اندھی نفرتوں اور محبتوں میں بٹا ہمارا معاشرہ……..


اپنے حصے میں آئے آبائی گھر کے ایک پورشن کو گرا کر میری بیوی نیا مکان بنوا رہی ہیں۔ میرے بے حد اصرار کی وجہ سے وہاں Basement بھی ہوگا جس کا ایک کمرہ میرا گوشہ¿ قفس‘ بری خبر مگر یہ ہے کہ تہہ خانے کے لئے کھودے گھڑے میں پاﺅں پھسل جانے کی وجہ سے میں گرگیا۔ پنجابی والی ”گجیاں“ چوٹیں لگی ہیں جنہیں سردی میں برداشت کرنا کافی اذیت دہ ہے۔ رضائی میں اپنے بستر تک محدود ہوا میں کافی اداس و پریشان محسوس کررہا ہوں۔

شاید اسی کیفیت کی وجہ سے میں یہ سوچنے پر مجبور ہورہا ہوں کہ پیر حمید الدین سیالوی کی جانب سے چلائی تحریک کو ہمارا میڈیا مناسب توجہ نہیں دے رہا۔ اس تحریک کا فی الوقت نشانہ پنجاب کے بلندآہنگ وزیر قانون ہیں۔ آئینی قوانین کو سادہ بنانے کےلئے حال ہی میں جو ترامیم ہوئی تھیں، رانا ثنااللہ کا ان سے کوئی لینا دینا نہ تھا۔ یہ قومی اسمبلی اور سینٹ کا اجتماعی فیصلہ تھا۔ اس فیصلے کی وجہ سے لیکن مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کا بہانہ مل گیا۔ وفاقی وزیر قانون مبینہ طور پر اشتعال انگیزی کے مجرم ٹھہرا دیئے گئے۔ راولپنڈی کے اسلام آباد تک کے زمینی راستے 22 روز تک چلائے دھرنے کے ذریعے بلاک ہوئے۔ لاکھوں دیہاڑی دار اس کی وجہ سے بے کار بیٹھے رہے‘ طالب علم اپنے مدرسوں تک نہ جاپائے۔ مریضوں کو ہنگامی صورتحال میں بھی ہسپتال تک پہنچانا ناممکن ہوگیا۔ پولیس نے ان راستوں کوکھولنا چاہا تو ناکام ہوگئی۔ بالآخر ریاست کے ایک بہت ہی طاقتور ادارے سے رجوع کرنا پڑا۔ اس کے ایک سینئر نمائندے نے ایک معاہدے پر بطور ضامن دستخط کئے۔ زاہد حامد اس کی وجہ سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے۔

پیر سیالوی صاحب کو یہ بات یاد نہیں رہی کہ آئینی قوانین میں ہوئی ترامیم کے خلاف سب سے بااثر شور پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہی نے مچایا تھا۔ 4 اکتوبر کو لاہور کے الحمرا ہال میں ہوئے (ن) لیگ کے ایک ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے موصوف نے اپنے ”قائدِ محترم (نواز شریف)“ سے مطالبہ کیا کہ ”ذمہ دار وزیر“ کو کابینہ سے نکال باہر کیا جائے۔ علامہ خادم حسین رضوی نے اپنے 22 روزہ دھرنے کے ذریعے ان کے مطالبے کو مزید توانا بنانے کی کوشش ہی کی تھی۔ وہ اس حوالے سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے ”سہولت کار“ شمار ہوئے۔

پیر سیالوی صاحب مگر شہباز شریف پر دباﺅ بڑھا رہے ہیں اور 2008ءسے پاکستان میں ”گڈگورننس“ کی حتمی علامت بنے ”خادم اعلیٰ“ کو سمجھ نہیں آرہی کہ اپنی معافی تلافی کےلئے کونسی راہ اختیار کریں۔

