انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں دس روز میں 29 افراد ہلاک


کشمیر

                                                                      بچی کی والدہ اسے آنسو گیس کی گھٹن سے بچانے کے لیے کھڑکی میں لے گئی تھیں

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں گذشتہ دس روز کے دوران 19 عسکریت پسند، سات عام شہری اور تین فوجی اہلکار مارے گئے۔ تازہ جھڑپیں شوپیان اور پلوامہ اضلاع میں ہفتے اور اتوار کو ہوئیں جن میں ایک فوجی اہلکار اور سات عسکریت پسند مارے گئے۔

ان تصادموں کے دوران بڑی تعداد میں لوگوں نے فوج مخالف مظاہرے کیے۔ ہلاک ہونے والے عسکریت پسند مقامی نوجوان ہیں جبکہ فوجی بھی ایک کشمیری نذیر احمد ہے۔

مظاہرین کے خلاف فوجی کارروائیوں میں ایک نوجوان نعمان احمد مارا گیا جبکہ کم از کم 50 افراد گولیوں اور چھّروں سے زخمی ہو گئے جن میں 20 ماہ کی ایک بچی بھی تھی۔ گذشتہ تین ہفتوں کے دوران دو نوجوانوں کو مسلح عسکریت پسندوں نے بھی مخبری کے الزام میں قتل کر دیا۔ انھیں داعش کی طرز پر گلا کاٹ کر ہلاک کیا گیا اور بعد میں وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔

حبہ نامی یہ بچی فی الوقت سرینگر کے مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال میں زیرعلاج ہے۔ حبہ کی والدہ مرسلی جان کہتی ہیں کہ ان کے گھر کے باہر مظاہرے ہو رہے تھے اور مظاہرین پر فورسز آنسو گیس اور چھرے پھینک رہے تھے۔ ’گیس سے گھٹن ہو گئی تو میں کھڑکی کھولنے کی کوشش کی تو اسی اثنا میں چھرے اندر آ گئے۔ میں نے بچی کے چہرے پر ہاتھ رکھا لیکن چھروں نے اسے زخمی کر دیا۔‘

حبا کے والد نثار احمد کا کہنا ہے کہ گنجان آباد علاقوں میں فوجی آپریشن کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں تو فورسز رہائشی مکانوں کو بھی اندھادھند نشانہ بناتی ہیں۔

کشمیر

                                           بچی کے والد

ہلاکتوں کے خلاف مشترکہ مزاحمتی فورم کے رہنماوں سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور یاسین ملک کی کال پر پیر کے روز وادی بھر میں ہڑتال کی گئی۔ اتوار کو بھی فورم کے کارکنوں نے لال چوک میں مظاہرے کیے۔

فورم کے ایک بیان میں بتایا گیا کہ ’ایک منصوبہ بند طریقے سے کشمیریوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے جس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔‘

قابل ذکر بات ہے کہ کشمیر میں گذشتہ دو سال سے عسکریت پسندوں کے خلاف فوج نے ’آپریشن آل آوٹ‘ شروع کیا ہے جس میں اب تک 300 سے زیادہ عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ تاہم فوج کہتی ہے کہ اب بھی وادی میں اتنی ہی تعداد میں مسلح عسکریت پسند سرگرم ہیں۔

سیاسی جماعتوں اور سماجی حلقوں کی طرف سے ’مسکیولر پالیسی‘ کی شدید مخالفت کے باوجود یہ آپریشن جاری ہے۔ آپریشن کی شدت جنوبی کشمیر میں زیادہ ہے کیونکہ فوج کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کی زیادہ تعداد جنوبی کشمیر کے چار اضلاع اننت ناگ، پلوامہ،شوپیان اور کولگام میں سرگرم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp