قائد اعظم، بھٹو صاحب، ڈونلڈ ٹرمپ اور حامد میر صاحب 


مورخہ11دسمبر 2017کو روزنامہ جنگ میں مکرم حامد میر صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اس مضمون کے شروع میں انہوں نے بجا طور پر صدر ٹرمپ کے اس غیر منصفانہ فیصلہ پر تنقید کی اور غم و غصہ کا اظہار کیا کہ امریکہ کا اسرائیل میں سفارت خانہ یروشلم منتقل کر دیا جائے۔ اُن کی یہ بات بھی درست ہے کہ اس فیصلہ کے خلاف پاکستان سے اُٹھنے والی آواز اس لئے کمزور اور بے اثر معلوم ہو رہی ہے کیو نکہ پاکستان میں آپس میں ہی اتفاق نہیں تو عالمی سطح پر ان کی آواز میں کیا اثر ہو سکتا ہے؟ ایک اور اہم نکتہ اُنہوں نے یہ بیان فرمایا کہ 1940میں جب مسلم لیگ نے ایک علیحدہ ملک کے لیے قرارداد منظور کی تو اس کے ساتھ ہی فلسطینیوں کی حمایت کے لیے بھی ایک قرارداد منظور کی۔

ان معلومات میں اس بات کا اضافہ کرنا مناسب ہو گا کہ قیام ِ پاکستان کے معاََ بعد قائد ِ اعظم کی راہنمائی میں پاکستان نے جس مسئلہ پر اقوام ِ متحدہ میں آواز بلند کی وہ قیام اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حقوق کے لیے ہی بلند کی گئی تھی۔ابھی ملک کے پہلے وزیر ِ خارجہ کا تقرر نہیں ہوا تھا۔ قائد ِ اعظم نے اُس وقت اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمایندگی کے لیے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو مقرر فرمایا۔ اور اس وقت اقوام ِ متحدہ میں دو کمیٹیاں کام کر رہی تھیں ۔ ایک کمیٹی اسرائیل کے قیام کے حامی ممالک کی تھی جو اپنے موقف کے مطابق تجاویز تیار کر رہے تھے۔اس کمیٹی کے صدر پولینڈ کےMR. KSAWERY PRUSZYSKIتھے۔ اور امریکہ اور سوویت یونین دونوں اسرائیل کے قیام کی حمایت کر رہے تھے۔ دوسری کمیٹی زیادہ تر عرب ممالک اور مسلمان ممالک پر مشتمل تھی جو کہ فلسطینیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے تجاویز مرتب کر رہی تھے اور قیام ِ اسرائیل کی مخالفت کر رہے تھے۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ با وجود اس کے کہ اُس وقت چند ماہ پہلے ہی پاکستان آزاد ہواتھا ، اس کمیٹی کے ممبران نے اس کمیٹی کی صدارت کے لیے پاکستان کے مندوب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو منتخب کیا تھا۔ بعد میں بادشاہ بننے والے امیر فیصل بھی اس کے رکن تھے۔یہ بات قابل ِ فخر ہے کہ پاکستان کے نمایندے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس وقت اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اسرائیل بنانے اور فلسطین تقسیم کرنے کے منصوبے کے بارے میں دنیا کو ان الفاظ میں متنبہ کیا تھا کہ اسرائیل بنانے والی طاقتوں کا اصل منصوبہ یہ ہے

”پہلے ہم فلسطین کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے تین حصے اسرائیل کو اور تین حصے فلسطین کو دیں گے۔ پھر جافہ پر قبضہ کریں گے اور فلسطین کا دل یروشلم ہمیشہ ایک بین الاقوامی تسلط میں رہنے والا شہر بن جائے گا۔جب ہم فلسطین کے جسم کو اس طرح تقسیم کر لیں گے تو پھر خون سے رستہ ہوایہ جسم ہمیشہ کے لیے صلیب پر لٹکا دیا جائے گا۔ فلسطین کبھی بھی اس کے باشندوں کا نہیں ہو گا بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے صلیب پر لٹکا دیا جائے گا۔“

http://(1)https://unispal.un.org/DPA/DPR/unispal.nsf/0/93DCDF1CBC3F2C6685256CF3005723F2

28نومبر 1947کو کی جانے والی یہ پیش گوئی آج حرف بحرف پوری ہو رہی ہے۔ لیکن ہمیں اس بات پر حیرت اور افسوس ہو رہا ہے کہ ملک میں اتحاد کی باتیں کرتے ہوئے بجائے امریکہ کی زیادتی کے خلاف کوئی تجویز پیش کرنے کے اچانک حامد میر صاحب نے یہ ذکر چھیڑ دیا کہ قائد ِ اعظم احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے۔انہوں نے کوئی حوالہ نہیں دیا لیکن ہم ایک دو حقائق پیش کرنا چاہتے ہیں۔

(اول)یہ تو سب جانتے ہیں کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب احمدی تھے۔1939میں اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے قائد ِ اعظم نے فرمایا تھا” میں اپنی اور اپنی پارٹی کی طرف سے آنریبل سر ظفر اللہ خان کو ہدیہ تبریک پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ مسلمان ہیں ۔اور یوں کہنا چاہیے کہ میں اپنے بیٹے کی تعریف کر رہا ہوں۔“(ہماری قومی جدو جہد مصنفہ عاشق حسین بٹالوی ، ناشر سنگ میل ص 218 (

 (دوئم) یہ تو سب جانتے ہیں تقسیم ہند سے قبل صدر تو ایک طرف رہا مسلم لیگ کا ممبر بھی صرف مسلمان ہی بن سکتا تھا اور 1931میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کیا گیا۔

(سوئم) جماعت ِ احمدیہ کے شدید مخالف عبدالحامد بدایونی صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ 1944میں انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں یہ قرارداد پیش کی تھی کہ کسی احمدی کو مسلم لیگ کا رکن نہ بننے دیا جائے لیکن خود قائد ِ اعظم نے انہیں کہا تھا کہ وہ یہ قرارداد واپس لے لیں۔ اگر یہ قرارداد قائد ِ اعظم کے خیالات کے مطابق تھی تو اُن جیسے اصول پسند شخص کو اس کی بھر پور حمایت کرنی چاہیے تھی۔ (نوائے وقت لاہور 10 اکتوبر 1966)

30 نومبر کو اپنے ایک مضمون میں حامد میر صاحب نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جب  1974 میں جماعت ِ احمدیہ کا وفد قومی اسمبلی میں موجودتھا تو 20 اگست کو اٹارنی جنرل صاحب نے اسرائیل میں احمدیوں کے بارے میں سوال کیا تھا۔ اس پر امام جماعت ِ احمدیہ نے جواب دیا تھا کہ ” ہمارے اسرائیل سے اچھے تعلقات ہیں“۔ اس کے جواب میں خاکسار نے عرض کی تھی کہ شائع شدہ کارروائی گواہ ہے کہ یہ جملہ امام جماعت ِ احمدیہ نے ہر گز نہیں فرمایا تھا۔ اب اس مضمون میں بجائے اس کا حوالہ دینے کے حامد میر صاحب نے لکھا ہے کہ کارروائی کے صفحہ 1061سے لے کر1070پر اسرائیل میں احمدیوں کے بارے میں سوال کیا گیا تھا۔ ہم ایک بار پھر یہ عرض کرتے ہیں کہ ان صفحات پر یہ جملہ ہرگز موجود نہیں ہے۔ حامد میر صاحب سے ایک بار پھر گذارش ہے کہ یہ راہنمائی فرمائیں کہ یہ جملہ کس صفحہ پر ہے؟ اس کے بر عکس 21اگست کی کارروائی کے دوارن جب اس بابت سوال ہوا تو امام جماعت ِ احمدیہ نے فرمایا تھا کہ وہاں پر احمدی اُس وقت سے موجود ہیں جب اسرائیل بنا ہی نہیں تھا اور95فیصد مسلمان دوسرے فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں احمدیوں کی تعداد بہت کم ہے اور احمدیوں کے تمام مسلمانوں سے وہاں بہت برادرانہ تعلقات ہیں اور فرمایا تھا کہ مغربی افریقہ کے دورہ کے دوارن دو ملکوں میں اسرائیل کے سفیروں نے ملنے کا وقت مانگا تھا تو میں نے کہا تھا کہ میں ان سے نہیں ملنا چاہتا اور فرمایا تھا کہ پوچھنا تو یہ چاہیے کہ جو مسلمان اسرائیل میں آباد ہیں ان کے حقوق کے لیے کیا کیا جائے۔(کارروائی صفحہ 1009 تا 1016)

حامد میر صاحب نے بھٹو صاحب کی ایک تقریر کا حوالہ دیا ہے جو انہوں نے 7ستمبر 1974کو قومی اسمبلی میں کی تھی۔ ہم بھی ان کی تقریر کا حوالہ پیش کرتے ہیں جو بھٹو صاحب نے سپریم کورٹ میں کی تھی اور وہ ان کی زندگی کی آخری تقریر تھی۔ 1978میں اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ ہائی کورٹ نے انہیں نام کا مسلمان قرار دیا ہے ۔انہوں نے کہا تھا کہ ایک اسلامی ریاست میں اور ایک کلمہ گو کے لیے یہ بڑی ہی غیر معمولی بات ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے۔اور پھر کہا کہ ایک مسلمان کے لیے یہ کافی ہے وہ کلمہ پڑھتا ہے اور کلمہ پر یقین رکھتا ہے۔ (عدالت عظمیٰ سے چیئرمیں بھٹو کا تاریخی خطاب،ناشر جمہوری پبلیکیشنز جون 2011، ص72تا73)

 مزید کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).