پیر صاحب کے متوازی ایک تحریک کینیڈا سے تشریف لائے شیخ السلام ڈاکٹر طاہر القادری بھی چلانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے بارے میں نجفی رپورٹ منظرِ عام پر آچکی ہے۔ مطالبہ ہورہا ہے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں شہباز شریف اور رانا ثنااللہ استعفے دیں‘ ان کے خلاف قتل کے مقدمات قائم ہوں‘ خلقِ خدا کو نصاف ملے۔ شیخ رشید اور عمران خان تو ڈاکٹر قادری کے پرانے حلیف ہیں‘ بھرپور تعاون کی پیشکش اب آصف علی زرداری بھی علامہ صاحب کے حضور پیش ہوکر دکھا چکے۔ ”اپنے گھر کے پکے“ قادری مگر کنٹینر میں سوار ہونا ٹال رہے ہیں۔ انہیں خبر ہے کہ شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ سے علیحدگی کے بعد اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے،آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے کوئی ”شاہد خاقان عباسی“ نکالنا ممکن نہیں رہے گا۔ قبل از وقت انتخابات کروانا ہوں گے جن کے نتیجے میں قادری اور ان کی جماعت کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ دُکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں والا معاملہ ہوجائے گا۔

پیر حمید اللہ سیالوی کی چلائی تحریک مگر سیاسی سے زیادہ معاشرتی اعتبار سے ہیجان وخلفشار کے ایسے سامان فراہم کرے گی جس کا توڑ ڈھونڈنا شاید ناممکن ہوجائے گا۔

80ءکی دہائی میں جب ہماری ریاست بہت یکسوئی کے ساتھ افغانستان میں موجود سوویت افواج کو امریکی اور سعودی معاونت سے شکست دینے میں مصروف تھی تو اپنی یکسوئی کو برقرار رکھنے کے لئے اس نے سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا۔ سیاست اور میڈیا پر مکمل پابندی کے اس موسم میں جھنگ کے ایک مدرسے سے ایک تحریک ابھری جس نے کئی برسوں تک پنجاب کو فرقہ وارانہ فسادات کا نشانہ بنائے رکھا۔ اس تحریک پر بہت مشکل سے قابو پایا گیا۔ اسی حوالے سے اس مسلک کے نمایاں ”شدت پسندوں“ کو Mainstream میں لانے کی کاوشیں بھی جاری ہیں۔ ”مین سٹریم“ میں آنے کے بعد اس تحریک کا ایک نمائندہ صوبائی اسمبلی کارکن بھی منتخب ہوگیا۔

پیر سیالوی صاحب اپنی تحریک کے ذریعے رانا ثنااللہ کا استعفیٰ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ شہبازشریف اس کی وجہ سے کمزور نظر آئے تو آئندہ انتخابات میں جھنگ، سرگودھا اور فیصل آباد کے حصے میں آئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے حصول کے لئے مقابلہ محض جانی پہچانی سیاسی جماعتوں کے درمیان نہیں رہے گا۔ سنی مسلک ہی سے وابستہ دو اہم ترین گروہ ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں فرقہ ورانہ جھگڑوں کی ایک نئی لہر اُٹھے گی جس کا مقابلہ ہماری ریاستِ ناتواناں کے بس کی بات نہیں رہے گی۔

اندھی نفرتوں اور محبتوں میں دیوانہ وار بٹے ہمارے معاشرے کے سیاست دان اور لکھاری مگر اس حقیقت پر نگاہ ڈالنے کو تیار نہیں۔ سیاسی جماعتوں کا اہم ترین فریضہ شہریوں کو نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم سے بالاتر ہوکر کسی ایسے پیغام کی طرف لانا ہوتا ہے جو بنیادی طور پر ریاستی کاروبار کو شہریوں کی بے پناہ اکثریت کے لئے امن وخوشحالی فراہم کرنے کا وسیلہ بنائے۔

شہباز شریف اور ان کی جماعت ہی نہیں بلکہ ان کے سیاسی مخالفین بھی شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کی موجودہ مشکلات سے حظ اُٹھاتے ہوئے اس فریضے کو نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔ سرگودھا، جھنگ اور فیصل آبا د جیسے شہروں کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرنے والوں کے حوالے کردیا گیا ہے‘ کوئی ایک سیاستدان یا لکھاری اس عمل کے دوررس مضمرات پر غور کرنے کو تیار نہیں۔

شام اور یمن میں ان دنوں جو قیامت برپا ہے اس کے پیچھے بے تحاشا تعصبات تھے جنہیں وہاں کی ریاستیں اپنے کنٹرول میں لانے میں ناکام رہیں۔ خانہ جنگی اچانک نہیں ہوا کرتی‘ وقت برسوں تک اس کی تیاری کررہا ہوتا ہے۔ میرے منہ میں خاک۔ ہم ان دنوں ایسی ہی تیاری میں مصروف نظر آرہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).