بچوں کو کتاب کی طرف کیسے متوجہ کریں


میری بیٹی ابھی چند ماہ کی تھی جب میں اس کے لیے چھوٹے بچوں کی نظموں کی کتابیں لے کر آئی جن میں جھنجھنا، جھولنے، بلبلے، شگوفے، ٹوٹ بٹوٹ اور انگلش کی نرسری رائمز شامل تھیں۔ چھ سات ماہ کی عمر میں بچہ پہچاننے لگتا ہے رسپانس دیتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے۔ پہلے بچے کے لیے ماں کے پاس وقت بھی وافر میسر ہوتا ہے سو فارغ وقت میں میں اس کا سر اپنے بازو پہ لٹا کے کتاب سے پڑھ پڑھ کر نظمیں سناتی۔ وہ کتاب میں بنی تصاویر دیکھتی رہتی اور میں مزے لے لے کر نظمیں پڑھتی رہتی یوں ہم دونوں کو ہی مزا آنے لگا۔ پھر ہوتا یوں کہ جب کبھی وہ رو رہی ہوتی تو میں کتاب کھول کر اس کو بہلاتی تو اس کا دھیان بٹ جاتا۔ اس طرح اس کا کتابوں سے دوستی کا آغاز ہوا۔

جب وہ تقریباً سوا سال کی ہوئی تو میں موٹے گتے والی تصویری کہانی پر مبنی کتابیں لے آئی جس میں پورے صفحہ پر 1 لفظ یا 1جملہ لکھا ہوتا ہے۔ اب میں اسے تصاویر دیکھ کر کہانی سناتی۔ اگر میں اپنا کوئی کام کر رہی ہوتی تو اسے پاس بٹھا کے کتاب کھول اس کے سامنے کھول کے رکھ دیتی۔ خود اس کے آس پاس اپنے کام نمٹاتے اس کو کتاب سے متعلق کہانیاں سناتی رہتی اور وہ کتاب کے صفحے الٹتی پلٹتی رہتی۔ ڈیڑھ برس کی عمر میں اسے بولنا تو ٹھیک سے آتا نہیں تھا لیکن نظمیں بہت سی یاد ہو گئیں تھیں۔ کتابوں میں اس دلچسپی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ جب میں نے محسوس کیا کہ اسے بہت سی نظمیں ازبر ہو چکی ہیں تو اس کو انوالو رکھنے کے لیے میں نظم پڑھتے پڑھتے مصرع کے آخری لفظ پہ رک جاتی تو وہ فوراً اپنی زبان میں آخری لفظ بول کر لائن مکمل کرتی جیسے کہ ایک نظم کے چند اشعار کچھ اس طرح ہیں :

گھوڑا بولا ہن
مکھی بولی بھن
گھوڑا کان ہلائے
مکھی اڑتی جائے
ہم دونوں کچھ اس طرح سے پڑھتے :
(میں پڑھتی) گھوڑا بولا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہہہممم (وہ بولتی)
مکھی بولی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہہہممم
گھوڑا کان ہلائے
مکھی اڑتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آآآآآآا

یہ تو ابتدا تھی۔ اس کی کتاب دوستی دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ کتابوں کو پھاڑتی نہیں تھی۔ وقت تھوڑا آگے بڑھا کتابیں نئی آتی گئیں اور کمپنی دینے کے لیے دو بھائی بھی دنیا میں آچکے تھے جو آنکھ کھلتے ہی اسی ماحول کا حصہ بن گئے۔ شہر میں ہونے والا کوئی کتاب میلہ یا کوئی بھی فیسٹیول جہاں کتابوں کا سٹال لگتا ہم بچوں کو لے کر ضرور جاتے۔ سب اپنی اپنی پسند کی ڈھیروں کتابیں خریدتے۔ بچوں کی کتابوں میں کلرنگ بکس، ایکٹیوٹی بکس، پزل بکس، اردو اور انگریزی کی کہانیوں کی کتابیں شامل ہوتیں۔ بچے بہت چھوٹے تھے تھے تب بھی اگر ہم کہیں جانے لگتے تو ہر کسی کے چھوٹے چھوٹے بیگ میں ضروری سامان میں سب سے پہلے کتاب رکھتے خواہ ہم شہر میں ہی کہیں جا رہے ہوتے۔ کتاب سے محبت ان کے دل میں رچ بس چکی تھی۔

