مولانا خادم رضوی کو غلط سمجھا گیا ہے


اب اگر آپ بھی ہماری طرح باریک بینی سے چیزوں پر غور کرنے کے عادی ہوں تو آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ علما کی اکثریت آئی فون استعمال کرتی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس کا موجد سٹیو جابز ایک شامی النسل عرب تھا اور اسے خریدنا کوریائی یا چینی بے دینوں کے بنائے فون خریدنے سے بہتر ہے۔

آپ نے یہ بھی نوٹ کیا ہو گا کہ قدامت پرست لوگ لوگ نئی ٹیکنالوجی سے گھبراتے ہیں اور ٹچ سکرین استعمال کرتے ہوئے خاص طور پر زیادہ پریشان ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح ہاتھ گندے ہو جاتے ہیں۔ اس لئے آئی فون نے سری نامی ایپ متعارف کروائی ہے جس کے ذریعے آپ فون کو آواز دے کر بھی کچھ کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔

مثلاً آپ حکم دیں کہ ”سری! سپیکر آن کر کے مجھے شیخ رشید کا نمبر ملا دو“۔ سری حکم کی تعمیل کرے گی۔ اسی طرح سری استعمال کر کے سو کام لیے جا سکتے ہیں۔

ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ آسٹریلیا میں ایک ڈیڑھ دو سالہ بچے کو حادثہ پیش آ گیا۔ اس کی ماں گھبراہٹ میں اس کی طرف دوڑی اور اس کا سانس چالو رکھنے کے لئے اسے مصنوع تنفس دینے لگی۔ بچے کو فوراً ایمبولینس منگوا کر ہسپتال بھیجنے کی ضرورت تھی مگر ماں فون کرنے جاتی تو بچہ مر سکتا تھا۔

خوش قسمتی سے یہ ماں سری استعمال کرنے کی عادی تھی۔ اس نے دور پڑے فون کو چیخ کر کہا ”سری، ایمرجنسی کو فون کرو اور سپیکر آن کرو۔ “ سری نے ایسا کیا اور ماں نے دور بیٹھے بیٹھے ایمبولینس منگوا لی اور بچے کی جان بچ گئی۔ سری کے اس طرح استعمال کرنے پر ایپل نے اس واقعے کو اپنی ویب سائٹ پر بھی شائع کیا۔

مولانا خادم رضوی کی تعلیم غالباً کسی پٹھان استاد کے ہاتھوں ہوئی ہے اور آپ جانتے ہی ہوں گے کہ پشتو میں حرف ف کو پ بولا جاتا ہے۔ کوئی پٹھان آپ کو اگر کہے کہ پلیٹ کی قیمت دس کروڑ روپے ہے تو یہ مت سمجھیں کہ وہ آپ کو بریانی کی پلیٹ اتنے میں بیچنا چاہتا ہے۔ وہ آپ کو فلیٹ کی قیمت بتا رہا ہو گا اور آپ معمولی سی بحث کر کے اس پلیٹ کو پچاس لاکھ یا کم میں خرید سکتے ہیں۔

ہماری رائے میں جمہور علما کی طرح مولانا خادم رضوی بھی آئی فون پر سری استعمال کرنے کے عادی ہیں لیکن اپنے استاد کے پشتو لہجے کے احترام میں ف نہیں بولتے اور فون کو پون کہتے ہیں۔ جب وہ سری کو کچھ حکم دینا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں ”پون دی سری، کن کھول کر میری گل سن“ یعنی فون والی سری، کان کھول کر میری بات سن۔

اب مخالف مسلک والے اور لبرل سیکولر طبقات اسے اپنی بدنیتی کے سبب کچھ دوسرا مطلب دیتے ہیں تو اس میں مولانا کو بدگوئی گا مجرم ٹھہرانا غلط ہے۔ مجرم وہ نہیں بلکہ مجرم وہ معاشرہ ہے جس میں حسن ظن کی بجائے حسن زن سے کام لیا جاتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar