سامنے ہروقت پدمنی کے حسن کی اتنی تعریفیں کرتا کہ جنہیں سن کر راجہ کو پدمنی سے پیار ہوگیا اور اس نے اس سے شادی کرنے کی ٹھان لی۔

چنانچہ طوطے کی راہنمائی میں رتن سین اپنے سولہ ہزار سپاہیوں کو لے کر سات سمندر پار کر کے سنگھال پہنچ گیا۔ وہاں وہ ایک مندر میں رک گیا اور پدماوتی کو حاصل کرنے کے لئے تپسیا (عبادت گزاری) میں مشغول ہوگیا۔ طوطے نے اس دوران چپکے سے جا کر پدمنی کو اطلاع دے دی جو رتن سین کو دیکھنے مندر آئی مگر اس سے ملے بغیر واپس چلی گئی اور اپنے محل پہنچ کر رتن سین کی یاد میں کھوگئی کیونکہ وہ بھی اسے دیکھ کر اس کے حسن کی اسیر ہوچکی تھی۔

رتن سین کو جب معلوم ہوا کہ کس طرح پدمنی سے ملنے کا موقع وہ گنوا چکا تھا تو اس نے مایوسی میں خودسوزی کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن اس کی تپسیا کام آچکی تھی اور ہندو دیومالا کی دیوی پاروتی اور شیو دیوتا نے اسے خودسوزی سے روک دیا اور اسے اپنے سپاہیوں کے ساتھ سنگھال کی ریاست کے قلعے پر حملے کا مشورہ دیا۔ تاہم انہیں اس میں شکست ہوگئی اور اسے جوگیوں کے لباس میں، جو اس نے تپسیا کے لیے پہن رکھا تھا، گرفتار کرلیا گیا۔ جب اسے سزا کے طور پر قتل کیا جانے لگا اسی وقت اس کے شاہی ملازم نے اس کے چترگڑھ کے راجہ ہونے کا راز کھول دیا۔ یہ جان کر پدماوتی کے باپ راجہ گندھاروسین نے بخوشی پدماوتی کی شادی راجہ رتن سین سے کر دی بلکہ ساتھ میں اس کے سولہ ہزار سپاہیوں کی شادیاں بھی سولہ ہزار خوبصورت سنگھالی عورتوں سے کرا دیں۔ کہانی میں ابھی آگے کئی موڑ ہیں مثلا ایک یہ کہ واپسی کے سفر میں رتن سین کے اس غرور کی وجہ سے کہ وہ دنیا کی سب سے حسین عورت کو بیاہ لانے میں کامیاب ہوگیا تھا سزا کے طور پر سمندری طوفان آلیتا ہے جس میں اس کے سولہ ہزار سپاہی اپنی نئی دلہنوں سمیت ڈوب جاتے ہیں اور صرف رتن سین اور پدماوتی کو سمندر کی دیوی بچا لیتی ہے۔ سمندر کی دیوی خود پدماوتی کا بہروپ بھر کر رتن سین کی پدماوتی سے محبت کو آزماتی ہے جس میں وہ کامیاب ٹھہرتا ہے اور نتیجے میں وہ دونوں میاں بیوی بخیریت واپس چترگڑھ پہنچ جاتے ہیں۔

کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ دراصل یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ رتن سنگھ کی پہلی بیوی ناگمتی اور پدماوتی میں رقابت اور حسد کے علاوہ اہم یہ ہے کہ راجہ رتن سین سے ناراض ایک برہمن راگیوچیتن ہندوستان کے بادشاہ سلطان علاؤالدین خلجی کو پدماوتی کے غیرمعمولی حسن کے بارے میں بتا کر سلطان کو اشتیاق میں مبتلا کردیتا ہے۔ کہانی کے مطابق سلطان علاؤالدین پدماوتی کو حاصل کرنے کے لئے چترگڑھ کا گھیراؤ کرلیتا ہے۔ رتن سین اسے تاوان ادا کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے لیکن پدماوتی کو حوالے کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ چتر کے قلعے پر قبضے میں ناکامی کے بعد علاؤالدین ایک امن معاہدہ کرنے کے بہانے رتن سین کو گرفتار کر کے دہلی لے جاتا ہے۔ پدماوتی کے کہنے پر رتن سین کے دو جانثار گورا اور بادل پدماوتی کا بھیس بدل کر دہلی جاتے ہیں اور رتن سین کو چھڑا کر لے آتے ہیں اور اس معرکے میں ایک جانثار گورا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