اس بات کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ بیٹی ابھی کلاس 3 میں تھی جب اس نے ہیری پوٹر سیریز کی تمام کتب پڑھ ڈالی تھیں جو پبلش ہو چکی تھیں۔ پھر تو اس کو ہیری پوٹر بکس ایڈکشن ہو گیا۔ 1 بار کتاب ختم کر کے دوبارہ شروع کر دیتی۔ ہر ایک کتاب کو درجنوں بار پڑھا اور یہ کریز تقریباً 2 سے 3 سال تک قائم رہا۔ 7کلاس میں ایک بار اس نے شکایت کی کہ سکول کی لائبریری میں کتابیں بہت کم ہیں اس لئے مجھے کتابیں لینی ہیں۔ جب تحقیقات کیں تو علم میں آیا کہ لائبریری میں کتابیں کم نہیں ہیں بلکہ محترمہ لائبریری کی تمام کتب کو اچھی طرح چاٹ چکی ہیں یہاں تک کہ سکول میں موجود مختلف پبلشرز کی طرف سے آئے سیمپل ریڈرز تک کو کھنگال ڈالا ہے خواہ وہ کلاس 1 کے ہوں یا 10 کے۔ بازار سے کتابیں خریدنے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ آخر کار جب جیب پر بوجھ اور گھر میں کتابوں کا رش بڑھ گیا اور ہر تیسرے دن نئی کتابوں کی ڈیمانڈ سے تنگ آ کر اسے ٹیبلٹ دلا کر اس مسئلہ کا حل نکالا کیونکہ اسے ڈھیروں کتابیں ڈاؤن لوڈ کر دیتے اور وہ اپنا نشہ پورا کرتی۔

پھر اس کی باتوں سے اس کا ناؤلج چھلکنے لگا تھا اور بعض اوقات تو ہم حیران رہ جاتے کہ خواہ کسی بھی طرح کا موضوع ہو اس کے پاس وسیع معلومات کا خزانہ ہوتا۔ ایسا نہیں ہے کہ اس شوق سے اس کی سکول کی پڑھائی متاثر ہوتی تھی۔ وہ ہمیشہ سکول کے نمایاں طلبہ میں شامل رہی۔ اسے باہر تعلیم حاصل کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ وہ جب بھی اپنی اس خواہش کا اظہار کرتی ہم اسے یہی کہتے کہ حصول علم کے لیے باہر بھیجنا اتنا آسان نہیں اس کے لیے ڈھیروں سرمایہ کی ضرورت ہے جو ہمارے لئے آسان نہیں۔ اگر آپ نے باہر جانا ہے تو محنت کرو اور اگر سکالر شپ کے ساتھ داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو ہم آپ کے ساتھ ہیں ورنہ پاکستان میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک اچھی یونیورسٹی ہے۔ لیکن اس پہ تو ایک دھن سوار تھی۔ اس نے دن رات محنت کی اور وہ ممکن کردکھایا جو اس کا خواب تھا۔ امریکہ کی یونیورسٹی میں سکالر شپ کے ساتھ داخلہ مل گیا۔

اگست میں وہ اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کرنے امریکہ سدھار گئی۔ ہم نے تمام احتیاطی تدابیر اس کے گوش گزار کر کے اسے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ائیر لائن والے آپ کا لیپ ٹاپ لگیج میں رکھوا دیں یا پھر لیپ ٹاپ اور موبائل وغیرہ امیگریشن والے چیکنگ کے لیے لے لیں اور اس میں بعض اوقات کچھ گھنٹے بھی لگ جاتے ہیں اس لیے اپنے ساتھ کوئی کتاب رکھ لینا۔ فلائٹ سے چند گھنٹے پہلے سامان کی فائنل چیکنگ کرتے ہوئے جب اس کے ہینڈ بیگ میں جھانکا تو اس میں دو عدد مخدوش حالت کتابیں نظر سے گزری جو اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ انہیں کم از کم درجنوں بار بار تو ضرور پڑھا گیا ہے وہ بچپن کی محبت ہیری پوٹر سیریز کی پہلی دو کتابیں تھیں۔
Dec 13, 2017 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).