رتن سین کی گرفتاری کے دوران چترگڑھ کی ایک پڑوسی ریاست کا راجہ دیوپال بھی پدماوتی پر فدا ہو کر اسے شادی کا پیغام بھیجتا ہے۔ چترگڑھ واپس آکر رتن سین کو جب یہ معلوم ہوتا ہے تو وہ دیوپال کو سزا دینے کے لئے اسے خود سے انفرادی مقابلے کی دعوت دیتا ہے۔ اس لڑائی میں دونوں ہی ایک دوسرے کو مار ڈالتے ہیں۔ اسی دوران علاؤالدین ایک بار پھر پدماوتی کو حاصل کرنے کے لئے چترگڑھ پر حملہ کردیتا ہے۔ علاؤالدین کے ہاتھوں ایک یقینی شکست کو سامنے دیکھ کر رتن سین کی دونوں بیویاں ناگپتی اور پدماوتی رتن سین کی چتا میں خود کو جلا کر ستی (جوہر) کر لیتی ہیں اور ان کے ساتھ چتر کی ہزاروں عورتیں بھی اجتماعی طور پر ستی یا جوہر ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح چتر کے سارے مرد بھی علاؤالدین کے ساتھ لڑتے ہوئے مر جاتے ہیں اور فتح کے بعد علاؤالدین کے ہاتھ ایک اجڑا ہوا خالی قلعہ آتا ہے۔

اس کہانی میں دلچسپی کے سارے عناصر جیسے لگن، شوق، جذبہ، تجسس، تحیر، شجاعت، وفاداری، حسد، دھوکہ، ایڈونچر، سب موجود ہیں۔ تاہم ان کرداروں کی شناخت میں خود کو شامل سمجھنے والی قوم کے لئے غالباٌ سب سے اہم شجاعت اور غیرت کا مظاہرہ ہے جس کی سب سے بڑی علامت پدماوتی کا خود کو دیگر ہزاروں عورتوں کے ساتھ ستی کرلینا یعنی جل کر مرجانا ہے۔ بھارت میں راجپوتوں کی ایک ملک گیر تنظیم کے صدرٹھاکر ابھیشک سوم کا بیان اس کی تصدیق کرتا ہے: ’جو بھی سنجے لیلا بھنسالی اور دیپیکا پاڈوکون کا سر لائے گا اسے پانچ کروڑ روپے کا انعام دیا جائے گا۔ رانی ماں پدماوتی نے بارہ ہزار عورتوں کے ساتھ اپنی جان کی قربانی (جوہر) پیش کی تھی۔ بھنسالی نے اپنی فلم میں اسے بری روشنی میں دکھا کر اس کی شجاعت پر سوال اٹھایا ہے‘۔

قطع نظر یہ فلم ریلیز ہوپاتی ہے کہ نہیں، یہ ان بہت سی اساطیری داستانوں میں سے ایک ہے جن کے معروضی اور غیرجانبدارانہ تجزئے سے ہم آج جنس، عورت، مردانگی، طبقات، وفاداری، انسانی تعلقات وغیرہ کے بارے میں اپنے رویوں اور ان کی جڑوں کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اور اگر سمجھ جائیں تو شاید انہیں بہتر بھی بنا سکتے ہیں۔ اس سے کم از کم ایک بات واضح ہے کہ ہمارے تمام جذبات، احساسات، رویوں، اور حاصلات حیات کا مرکزہ اسی عورت کی ذات میں ہے جس کے اپنی اس عزت، جو ہماری مردانگی کی ضمانت ہے، کی خاطر مرجانے کو ہم انسانیت کی معراج سمجھتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).